آلوک پرانک کا تجزیہ
(کوئی بھی نہیں جانتا کہ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی (بِٹ کوائن وغیرہ) کی قدر میں انتہائی حیرت انگیز اضافے کا اصل سبب کیا ہے۔ نئی نسل میں کرپٹو کرنسی ایک کریز یا جنون کی طرح مقبول ہورہی ہے۔ آن لائن کے شوقین بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز میں بڑے پیمانے پر لین دین کررہے ہیں۔ کرپٹو کرنسی کی اصلیت کیا ہے، اِس پر غور کرنے کی توفیق کسی کو نہیں۔ آج دنیا بھر میں آن لائن لین دین عام ہے۔ الیکٹرانک ٹرانسفر کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس نوعیت کی ادائیگی میں وقت اور افرادی قوت کی غیر معمولی بچت مضمر ہے۔ کاروباری دنیا چاہتی ہے کہ لین دین کا عمل تیزی سے مکمل ہو اور جو کچھ چاہیے وہ آسانی اور تیزی سے حاصل ہوجائے۔ آن لائن بینکنگ اور آن لائن منی ٹرانسفر جیسی سہولتوں نے کاروباری دنیا کو بہت سی الجھنوں سے آزاد کردیا ہے۔ ایسے میں لوگ کرپٹو کرنسی کی طرف بھی متوجہ ہورہے ہیں۔ کرپٹو کرنسی بھی آن لائن ادائیگی کے لیے بروئے کار لائے جانے والے آلہ ہائے کار میں سے ہے۔ کرپٹو کرنسی تیزی سے ادائیگی کا اہم ذریعہ ثابت ہورہی ہے مگر اس حوالے سے بہت سے اشکالات بھی ہیں، الجھنیں بھی ہیں۔ حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حوالے سے معاملات کو دیکھیں، کیونکہ کرپٹو کرنسی کی شکل میں کی جانے والی سرمایہ کاری محض انفرادی معاملات ہی کو نہیں بلکہ ریاستی معاملات کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔)
…٭…
دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بحث نے زور پکڑ لیا ہے۔ اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ حکومتیں اس حوالے سے بہت جلد قانون سازی کی طرف بھی جاسکتی ہیں۔ کرپٹو کرنسی ہے کیا؟ اِس سوال کا جواب اب تک بیشتر حکومتوں اور مرکزی بینکوں کے پاس نہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر بہت سوں نے اس میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو طرح کے ممالک میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے حکومتی ردِعمل ملا جلا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ بہت کام کی چیز ہے جس سے کاروباری لین دین میں تیزی آئے گی۔ کسی کے خیال میں یہ سرمایہ کاری کے بہترین طریقوں میں سے ہے۔ دوسری طرف بہت سے لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے۔ اُن کی نظر میں کرپٹو کرنسی مایا جال ہے جس میں پھنس کر لوگ برباد بھی ہوسکتے ہیں۔ بہت سوں کی نظر میں کرپٹو کرنسی دراصل پانی کے بلبلے کی سی حیثیت رکھتی ہے اور یہ بلبلہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کے حامی اور مخالفین ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی اس حوالے سے مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی مانے اور کس کی نہ مانے۔
جنوبی ایشیا میں کرپٹو کرنسی کا غلغلہ ابھی پوری طرح بلند نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں کچھ ہی لوگ اس کرنسی کے بارے میں جانتے ہیں اور اب تک گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اعلیٰ طبقات کے کچھ لوگ یا پھر چند سر پھرے نوجوان کرپٹو کرنسی کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ مجموعی طور پر بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔ بھارت جیسے بڑے ملک میں کرپٹو کرنسی میں لین دین کرنے کے حامیوں کی معقول تعداد موجود ہے۔ اس حوالے سے حکومت بھی پریشان ہے اور اب تک کچھ فیصلہ نہیں کر پارہی۔ ریزرو بینک آف انڈیا اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج بورڈ تاحال کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ کرپٹو کرنسی کیا ہے اور کیا نہیں یہ سمجھنا بھلے ہی آسان نہ ہو مگر ہر بڑی معیشت کو اِسے کنٹرول کرنے کے بارے میں جلد یا بدیر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ ایسا کیے بغیر عالمی معیشت میں کرپٹو کرنسی کے کردار کو کارگر بنانا ممکن نہ ہوسکے گا۔
دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کاروباری لین دین کے علاوہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کے لیے بھگتان کی خاطر بھی بروئے کار لائی جاسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کرپٹو کرنسی کس نے جاری کی ہے اور اِس کا حتمی بھگتان کون کرے گا۔ دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے سلسلے میں کرپٹو کرنسی کا استعمال خارج از امکان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرپٹو کرنسی سے صرف انفرادی سرمایہ کاروں کو نہیں بلکہ حکومتوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کرنسی کے طور پر استعمال کیے جانے کے باوجود کرپٹو کرنسی کو کرنسی مانا ہی نہیں جاسکتا۔ کاغذ کے کسی بھی ٹکڑے کو کرنسی کے طور پر اُسی وقت قبول کیا جاسکتا ہے جب اُس کے جاری کرنے والے کے بارے میں کوئی شک نہ پایا جاتا ہو۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کے بھگتان کی ذمہ داری اُس ملک کے مرکزی بینک کا گورنر یا سربراہ قبول کرتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
سرمایہ کاری کی تاریخ طرح طرح کی بے وقوفیوں سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی مزاج میں موجود لالچ سرمایہ کاری کے نام پر احمقانہ حرکتوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے پوچھیے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہو بھی کیسے؟ کرپٹو کرنسی کا کوئی جاری کرنے والا تو ہے نہیں۔ کوئی بھی حکومت یا علاقائی و عالمی تنظیم اس کے عوض بھگتان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔ ایسے میں اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے کہ کیا کرپٹو کرنسی کوئی شیئر ہے، یا سونے میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے، یا کیا یہ املاک میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے؟
شیئرز کسی بھی کمپنی کے حصے ہوتے ہیں۔ ہر شیئر کی قدر اُس کمپنی کی کارکردگی کی بنیاد پر چڑھتی یا اُترتی ہے۔ اگر کمپنی غیر معمولی منافع کمارہی ہو تو اُس کے شیئرز کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ بٹ کوائن کسی بھی کمپنی میں کوئی حصہ نہیں دیتا۔ یہ کسی بھی طرح کی املاک میں بھی حصہ نہیں دلواتا۔ بٹ کوائن کسی بینک کا ڈپازٹ بھی نہیں، کیونکہ کوئی بھی بینک اِس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ بٹ کوائن سونا بھی نہیں ہے، تو پھر آخر یہ ہے کیا؟
بٹ کوائن دراصل ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا کی گئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ سب سے بڑی غلط فہمی تو یہ ہے کہ اِس کی قدر میں محض اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ قیمت آلو کی ہو یا شیئر کی، سونے کی ہو یا کسی کرنسی کی… معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ طلب بڑھے گی تو قدر بڑھے گی۔ اور طلب کے بڑھنے پر بھی قدر میں زیادہ اضافہ اُس وقت ہوگا جب رسد کم ہو۔ سونا کچھ نہیں کرتا، کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا، یہ تجوریوں میں بند رکھا جاتا ہے، مگر چونکہ طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے اِس لیے اِس کی قدر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ املاک کی قیمت بڑھنے کا بھی بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ طلب کے مقابلے میں رسد کم ہوتی ہے۔ بٹ کوائن یا کسی اور کرپٹو کرنسی کے بارے میں پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ طلب کے مقابلے میں اِس کی رسد کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اِس کے بارے میں کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ طلب یا رسد اصلی ہے بھی یا نہیں۔
شیئر کو بیچا جاسکتا ہے، منافع سے کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سونا پہنا جاسکتا ہے، بیچ کر کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ مکان میں رہا جاسکتا ہے، فیکٹری میں کام کیا جاسکتا ہے۔ عام کرنسی کے ذریعے کچھ بھی حاصل کرنا ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی سے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کرپٹو کرنسی کی قدر میں اضافہ کس بنیاد پر ہورہا ہے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ لگا رکھا ہے۔ سرمایہ کاروں کی یہ تعداد بھلے ہی بھارت کی آبادی کا ایک فیصد ہو مگر یہ نیوزی لینڈ کی آبادی کا تین گنا ہے۔ حکومت اب کرپٹو کرنسی کے حوالے سے قانون سازی کی بات کررہی ہے۔ حکومت جاگی تو ہے مگر بہت دیر سے۔
لالچ انسانی مزاج کے بنیادی اجزاء میں سے ہے۔ لالچ کے ہاتھوں دنیا بھر میں کروڑوں بلکہ اربوں افراد شدید الجھنوں کا شکار رہے ہیں۔ ہر دور میں لالچ ہی نے انسان کو مسائل کی دلدل میں دھنسایا ہے۔ یہ لالچ ہی تو ہے جو سیدھی اور سادہ معاشی سرگرمیوں کو بھی خرابیوں کی نذر کرتا ہے۔ انسان جو کچھ آسانی سے اور زیادہ محنت کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے وہ لالچ کے ہاتھوں غیر معمولی محنت کے بعد بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔
مالیاتی منڈیوں میں لالچ ہی بنے بنائے معاملات کو بگاڑتا ہے۔ ہر دور میں ہر معاشرہ لالچ کے ہاتھوں کِھلائے ہوئے گُلوں سے ’’مہکتا‘‘ رہا ہے۔ اس وقت بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشرے مالیاتی معاملات میں ایسا بہت کچھ کررہے ہیں جو محض لالچ کا نتیجہ ہے۔ عام آدمی زیادہ منافع یا اپنے سرمائے کو تیزی سے دُگنا کرنے کے لالچ میں جمع پونجی سے یوں محروم ہوجاتا ہے کہ پھر زندگی کو ختم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں سُوجھتا۔ جنوبی ایشیا کے معاشروں میں مالیاتی معاملات کے حوالے سے دکھایا جانے والا لالچ عام ہے۔ رہائشی، انعامی منصوبوں اور لاٹریز کے ذریعے عام آدمی کو جی بھر کے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ نوکری دلانے کا جھانسا دے کر بھی لوگوں سے جمع پونجی چھین لی جاتی ہے۔ بیرون ملک کام دلانے کا جھانسا دے کر بھی خطیر رقوم بٹور کر لوگ اُڑن چُھو ہوجاتے ہیں۔ کرپٹو کرنسی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہندی والے اِسے ’’آبھاسی مُدرا‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ آبھاس یعنی شائبہ، آبھاسی یعنی جس کے وجود کا محض شائبہ ہو، اور مُدرا یعنی کرنسی۔ جو لوگ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ لگارہے ہیں خود اُنہیں بھی معلوم نہیں کہ حتمی بھگتان کہاں سے کروائیں گے، کون اُنہیں اُن کا سرمایہ منافع کے ساتھ واپس کرے گا۔ اور یہ کہ ایسا کب ہوسکے گا؟
سترہویں صدی میں نیدر لینڈز (ہالینڈ) میں اچانک ایک جنون سا اٹھا کہ گلِ لالہ میں سرمایہ کاری کی جائے۔ لوگوں پر یہ جنون اس حد تک سوار ہوا کہ انہوں نے گھر بیچ کر بھی گلِ لالہ میں سرمایہ کاری کی۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی یا بٹھادی گئی تھی کہ گلِ لالہ کے دام بلند ہی ہوتے رہیں گے۔ پھر ایک دن وہی ہوا جو عام طور پر ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔ ایک دن گلِ لالہ کے دام اچانک زمین پر آرہے اور ہزاروں افراد کی زندگی بھر کی کمائی ڈوب گئی۔ مالیات کی دنیا میں اچھا خاصا دھندا بے وقوف اور لالچی لوگوں کی بنیاد پر چلتا ہے۔ کسی نے بٹ کوائن لانچ کیا سو ڈالر میں۔ اسے ایک ہزار ڈالر میں خریدنے والا احمق مل گیا۔ ہم اور آپ کرپٹو کرنسی کو رو رہے ہیں، دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مریخ پر پلاٹس کی خرید و فروخت میں بھی مصروف ہیں۔ یہ سب یونہی چلتا رہتا ہے۔ ایک دن پتا چلتا ہے کہ مارکیٹ میں کوئی خریدار نہیں۔ اور یوں سارا تان توبڑا زمین پر آرہتا ہے۔
1992ء میں بھارت میں بھی یہی ہوا تھا۔ ہرشد مہتا نے پوری اسٹاک مارکیٹ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ شیئرز کے دام راتوں رات دگنے ہورہے تھے۔ مارکیٹ میں احمقوں کی کمی نہ تھی۔ شیئرز بیچنے والوں کو خریدار مل رہے تھے۔ لاکھوں افراد نے دل کھول کر خریداری کی۔ پھر ایک دن وہی ہوا جو ایسے معاملات میں عام طور پر ہوا کرتا ہے۔ مارکیٹ دھڑام سے بیٹھ گئی۔ سیکڑوں ارب روپے ڈوب گئے۔ لوگ زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوگئے۔
جب کسی بھی چیز کی قیمت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہو تب عقلِ سلیم سے کام لینا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اگر کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مارکیٹ میں مہم جُوئی سے مجتنب رہنا چاہیے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اپنی پونجی اُسی طور کھو بیٹھتے ہیں جس طور بعض خواتینِ خانہ گہنے دگنے کرکے دینے والی مائیوں کے ہاتھوں لُٹ جاتی ہیں۔ بہت سے مرکزی بینکوں نے کئی بار انتباہ کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں اس لیے اِس میں سرمایہ کاری نہ کی جائے، مگر لوگ لالچ کے ہاتھوں مجبور ہوکر سرمایہ لگائے جارہے ہیں۔ ایک دن یہ ہوگا کہ پورا توبڑا زمین پر آرہے گا اور تب سر پکڑ کر رونے کے سوا آپشن نہیں رہے گا۔ اس وقت کسی بھی ملک میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، یعنی کوئی اگر دھوکا کھا بیٹھے تو کہیں شکایت بھی نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی اب بھی کرپٹو کرنسی میں لین دین کرتا ہے یا سرمایہ لگا رہا ہے تو اپنی ذمہ داری پر ہی ایسا کررہا ہے۔ کوئی بھی حکومت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کسی بھی سطح کی ذمہ داری قبول نہیں کررہی۔ اگر کسی بھی معاملے میں سالانہ دس گیارہ فیصد سے زیادہ منافع کی بات کی جائے تو اُسے شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لالچ شک کو ختم کردیتا ہے۔
nn