اس ہفتے ریاض میں منعقدہ رقص و سرود کی ’’دبنگ‘‘ محفل اور بھارتی اداکاروں کے رقص کی وڈیوز و تصاویر نے سوشل میڈیا پرخوب بھونچال برپا کیا۔ ٹوئٹرپر آل سعود گستاخ اسلام کے ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ بھی بنا۔عبایہ وحجاب پر بیان، بھارتی اداکار کے ہاتھوں کے نشان، سعودی پرچم کو (حالت نشہ میں) رقص کی محفل میں لہرانا، اسرائیل محبت بیانات، علامہ اقبال کے اشعار، مودی و میکرون کی سعودی بادشاہ سے ملاقات کے کلپس، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پرانے تقریروں کے کئی کلپس، اس ٹرینڈ کا حصہ رہے۔ سب سے اچھا تبصرہ مہتاب عزیز نے اپنی وال پر قرآن مجید کی اس آیت و ترجمہ کے ساتھ کیا ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں‘ تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘
مملکت العربیہ السعودیہ، کٹھ ملائیت، قوم پرستی اور آمریت کا سب سے عمدہ شاہکار ہے۔ یہی وہ مکس قوام ہے، جو مابعد نوآبادیاتی ایشیا اور افریقہ میں مغرب کی ضرورت ہے۔ اسی کے ذریعے مغربی طاقتیں زمینوں پر براہ راست کنٹرول نہ ہونے کے باوجود مقامی وسائل کے مکمل استحصال کی اہل ہوتی ہیں۔ سعودی عرب ’’آل شیخ‘‘ کی ہمرائی میں قائم ’’آل سعود‘‘ کی ’’مطلق العنان بادشاہت‘‘ ہے۔ مملکت کا سارا نظام ’’بدترین قومیت پرستی اور نسل پرستی‘‘ پر مبنی ہے۔ مخصوص ملک سے مسلکی تعلق رکھنے والے لوگ سوال کرتے رہے کہ اب ٹی ایل پی خاموش کیوں؟ کسی نے بولا کہ جب وہ نکلتے ہیں تو تمہیں تکلیف بہت ہوتی ہے، اب خود نکلو تو پتا چلے۔ ویسے اس پر ہر طرف سے خاموشی ہی رہی‘ جو ٹرینڈ چلا وہ خاص طرف سے ہی چلا جو سعودی حکومت کی قرض دار نہیں۔ باقی سب یا تو قرض دار ہیں یا تنخواہ دار اس لیے مکمل سکوت رہا۔ مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ میں تو پہلے سے ہی بتا رہا تھا ہاں تکلیف ضرور ہوئی۔ پانی سر سے اوپر جاچکا۔ کا ٹرینڈ پاکستان کی لسٹ میں کم از کم میرا منہ چڑا رہا تھا کہ ’’روک سکو تو روک لو۔‘‘
ٹائم میگزین نے اس پر خصوسی رپورٹ شائع کی تھی جو اس ٹرینڈ کا نمایاں حصہ تھی۔رپورٹ کے مطابق جرنل آف ایڈولیسنٹ ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صنفی تصدیق کرنے والے ہارمون تھراپی (GAHT) کا استعمال ٹرانس جینڈر اور ایسے نوجوانوں میں ڈپریشن، خودکشی یا اس کے خیال کو کم کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس تحقیق کو امریکابھر سے13سے 24 سال کے 34000 ہم جنس پرستوں سے اکتوبر تا دسمبر2020 انجام دیا گیا۔صنف کی تصدیق کرنے والے ہارمون تھراپی کا مقصد کسی کی جنسی خصوصیات کو ان کی صنفی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ مطلب متعلقہ ہارمونز کی جسم میں منتقلی کی جاتی ہے۔ ٹرانس اور نان بائنری نوجوانوں کے طبی علاج کے بارے میں غلط معلومات مستقل پھیلائی جا رہی ہیں۔ ایل جی بی ٹی کیو کی وکالت کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمپین کے مطابق ایک سال میں مختلف امریکی ریاستوں میں ایسے 35 بل منظور ہوئے جن کا مقصد ٹرانس نوجوانوں کے لیے طبی دیکھ بھال پر پابندی لگانا تھا۔یہ ٹھیک ہے کہ معاشرہ میں ایسے افراد کی قبولیت نہیں ہے، اسی عدم قبولیت نے زیادہ ترخرابیوں کی راہ نکالی ہے، جو فرد کوانتہائی درجہ مایوسی کی جانب یعنی خودکشی تک پہنچاتا ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر تو شیطان خدائی ساخت میں تبدیلی کا وعدہ یا چیلنج پورا کرتا ہے۔ ہارمونز کی تبدیلی کا گیم یہی تو ہے جسے قبولیت کا درجہ دلانے کے لیے سب کوشاں ہیں۔ اچانک سے پری زاد ڈراما پر کیوں تبصرے شروع ہوگئے۔ اس کی گہرائی میں گیا تو بعینہ یہی ایجنڈا ملا کہ ’’جنسی تبدیلی تو معمولی سی سائنس ڈاکٹری عمل ہے اس میں والدین پریشان نہ ہوں اس میں اب کوئی حرج نہیں۔‘‘
بس یہ حرج نہیں ، حرج نہیں کہہ کر بنی نوع آدم کو غفلت میں ڈالتا ہے اور اپنا وار کر دیتا ہے۔ امریکا جیسے ملک میں اس کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے جب کہ پاکستان جیسے ملک میں اس کو مستقل بہانے بہانے سے موضوع بنایا جا رہا ہے۔یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے، ہالی ووڈ تو پہلے یہی کام کرتا ہے کہ کوئی چیز جو آنے والی ہو اس کے بارے میں ایک خاص انداز سے اس تبدیلی کے بارے میں ڈی سینسیٹائز کر دیتا ہے تاکہ آپ پہلے ہی اس کے لیے منتظر ہو جائیں بجائے اس کے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ یہ کام وہ ہر نئی چیز کو سرایت کرانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس کی اہم مثال ’ورچوئل دنیا‘ جس کا ذکر ہم نے پچھلی بار ’میٹا ورس‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ اس موضوع پر گزشتہ ایک دہائی سے فلمیں بنا بنا کر سب کو اس ورچوئل دنیا کا منتظر بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے ہم جنس پرستی کو قبول عام کرنے کے لیے بھی بتدریج کام کیا ہے یہ تمام چیزیں پہلے بھارتی فلموں سے، پھر ویب سیریز اور اب ہمت بڑھتے بڑھتے ٹی وی چینل پر پہنچ گئی۔
نیٹ فلکس پر صرف امسال 20کے قریب فلمیں و شوز اس موضوع پر جاری کی گئیں جن کا ایجنڈا، کہانی، پیغام خالص شیطانی تھا۔ ہم چوں کہ بھارت کی نقل میں نمبر ون ہیں اس لیے بھارت پر براہِ راست کام کیا جا رہا ہے۔ اسی ہفتے بھارت میں اسی موضوع پر ایک اورفلم ریلیز ہوئی۔ گوکہ فلمی مبصرین اور اس فلم کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ کسی خاتون کی ایسی دو بیٹیاں تھیں جن کی کہانی سن کر اس نے اس موضوع کو لیا اس نے اپنے تمام انٹرویوز میں اس موضوع کو ’’پروگریسیو، مگر آئی اوپنر‘‘ کاعنوان دیا۔ یہ سب تباہی انٹرنیٹ اور چھوٹی بڑی اسکرینوں کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہے۔ دین سے دوری، دین کے فہم سے دوری، مغربیت کو صرف قریب ہی نہیں لاتی بلکہ تصور دین کو بھی مسخ کر دیتی ہے۔
یہ سارے تانے بانے جڑے ہوئے ہیں، اب بیچ میں میٹا ورس کا ذکر آگیا تو اس کو بھی جوڑتے چلیں۔ مارک زکر برگ کی جانب سے پیش کردہ اس منصوبے میں ہم جنس پرستوں کی جانب متوجہ کرنے اور اس دنیا میں ان کے لیے خصوصی مقام کے بھی صاف اشارے دیے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع بن گیا ہے کہ لوگ معذرت خواہانہ رویے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں خواہ وہ امریکی صدر ہی کیوں نہ ہو۔ سب کی کوشش صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں بھی ہم جنس پرستی کو عمومیت مل جائے۔ سارا زور اسی بات پر محسوس ہوتا ہے جو یہ صاف بتاتا ہے کہ یہ چیز ’’کہیں اور‘‘ سے ہی آ رہی ہے۔ اب اس کے لیے ’’میٹاورس‘‘ ایک آسان سہولت ہوگی۔
ایک وقت تھا جب انسان کے لیے گناہ کرنا بہت آسان نہیں تھا‘ اس کو گناہ کے لیے کہیں جانا ہوتا تو چہرہ چھپانا پڑتا تھا۔ مگر اب اس دنیا میں آپ صرف چشمہ لگا کر جو چاہیں اس کر سکیںگے۔ دس سال قبل کی دنیا میں جب سوشل میڈیا اتنا نہیںفروغ پایا تھا‘ اُس وقت میں اور آج کی صورت حال میں یہی بات سامنے آئی کہ گناہوں‘ مطلب دل کی ہر قسم کی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے فاصلے بڑھا دیے گئے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ انسان جب اس دنیا میں جا ئے گا اور من مرضی کی چیزیں کر کے لوٹ کر واپس حقیقی دنیا میں آئے گا اور وہاں کے مسائل کا سامنا کرے گا تو مزید اینگزائٹی بڑھ جائے گی اور آپ واپس اس دنیا میں سکون پانے جانا چاہیں گے۔ بس اس پراجیکٹ میں اس کے مالک کو یہی مطلوب ہوگا۔
یاد رہے کہ آسانی کے نام پر ٹیکنالوجی کا استعمال الگ بات ہے اور اس ٹیکنالوجی کی لت میں پڑ جانا بالکل الگ چیز ہے۔ ہر وہ چیز جو ہمیں دنیا سے کاٹ دے یعنی ہمارا وقت اس دنیا میں ہو مگر ہم دنیا سے بالکل کٹے رہیں، اس دائرے میں موسیقی، فلمیں، ڈرامے، ویب سیریز، وڈیوگیمز، منشیات، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور اب یہ میٹا ورس بھی اس کا اہم حصہ بن گیا ہے کہ اس میں اسکرین نہیں ہوگی جو ہوگا اس چشمہ پہن کر اس کے ڈیجیٹل عدسے کے ذریعہ ہوگا۔ میں یہ بھی کہتا چلوں کہ یہ سارے پلیٹ فارم مسلمانوں کے نہیں ہیں‘ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ممکنہ طور پر مثبت، کام ہو سکیں، انٹرٹینمنٹ اور آسانیوں کے نام پر قائم اس دنیا میں خیر کے کام بھی ہو سکتے ہیں۔ ہر زمین خریدنے والا وہاں دکان، بازار یاکوئی ہوٹل وغیرہ نہیں بنائے گا۔ یقینا وہاں بھی کوئی اسلامک سینٹر، مساجد، دینی اجتماعات بھی منعقد ہوں گے، جہاں تک فیس بک اجازت دے گا کیوں کہ اس کو تو گاہگ چاہیے کہ جتنے لوگ اس کی دنیا میں آئیں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ کمائے۔ جسمانی مضر اثرات بلا شبہ اپنی جگہ ہوں گے۔
اسی سال فروری میں پڑوسی ملک میں 5گھنٹہ گیم کھیلتے کھیلتے ایک 16سالہ بچہ وہیں مر گیا، اس سے قبل تائیوان میں 18سالہ لڑکا مسلسل 40 گھنٹے وڈیو گیمز کھیلنے کے بعد صرف دو قدم چل کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ یہ معمولی مثالیں نہیں ہیں یہ سمجھانے کے لیے کہ ان تمام چیزوں میں کھو کر انسان دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔
انسان کو جہنم میں لے جانے کے ٹولز میں شیطان کے وعدوں میں دوسرا وعدہ بہکانے کا ہے۔ شاید کسی کو لگتا ہو کہ ملک سیاست دان چلاتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ سرمایہ دار ہی دنیا کو ایک لائن پر لگانے کا کام کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ جو ’’لہو الحدیث خرید کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔‘رسول اللہ ؐ کے دور میں تو قریش مکہ کے یہ وہی سرمایہ دار ٹائپ لوگ تھے جو نبیؐ کے کلام سے توجہ ہٹانے کے لیے دیگر ممالک سے خواتین کو بلوا کر ناچ گانے کی محافل سجاتے تھے تاکہ اس موسیقی سے لوگوں کو رسول اللہؐ کی جانب جانے سے روکا جا سکے۔ اس سے بڑھ کر بہکانا اور کیا ہوگا کہ انسان اپنے آس پاس کی حقیقت سے دور ہوجائے، دنیا بھر میں لوگ 22 کھلاڑیوں کے ایک میچ میں اتنا محو ہو جاتے ہیں کہ میدان بھرے نظر آتے ہیں اور لوگ فرائض تو دور کی بات اپنے گرائونڈ کے باہر ، اپنے گھر اور اہل خانہ سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ وہاں سے نکل کر پھر کسی اور اسکرین سے جڑ جاتے ہیں، رات رات بھر سیریز دیکھتے ہیں، نشے کی جانب بھی چلے جاتے ہیں۔ اس وقت امت کی جو مجموعی حالت ہے اُس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اگر تم وہ جان لو تو کم ہنسو اور زیادہ رو، وہی یاد آتا ہے کہ ہم انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں اس طرح جت گئے ہیں کہ حقیقی مسائل کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔
ایسی غفلت کی اس ہفتہ کی تازہ مثال 16 دسمبر کو بھی نظر آئی۔ اے پی ایس کی یاد ایک دن قبل ہی تازہ کرنی شروع کر دی گئی تھی، اس بار پھر محسوس ہوا کہ جان بوجھ کر 16دسمبر کے اہم سانحہ ’’سقوط مشرقی پاکستان ‘‘ کو لوگوں کے ذہنوں سے نکالاجا رہا ہے۔
دوسری جانب صرف ’ 16دسمبراورپاکستان ٹوٹ گیا ‘، ’دل پہ نقش ہے ڈھاکا ‘ہی نظرآیا۔ اب یہ بنیادی فرق ذہن میں رہے کہ سانحہ اے پی ایس ایک خاص ادارے کو مظلوم اور ہمدردی پیدا کراتا ہے جب کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ضمن میں جو کچھ شیئر ہوتا ہے وہ اس ادارے کے لیے شدید سبکی کا باعث ہوتا ہے، اصل میں تو اس تاریخی واقعہ سے سبق لینے اور آئندہ کے لیے حکمت عملی بنا کر ایسے حالات سے پاکستان کو بچانا مطلوب ہوتاہے۔ مگر افسوس کہ اپنی غلطیاں سدھارنے اور پاکستان کو بچانے کے بجائے ایک بار پھر کراچی تا گوادر بلوچستان محرومیوں و لسانیت کی آگ میں جلا چھوڑا ہے۔