میں جو کب سے ناول پڑھنے میں مصروف تھی‘ دادی کی آواز پر سر اُٹھا کر دیکھا، اُن کے جھریوں والے چہرے پر دو موٹے موٹے آنسو اس بات کے گواہ تھے کہ وہ اس وقت بہت کرب میں ہیں۔
میں نے جلدی سے ناول بند کیا اور دادی سے پوچھا ’’کیا ہوا آپ کے بازو کو…درد ہے کیا؟‘‘
’’نہیں… وہ تو کب کا ٹوٹ چکا، زخم ابھی تک رس رہا ہے، اس کے باوجود اپنے ہی لوگ پے درپے وارکیے جا رہے ہیں۔‘‘
میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے دادی کو دیکھا۔ دادی کو کیا ہو گیا ہے؟ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ شاید عمر کا تقاضا ہے۔
’’افوہ دادی!کب ٹوٹا اور کہاں سے ٹوٹا؟ مجھے تو نظر نہیں آرہا۔‘‘میں نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہی تو المیہ ہے ہماری نوجوان نسل کا، ڈراموں اور ناولوں کی کہانیاں تو سب کو یاد ہوتی ہیں لیکن یہ کہانی کسی کو بھی یاد نہیں۔‘‘
’’یہی تو پوچھ رہی ہوں دادی!‘‘پتا نہیں دادی کیا کہنا چاہ رہی تھیں، سمجھ سے باہر تھا۔
’’آج کیا تاریخ ہے ؟‘‘
’’16دسمبر…‘‘ میں نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ جواب دیا۔ ’’ان باتوں کا تاریخ سے کیا لینا دینا…؟‘‘
’’ہاں اسی دن ٹوٹا تھا۔‘‘
’’لیکن کیسے ؟‘‘ میں نے بھی بات کی تہہ تک پہنچنے کا تہیہ کر لیا تھا۔
’’رنگ و نسل کے تیز دھار اور زہریلے خنجر سے… جس سے بازو کاٹتے ہوئے لمحہ بھی نہ لگا… اور اب اس کا زہر پورے جسم میں سرایت کرتا جارہا ہے۔‘‘ دادی نے بڑے ہی دل سوز لہجے میں کہا۔
اب تو سچ مچ میرا دماغ گھوم چکا تھا۔ میں دادی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ میری نظر ان کے ہاتھ میں موجودکلینڈر پر پڑی جس پر نقشہ بنا ہوا تھا۔
’’دادی آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘
’’یہ پڑ ھو… یہ کیا لکھا ہوا ہے؟‘‘ دادی نے کلینڈر میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’بنگلہ دیش…‘‘
’’کیا جانتی ہو اس کے بارے میں؟‘‘
’’بنگلہ دیش بنگالی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’بنگالیوں کا دیس‘‘ جہاں زیادہ تر بنگالی رہتے ہیں… اور پتا ہے ان کی پسندیدہ ڈش مچھلی ہے… اور چاول تو ان کے دستر خوان کا لازمی جزو ہیں۔‘‘ میں نے بڑے فخر سے اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دیا۔
’’ہمم۔۔اور کیا جانتی ہو؟‘‘دادی نے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھیر تے ہوئے کہا۔ مسکراہٹ اگر چہ پھیکی تھی لیکن میری حوصلہ افزائی کے لیے یہی کافی تھی۔
میں نے جوش و خروش سے اپنی بات پھر سے شروع کی۔ ’’ہاں! اُن کا رنگ بھی سانولا ہوتا ہے اور وہ بنگلہ بولتے ہیں…‘‘ لیکن یہ کیا…؟ دادی کے چہرے سے مسکرا ہٹ یک دم غائب ہو گئی اور اس کی جگہ پھر سے پہلے والی کرب نے لے لی۔
’’اسی وجہ سے تو ٹوٹا تھا بازو…‘‘
’’اُف…دادی! پھر بات کوئی اور ہو رہی ہوتی ہے بیچ میں بازو کہاں سے آجاتا ہے؟ کیسا بازو…کہاں کا بازو…کس کا بازو۔؟‘‘اب تو میں پھٹ پڑی تھی۔
دادی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں بہنے لگیں۔ مجھے اپنے رویے پر بہت افسوس ہوا۔ لیکن میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑیں۔ ’’پاکستان کا بازو بیٹا!پاکستان کا بازو…مشرقی پاکستان۔‘‘
’’کیا…؟ مشرقی پاکستان…؟‘‘ میرے ذھن کی گتھیاں سلجھنے کے بجائے اور الجھتی جا رہی تھیں۔
’’ہاں مشرقی پاکستان‘ جو اب ’’بنگلہ دیش ہے۔‘‘
’’کیا…؟ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا۔؟‘‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
’’ہاں…‘‘
’’لیکن پھر پاکستان سے علیحدہ کیوں کر ہوا؟ اور مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کیسے بنا؟‘‘
’’مشرقی پاکستان سے لے کر بنگلہ دیش تک کا سفر…آہ! بہت لمبی ہے یہ داستان۔ پاکستان کو بنے ہوئے ابھی 25 برس ہی ہوئے تھے کہ یہ عظیم سانحہ پیش آیا۔ دشمن کو ہمارا سکون کب گوارا تھا۔ اس نے ہمارے درمیان رنگ و نسل اور لسانیت کا بیج بو دیا۔ لیکن غلطی ہماری تھی‘ ہم اس کی چال کو نہ سمجھ سکے۔ دشمن تو آخر دشمن ہے…وہ تو اپنا کام کرے گا۔‘‘
’’افوہ…دادی! ہماری غلطی کہاں سے ہو گئی؟ ہمیں کیا معلوم تھا کہ دشمن اتنی نیچ حرکت کرے گا۔‘‘
’’ہماری غلطی ہے… دشمن نے ہمیں تین طرف سے نشانہ بنایا… ثقافتی، سیاسی اور معاشی۔ انہوں نے ہمارے درمیان ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیاں، شکوک و شبہات کو فروغ دیا اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بہت بڑا تنازع بنا کر کھڑا کر دیا۔ انہوں نے بنگلہ دیشی عوام کے ذہن میں یہ بات بھر دی کہ معا شی اعتبار سے مشرقی پاکستان کے عوام کا خون چوسا جا رہا ہے‘ سیاسی اعتبار سے ان کو غلام بنایا جا رہا ہے… اور ان کی ثقافت کو مٹا یا جا رہا ہے۔‘‘
’’اس پورے ہنگامہ میں ان کا ساتھ کون دیتا تھا؟‘‘
’’یہ امریکا اور یورپ وغیرہ۔ انہوں نے ہی دیا ہوگا۔۔ہونہہ۔‘‘
’’خود تو بڑے امن کے دعوے دار بنے پھرتے ہیں…لیکن دوسروں کا امن گوارا نہیں ہے… جل ککڑے کہیں کے۔‘‘ میں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
’’نہیں…! ہماری خوش فہمیاں، ناتجربہ کاریاں، حماقتیں، بے حسی اور صحیح وقت پر فیصلہ کن اقدامات کی کمی۔ اگر ہم دشمن کو یہ سارے اتحادی فراہم نہ کرتے تو اسے اپنے گھٹیا مقاصد میں کبھی کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان توڑنے کے ذمے دارہمارے حکمران ہیں اور ثانوی طور پر بھارت… اور ان سب کی عام وجہ دین سے دوری ہے۔‘‘
’’لیکن اس معاملے کا دین سے کیا تعلق؟‘‘
’’تعلق ہے‘ بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کی ضمانت دی تھی کہ قرآن و سنت کو تھامو گے تو کبھی ذلیل و رسوا نہیں ہو گے۔ آج پو ری دنیا میں مسلمان مغلوب ہیں… کیوں؟ کیوں کہ ہم نے قرآن و سنت کو چھوڑ دیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دیا تھا۔کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے۔ لیکن ہم رنگ و نسل کے تعصب میں پڑ گئے اور غیر بنگالی اور بنگالی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ وہ جنہوں نے حصول پاکستان کے لیے مل کر جدوجہد کی تھی اور ہجرت کی تھی‘ جنہوں نے مل کر 1965 کی جنگ جیتی تھی‘ وہ جنہوں نے ساتھ مشکلات دیکھیں اور ساتھ آسانیوں کے دور دیکھے‘ جو آپس میں بھائی بھائی تھے وہ صرف تعصب کی بنا پر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو گئے اور پھر چشم فلک نے یہ اندوہناک مناظر دیکھے کہ جب جب مسلمانوں نے اپنی تعلیمات کو چھوڑا تو اس کا نتیجہ سقوط غرناطہ اور پھر سقوط ڈھاکا کی صورت میں نکلا۔‘‘
یہ کہہ کر دادی رک گئیں۔ اُن کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور آنکھوں کے پیالے آنسوؤں سے لبا لب بھر چکے تھے۔ دادی نے مجھے دیکھا اور تاسف سے سر ہلا یااور پھر بولیں ’’ہمارے تعلیمی اداروں میں مغربی لٹریچر پڑھایا جا رہا ہے۔آج کے بچے نہ صرف اپنی تاریخ سے بلکہ اپنے مذہب سے بھی ناواقف ہیں… اور جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔آج ہمارا المیہ بھی یہی ہے۔۔‘‘یہ کہ کر دادی کی ہچکی بندھ گئی۔
میرا سر شرمندگی سے جھکتا چلاگیا‘میں اٹھی اور دادی کے گلے لگ گئی۔ ’’دادی میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ خود بھی اپنی تاریخ کا مطالعہ کروں گی اور دوسروں کو بھی اس کی اہمیت سے آگاہ کروں گی۔‘‘
میں نے تو اپنی دادی سے وعدہ کر لیا۔کیا آپ لوگوں نے بھی اپنے آپ سے وعدہ کیا؟