زید نے عاصم کے ہاتھ سے تلوار لے لی۔ وہ غصے سے کانپ رہا تھا۔ عاصم نے دوزانوں ہو کر گردن جھکادی۔ زید نے تلوار کے دستے پر ہاتھ ڈالا لیکن نیام سے آدھی تلوار کھینچنے کے بعد اُس کا ہاتھ رُک گیا، اُس نے بے بسی کی حالت میں قبیلے کے معمر سردار کی طرف دیکھا۔ اور کہا ’’میں اس پاگل کو پناہ دے چکا ہوں‘‘۔
ایک اور آدمی بولا۔ ’’لیکن ابھی تم یہ کہہ رہے تھے کہ اسے اپنے گھر میں پناہ دینا تمہاری زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ دوسرے نے کہا۔ ’’زید اسے پاگل کہہ کر اپنی خفت مٹا سکتا ہے لیکن اس نے ہماری دوستی کا ہاتھ جھٹک کر پورے قبیلے توہین کی ہے۔ اس کی کم از کم سزا یہی ہے کہ اسے بنواوس کے پاس واپس بھیج دیا جائے‘‘۔
بوڑھے سردار نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’نہیں نہیں اگر زید ایک پاگل آدمی کو پناہ دے چکا ہے تو ہم اس کے ساتھ بدعہدی نہیں کرسکتے۔ ہماری حدود میں اس کا بال بیکا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
’’اور ہماری حدود سے باہر؟‘‘ ایک نوجوان نے پوچھا۔
سردار نے جواب دیا۔ ’’حدود سے باہر زید کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے‘‘۔
زید نے عاصم کو اُس کی تلوار واپس دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو، مجھے ایک بزدل آدمی کی تلوار کی ضرورت نہیں‘‘۔
عاصم نے پہلی بار اپنی مردہ رگوں میں خون کی حرارت محسوس کی لیکن یہ کیفیت ایک ثانیے سے زیادہ نہ رہی۔ اُس نے اپنی تلوار لے کر نیام سے نکالی اُس کی نوک زمین پر رکھ کر درمیانی حصہ پر پائوں کا دبائو ڈالا اور دیکھتے دیکھتے اُس کے دو ٹکڑے کردیے۔ اِس کے بعد دستے والا حصہ ایک طرف پھینک کر مڑا اور تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا اصطبل کی طرف چل دیا۔
حاضرین کچھ دیر، دم بخود، ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر قبیلے کے بڑے سردار نے کہا۔ ’’یہ دیوانہ کوئی بہت بڑاا صدمہ اٹھا چکا ہے، اسے جانے دو… اور بنو اوس کو یہ پیغام بھیج دو کہ تمہارا مجرم ہماری پناہ سے نکل چکا ہے‘‘۔
زید نے کہا۔ ’’اگر یہ بذاتِ خود یثرب کی طرف نہ چلا گیا تو بنو اوس اسے نہیں پکڑسکیں گے‘‘۔
دولہا کا باپ جو اب تک خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ زید سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’زید، یہ خوشی کا دن ہے ہمیں ایک دیوانے کو معاف کردینا چاہیے۔ میں قبیلے کے تمام لوگوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اِس کا پیچھا نہ کریں‘‘۔
ایک نوجوان نے احتجاج کیا۔ ’’لیکن ہمارے لیے یہ پابندی صرف اپنے علاقے کی حدود تک رہنی چاہیے۔ اس کا گھوڑا بہت قیمتی ہے اور اس کی جیب بھی خالی نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا، تو اس کا سامان راستے میں کسی اور کے کام آئے گا‘‘۔
بوڑھے سردار نے کہا۔ ’’اب مجھے یقین ہوچکا ہے کہ وہ دیوانہ ہے اور ایک دیوانے کو لوٹ لینا میرے قبیلے کے کسی آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ یہ کام ہمیں اُن حقیر لوگوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے جو صرف مُردوں کا لباس اُتارنا جانتے ہیں‘‘۔
باہر عاصم کے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد زید کا ایک نوکر آیا اور اُس نے کہا۔ ’’وہ پاگل اپنا ترکش اور کمان بھی وہیں پھینک گیا ہے‘‘۔
آگ اور صلیب
مشرق اور مغرب کی جنگوں کا نیا دور ایران میں کسریٰ نوشیرواں اور بازنطینی روم میں قیصر جسٹنین کے اقتدار کے ساتھ شروع ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رومی بڑی تیزی کے ساتھ مشرق اور مغرب کی طرف پھیل رہے تھے۔ اہل حبشہ حمیری فرمانرواں کو شکست دے کر یمن پر قبضہ کرچکے تھے اور چونکہ وہ مذہباً عیسائی تھے اِس لیے رومی اُن کی پشت پناہی کرتے تھے۔ ایرانیوں کو اپنے ہمسایہ ملک کے ایک اہم حصہ پر روم کے عیسائی حلیفوں کی فتح گوارا نہ تھی۔ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اہل حبشہ مشرق کی طرف رومیوں کے اثر و اقتدار کا راستہ صاف کررہے ہیں۔ شام اور عراق کی سمت عرب کی سرحدوں کے ساتھ غسانی اور لخمی خاندانوں کی منافرتیں بھی روم و ایران کے لیے وجۂ نزاع بن گئی تھیں۔ حیرہ کے لخمی حکمران ایرانیوں کے حلیف اور شام کے غسانی فرماں روا رومیوں کے باجگزار تھے۔ اور ان دو خاندانوں کی نہ ختم ہونے والی جنگیں رومیوں اور ایرانیوں کو بھی بتدریج میدان کارزار کی طرف دھکیل رہی تھیں۔
چنانچہ کسریٰ نوشیرواں نے ایران کے اندرونی خلفشار سے نجات حاصل کرتے ہی بازنطینی سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر دھاوا بول دیا اور شام کے باشندے پھر ایک بار آگ اور خون کے طوفان کی تباہ کاریاں دیکھ رہے تھے۔ لیکن قیصر روم کی مشرقی سلطنت جس کا دارالحکومت قدیم بازنطین یا قسطنطنیہ تھا۔ ۳۳۰ء کے بعد اسی سلطنت کو صحیح معنی میں رومی سلطنت سمجھا جاتا ہے۔
جسٹنین کے ہوشیار اور تجربہ کار جرنیل بلیساریوس نے ایرانی لشکر کی پیش قدمی روک دی، اِس کے بعد چند سال امن کے گزرے لیکن 540ء میں نوشیرواں نے تین لاکھ فوج کے ساتھ شام پر یلغار کی اور راستے کی آبادیوں کو تباہ و برباد کرنے کے بعد حلب کے خوبصورت شہر کو آگ لگادی۔ ان ایام میں رومی افواج یورپ میں برسرپیکار تھیں۔ نوشیرواں نے شام میں رومیوں کی کمزوری سے پورا فائدہ اٹھایا اور حمص کے تمام نواحی علاقے تباہ و ویران کرنے کے بعد انطاکیہ کی طرف جا نکلا۔ یہ قسطنطنیہ اور اسکندریہ کے بعد بازنطینی سلطنت کا تیسرا عظیم شہر تھا۔ اور ایرانی لشکر نے یہاں بھی حلف اور حمص کی طرح پوری سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کیا۔ شام کے کئی اور شہروں کو لوٹنے کے بعد نوشیرواں نے واپس مدائن کا رُخ کیا تو مفتوحہ علاقوں کے ہزاروں مرد اور عورتیں جنگی قیدیوں کی حیثیت سے، اُس کے ساتھ تھیں۔ ان قیدیوں کے لیے اُس نے مدائن سے ایک دن کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کیا۔
کچھ مدت آرام کرنے کے بعد اُس نے مشرق اوسط میں رومیوں کا رہا سہا اقتدار ختم کرنے کے لیے فلسطین پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ لیکن قیصر روم نے بلیساریوس کو جو اٹلی میں یورپ کے وحشی قبائل کے خلاف مصروف پیکار تھا دوبارہ مشرقی محاذ پر بلالیا۔ روم کے اسی تجربہ کار جرنیل نے اچانک ایران کی سرحد پر پہنچ کر نوشیرواں کو نہ صرف یروشلم کی طرف پیش قدمی کا ارادہ ملتوی کرنے پر مجبور کردیا بلکہ ایران کے لیے ایسی صورتِ حال پیدا کردی کہ نوشیرواں کے لیے اپنے لشکر کے اُن دستوں کو بھی واپس بلانے کے سوا کوئی چارئہ کار نہ رہا، جو ابھی تک ایشیائے کوچک میں لوٹ مار کررہے تھے۔ لیکن اُس وقت جب بلیساریوس فرات کے کنارے ایرانیوں سے کسی فیصلہ کن لڑائی کی تیاریاں کررہا تھا۔ قسطنطنیہ کے دربار میں اُس کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں اور اسے واپس بلالیا گیا۔ اس کے بعد روم اور ایران کے حکمرانوں ے مصالحت کرلی اور چند سال امن سے گزر گئے۔ جسٹنین کی وفات کے بعد روم کی عنان اقتدار اُس کے بھانجے جسٹنین ثانی کے ہاتھ میں آئی اور اُس نے بھی چند سال نوشیرواں سے اُلجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی لیکن اچانک یمن کے حالات نے روم و ایران کے درمیان تصادم کی ایک نئی صورت پیدا کردی۔
575ء میں یمن کے حبشی حکمران ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کی، اُس کا مقصد ایک طرف اُس قدیم تجارتی شاہراہ پر مکمل قبضہ جمانا تھا جو یمن اور شام کی تجارتی منڈیوں کو ملاتی تھی اور دوسرا مکہ کی مذہبی حیثیت کو ختم کرکے عرب میں عیسائیت کا راستہ صاف کرنا تھا۔ ابرہہ کو یقین تھا کہ مکہ میں خانہ کعبہ کو مسمار اور حجراسود کو وہاں سے اُٹھا کر یمن کے عبادت خانے میں منتقل کردینے کے بعد وہ مکہ کے بجائے یمن کو عربوں کی توجہ کا مرکز بناسکے گا اور اس طرح وہ عیسائیت کی طرف مائل ہوجائیں گے۔ اہل روم اس بات پر خوش تھے کہ عرب کے جنگجو قبائل عیسائیت قبول کرنے کے بعد ابرہہ کے زیر اثر اُن کے حلیف بن جائیں اور اُن کی متحدہ قوت ایرانیوں کے خلاف استعمال کی جاسکے گی۔ چنانچہ جب ابرہہ نے اپنے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تو قیصر اور کلیسا کے اکابر کی دعائیں اُس کی جلو میں تھیں۔ اب عرب کے بے آب و گیاہ صحرائوں کے پسماندہ جاہل اور بے راہ رو باشندوں کے مستقبل کے اُفق پر نئی تاریکیوں کا اضافہ ہونے والا تھا۔ کسی بیرونی تسلط سے آزادی اُن کی آخری نعمت تھی اور اب یہ نعمت بھی اُن سے چھیننے والی تھی۔ ابرہہ ایک ایسی فوج کا سپہ سالار تھا جن کا ہر سپاہی فتح کے یقین سے سرشار تھا۔ اُس کے سامنے وہ میدان تھے جو دشمن کی صفوں سے خالی تھے۔ وہ ایک ایسی بستی کو تاخت و تاراج کرنے جارہا تھا جس میں نہ فصیلیں تھیں، نہ قلعے۔
لیکن اہل مکہ کی تمام کمزوریوں اور بداعمالیوں کے باوجود احکم الحاکمین کو ابرہہ کے ہاتھوں اُس کے گھر کی تباہی منظور نہ تھی جس کی بنیاد خلیل اللہؐ نے رکھی تھی۔ وہ اِس گھر کو اُس چراغ کے لیے محفوظ رکھنا چاہتا تھا جس کے نور سے مشرق و مغرب کے ظلمت کدے روشن ہونے والے تھے۔
مغربی مورخ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہاں اُس کا مدمقابل کوئی نہ تھا۔ وہ اِس واقعہ کو بھی نہیں جھٹلاتے کہ اُسے عبرتناک شکست ہوئی تھی لیکن یہ بات اُن کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ ابرہہ کے ہاتھی ابابیلوں کے خدائی لشکر کے سامنے عاجز آگئے تھے۔
ابرہہ کی شکست سے عرب کو اپنے پنجہ اقتدار میں لانے کے متعلق رومیوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ پھر جب اُس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑی تو حمیری خاندان کا ایک شہزادہ گمنامی کے پردوں سے نکل کر مدائن پہنچا اور اہل حبشہ کو یمن سے نکالنے کے لیے نوشیرواں سے اعانت کا طلبگار ہوا۔ نوشیرواں ایک مدت سے موقعہ کا منتظر تھا۔ چنانچہ اُس نے کسی توقف کے بغیر یمن پر چڑھائی کردی۔ ایرانی افواج نے ایک ہی ریلے میں اہل جستہ کو یمن کی حدود سے باہر دھکیل دیا۔ لیکن حمیری شہزادے کو جلد ہی اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ اُس کی کوشش کا ماحصل آقائوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں۔ یمن جو قریباً نصف صدی تک اہل حبشہ کی شکار گاہ رہ چکا تھا اب ایرانیوں کی شکار گاہ بن گیا تھا۔ ایرانیوں کے ہاتھوں حبشہ کی افواج کی شکست کی اطلاع قسطنطنیہ پہنچی تو شہنشاہ جسٹنین نے نوشیرواں کے خلاف اہل حبش اور وسطی ایشیا سے لے کر مشرقی یورپ تک کے منگولی اور ترک قبائل کا ایک متحدہ محاذ بنالیا۔ نوشیرواں نے اہل روم کی جنگی تیاریوں کی اطلاع ملتے ہی چڑھائی کردی۔ جب وہ شام کے شہروں کو تاخت و تاراج کررہا تھا تو اُس کے ایک جرنیل آذرمان نے بابل سے پیش قدمی کی اور شمال مغرب کی طرف اپنے راستے کی بستیوں اور شہروں کو تباہ و برباد کرنے کے بعد انطاکیہ کے مضافات تک جا پہنچا۔ قسطنطنیہ کے عوام پر ایرانی فتوحات کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنے حکمران کے خلاف ہوگئے اور جسٹنین کو شرم و ندامت کے باعث اپنے تخت و تاج سے دستبردار ہونا پڑا۔ نئے حکمران طائبیریس نے ہوشمندی سے کام لے کر تین سال کے لیے عارضی صلح کرلی۔ لیکن اس دوران میں اہل روم پورے جوش و خروش کے ساتھ جنگ کی تیاریاں کرتے رہے۔ تین سال بعد رومیوں کی تیاریوں کا یہ عالم تھا کہ دریائے رائن سے لے کر ایلپس کے پہاڑوں تک یورپ کی جنگو اقوام کے قریباً ڈیڑھ لاکھ سوار مشرق کا رُخ کرنے کے لیے طائبیریس کے حکم کا انتظار کررہے تھے۔ نوشیرواں کو ان تیاریوں کی اطلاع اُس وقت ملی جب روم کے سفیر اُس کے دربار میں دائمی مصالحت کی تجاویز پیش کررہے تھے۔ چنانچہ ہوشیار سفیروں کو اُس کا آخری جواب یہ تھا کہ ’’تم جائو اور مزید گفتگو کے لیے قیساریہ میں ہمارے لشکر کی آمد کا انتظار کرو‘‘۔
چند ہفتے بعد ایران اور روم کے سپاہی دریائے فرات کے کنارے نبرد آزما تھے۔ ایرانی اپنے مورچوں سے تیروں کا مینہ برسا رہے تھے اور رومی دست بدست لڑائی کے لیے اُن کے قریب آنے کا انتظار کررہے تھے۔ ایک ترک سردار نے جو رومی لشکر کے دائیں بازو کی کمان کررہا تھا، اچانک ایرانی فوج کے میمنہ پر حملہ کردیا اور دشمن کی صفیں درہم برہم کرتا ہوا نوشیرواں کے کیمپ تک جا پہنچا۔ اُس نے شاہی خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں۔ سونے کی انگیٹھی میں مقدس آگ کے شعلے بجھادیے اور اپنے جانبازوں کے ساتھ فتح کے نعرے لگاتا ہوا واپس آگیا۔ اس کے بعد، باقی دن، فریقین اَکا دُکا حملوں پر اکتفا کرتے رہے۔ رات کے وقت جب رومی افواج آرام کے لیے پیچھے ہٹ گئیں تو ایرانیوں نے شب خون مار کر ان کا کیمپ لوٹ لیا، تاہم دن بھر کے نقصانات اور ان سے زیادہ مقدس آگ بجھ جانے کے باعث مجوسیوں کے حوصلے اِس قدر پست اور ان کا جوش اس قدر ٹھنڈا ہوچکا تھا کہ نوشیرواں کو پسپائی ہی میں خیریت نظر آئی اور اُس نے ایک ہاتھی پر سوار ہو کر دریائے فرات عبور کرلیا۔ رومیوں نے پیش قدمی کرکے بحیرئہ خزر کی چند بندرگاہوں پر قبضہ کرلیا اور ستر ہزار ایرانیوں کوقیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے جنہیں بعد میں سائبیریس بھیج دیا گیا۔
(جاری ہے)