عبدالرحمٰن ۔۔۔۔بھارت
میرا ماسٹر صاحب سے دن بہ دن بڑھتا ہوا ربط و ضبط‘ میرے والد‘ رشتے داروں اور مدرسے کے دوسرے تنگ نظر اساتذہ خصوصاً پنڈت جی کے لیے ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ توحید‘ رسالت اور آخرت سے متعلق میں جو باتیں بھی ماسٹر صاحب سے سنتا یا خود کتابوں میں پڑھتا‘ ان کی بنیاد پر میں اپنے والد اور اساتذہ کو آزادانہ تبادلہ خیال کی دعوت دیتا۔ میری گفتگو سن کر ایک دن پنڈت جی نے پیش گوئی بھی کر دی کہ اگر یہی حال رہا تو کچھ تعجب نہیں کہ تم کسی روز مسلمان ہو جائو اور شاید پنڈت جی کی یہی ایک بات ایسی تھی جس کی میں نے بالکل تردید کرنے کی کوشش نہیں کی ورنہ عام طور پر وہ شرک و بت پرستی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جونہی زبان کھولتے‘ میں ان کا تعاقب شروع کر دیتا اوربہ دلائل ان کا رد کرتا۔ زچ ہو کر پنڈت جی نے مجھے دعوت دی کہ میں ہندو مت کی فلاں فلاں کتب مطالعہ کروں تو میرے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ میں نے بہ خوشی ان کی بات منظور کر لی اور ان کی دی ہوئی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ پنڈت جی کاخیال تھا کہ میں ان موٹی موٹی کتابوں اور بھاری اصطلاحوں سے مرعوب ہوجائوں گا لیکن جب ان کی دی ہوئی پہلی کتاب کے مطالعے کے بعد ہی میں نے انہیں دعوت دی کہ آیئے ثابت کیجیے کہ ہندو مت کا عقیدۂ تخلیقِ کائنات علمی و عقلی کسوٹی پر پورا اترتا ہے تو وہ بوکھلا گئے اور ہنس کر ٹال دیا۔ دوسری کتاب پڑھ کر میں نے انہیں دعوت دی کہ آیئے ثابت کیجیے کہ وید الہامی کتب ہیں اور یہ بھی ثابت کیجیے کہ آپ کے دعوے کے مطابق واقعی ان کا زمانۂ تصنیف وہی ہے جو آپ کہتے ہیں یا پھر میں انہی کتابوں سے اس کے برخلاف ثابت کرنے کو تیار ہوں۔ وہ میری بات سن کر پھر کنی کاٹ گئے۔ تیسری کتاب پڑھ کر میں نے انہیں دعوت دی کہ آیئے ثابت کیجیے کہ وید کتنے ہیں؟ تین یا چار؟ اور پھر جن کی طرف انہیں منسوب کیا جاتاہے ان کی تعداد کتنی ہے یا پھر میں یہ ثابت کرتا ہوں کہ ویدوں کے وجود میں آنے سے متعلق اتنی متعدد حکایتیں موجود ہیں کہ ان پر اعتبار مشکل ہے۔ آخرکار تنگ آکر پنڈٹ جی نے ہتھیار ڈال دیے اور مجھے کتابیں دینا بند کردیں لیکن مطالعہ اور تحقیق کا چسکا مجھے لگ چکا تھا۔ اب میں نے خود مختلف کتابیں فراہم کرلیں اور ان کا تحقیقی مطالعہ شروع کر دیا اور اس طرح پران‘ بھگوت گیتا‘ اپنشدوں اور ویدوں سے مجھے توحید کے اثبات اور شرک کے رد میں اتنے دلائل مل گئے کہ اس موضوع پر میرا مطالعہ تقریباً مکمل ہو گیا جب کہ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ انہی کتابوں میں کہیں شرک کی تائید تھی‘ کہیں پر ایک چیز پسندیدہ تھی تو دوسرے مقام پر وہی چیز ناپسندیدہ۔ تخلیقِ کائنات‘ برہما جی کی پیدائش‘ آسمان اور خدا کی پیدائش‘ دیوتائوں کا وجود‘ ان کی تعداد‘ ان کی نسبتیں‘ ان کے عادات و اطوار اور طرز عمل‘ یہ تمام مباحث ایسے تھے جن پر میں نے بارہا اچھے اچھے جغادری قسم کے پنڈتوں کی زبان بند کردی۔ میںعلمی اور عقلی دلائل مانگتا تھا اور یہی جنس ان کے ہاں نایاب تھی۔
رفتہ رفتہ ہندو حلقوں میں میری یہ ’’کافرانہ روش‘‘ اور مزاج و طبیعت ایک دل چسپ موضوعِ بحث بن گئی۔ اشارے کنائے ہونے لگے۔ انگلیاں اٹھنے لگیں۔ لیکن میرے معاملے میں لوگ عجیب مصیبت کا شکار تھے۔ وہ مجھے دہریہ یا ناستک کہہ کر اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے تھے‘ اس لیے کہ میں حیاتِ انسانی کے لیے مذہب کو ناگزیر کہتا اور سمجھتا تھا۔ وہ کھلے بندوں میری مذمت بھی نہیں کر سکتے تھے اس لیے کہ میں ایک محترم پچاری کا لڑکا تھا اور دھاندلی نہیں کر رہا تھا بلکہ علمی تشفی چاہتا تھا۔
انہی دنوں مجھے ایک آریہ سماجی ہاسٹل میں کچھ دن قیام کا موقع ملا۔ یہ دور بھی بڑا دل چسپ گزرا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں میٹرک میں پڑھ رہا تھا اور کثیر اسلامی لٹریچر ہضم کر چکا تھا اور ان دنوں مولانا مودودیؒ کی ’’تفہیم القرآن‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ قرآنِ حکیم نہ صرف یہ کہ میرے قلب و روح میں اترا جا رہا تھا بلکہ اس کی ایک ایک آیت پر میں یہ محسوس کر رہا تھا جیسے یہی وہ سرچشمۂ حیات تھا جس کے لیے نہ جانے کب سے میں سرگرداں تھا۔ ایک دن جب کہ تمام طلبہ اور مدرسین پوجا میں مصروف تھے‘ میں اپنے کمرے میں قرآن کھولے بیٹھا تھا۔ اتفاقاً ہوسٹل کا وارڈن ادھر سے گزرا تو مجھے کمرے میں بیٹھا دیکھ ٹھٹک گیا اور پھر اس نے مجھے ڈانٹنے کی کوشش کی کہ سب لوگ کہاں ہیں اور تم کہاں ہو؟ میں نے اسے جواب دیا کہ آپ کے ہاسٹل میں ٹھہرنے کا یہ مطلب بہرحال نہیں کہ ہر طالب علم آپ کے نقطۂ نظر سے اتفاق بھی کرے اور پھر آپ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہائی اسکول سے آپ نے ہم طلبہ کو اپنی غرض کے لیے یہاں لا کر ٹھہرایا ہے ورنہ میں مقامی طالب علم ہوں۔ کھاتے پیتے گھرانے کا فرد ہوں اور اس ہاسٹل میں قیام کا ہرگز محتاج نہیں۔ میری یہ کھری کھری باتیں سن کر وارڈن خفیف ہو گیا اور پھر اپنی خفت مٹانے کے لیے اس نے قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور تم اردو کتابیں کیوں پڑھ رہے ہو۔ میں نے پورے اطمینان سے جواب دیا کہ یہ قرآن حکیم ہے اور میں اس کا تحقیقی مطالعہ کر رہا ہوں۔ رہا یہ سوال کہ میں اردو کتابیں کیوں پڑھ رہا ہوں تو یہ سوال کرنے کا آپ کو بہرحال اختیار نہیں ہے۔ وارڈن خاموشی سے چلا گیا اور پھر دوسرے ہی دن غالباً سخت خطرناک‘‘ سمجھ کر مجھے ہاسٹل سے خارج کر دیا گیا۔
یہ میرا ہائی اسکول کا آخری سال تھا اور پھر اس کے بعد مجھے کالج میں تعلیم حاصل کرنا تھی لیکن میں نے اپنی زندگی کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کے مطالبات کچھ اورہی تھے۔ میری منزل سامنے تھی اور حق واضح ہو جانے کے بعد باطل پر ڈٹے رہنے کی منافقت یا بے حیائی مجھ سے ممکن نہ تھی۔ میں نے ماسٹر صاحب پر اپنے عزائم کا اظہار کر دیا تھا کہ میٹرک کے امتحان کے ساتھ ہی ان شاء اللہ اپنے قبول اسلام کا باضابطہ اعلان کر دوں گا۔ میری بات سن کر ماسٹر صاحب نے کہاکہ خوب اچھی طرح سوچ لو‘ موجودہ دور بھی اس دور سے کچھ مختلف نہیں ہے جب ایمان و اسلام کی قیمت چکانے کے لیے جان کی بازی بھی لگا دینی پڑتی تھی اور پھر یہ بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ تم نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اس کی نوعیت کچھ یک رخے راستے (One Way) کی سی ہے کہ ایک بار اس پر قدم رکھ کر پھر لوٹنے یا پسپائی اختیار کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ اس لیے خوب اچھی طرح غور کر لو کہ نتائج و عواقب سے تم عہدہ براں ہو سکے گے یا نہیں۔ میں نے جواب دیا ’’ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں مین سے پائیں گے۔‘‘ میں نے مزید کہا کہ بخدا مجھے خود بھی کوئی خوش فہمی نہیںہے۔ میں اپنے اس انقلابی اقدام کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ:
جو راہ اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کرجاتی ہے
اللہ کی جنت سستے داموں ملنے والی نہیں۔ اگرچہ یہ بندہ حقیر اس کی قیمت چکانے سے بہر حال قاصر ہے لیکن اگر خود اسی کی توفیق ہو تومتاع جاںکو ترازو کے ایک پلڑے میں تو ضرور ہی ڈال سکتا ہے۔ اب اس کی قدر و قیمت اور وزن مولیٰ کی نگاہ میںچاہے کچھ ہو اور پھر ویسے بھی مومنوں کی جان اور ان کے مال تو اللہ پہلے ہی جنت کے عوض خرید چکا ہے۔‘‘
ماسٹر صاحب کی پلکوں پر چراغ جل اٹھے اور انہوں نے مجھے سینے سے بھینچ لیا۔
آخر میری زندگی کی وہ صبحِ سعادت طلوع ہو کر رہی جس کا میں منتظر تھا۔ یہ جمعے کا دن تھا‘ میں نے غسل کیا‘ صاف ستھرے کپڑے پہنے اور اپنی زندگی کی پہلی نماز‘ نمازجمعہ مسجد میں ادا کی اور نماز کے بعد کھڑے ہو کر میں نے اعلان کیا کہ ’’میں نے یکسو ہو کر اپنا رُخ زمین و آسمان کے خالق کی طرف کر لیا ہی اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
اور پھر کلمۂ شہادت پڑھنے کے ساتھ ہی لوگ مجھ سے مصافحہ کرنے‘ ملنے اور مجھے دیکھنے کے لیے امڈ پڑے۔
اپنے دینی بھائیوں سے مصافحہ و معانقہ نے میرے قلب و روح کو جیسے گرما دیا۔ لوگوں کی گرم جوشی کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص مجھ تک پہنچنا چاہتا تھا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اخوتِ اسلامی کیسی نعمت ہے اور انماالمومنون اخوۃ کیوں کہا گیاہے۔ لوگوں کے اس بے پایاں اخلاص کو سہارنا تک میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور پھر میں نے دیکھا کہ میں ہی آبدیدہ نہیں ہوں بلکہ کتنی ہی آنکھیں ہیں جن سے ستارے ٹوٹ رہے ہیں۔ اللہ اکبر! ایک گناہ گار بندے کے لیے لوگوں کا یہ اخلاص؟ ابھی کل تک نہ یہ میرے کچھ لگتے تھے اور نہ میں ان کا کچھ لگتا تھا لیکن آج میری زبان سے نکلے ہوئے ایک معجز نما کلمہ نے دنیا میں میرے 70 کروڑ بھائی پیدا کر دیے تھے۔ اس کلمہ کا اعجاز تو مجھے آج ہی نظر آیا تھا۔ زبان کی ایک جنبش کے ساتھ میرے رب کے ان احسانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو مومنوں کے لیے خاص تھے۔ آج سے میرا اور دنیا کے ستر کروڑ مسلمانوں کاورد ایک تھا۔ قطرہ دریا میں مل گیا تھا۔ ایک حقیر قطرہ آج دریا ہو گیا تھا۔ میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی ’’خداوندا! تو نے مجھے جو اپنی سب سے بڑی نعمت عطا فرمائی ہے وہ پھر مجھ سے چھین نہ لینا‘ میرے قلب کو پھر کبھی اس کی طرف سے نہ پھیرنا۔‘‘
ماسٹر صاحب نے میرا نام عبدالرحمن رکھا اور بخدا مجھے یہ نام بڑا بھلا لگا۔ کیا یہ کوئی معمولی اعزاز ہے کہ لوگ مجھے میرے مولیٰ کے نام کی اس نسبت سے پکاریں جس کا ہر انسان محتاج ہے۔ ربِ رحمن! ہاں ہم تیرے رحم و کرم ہی کے محتاج ہیں۔ تیرے اسی اسمِ حسنیٰ کا ورد کرتے ہوئے میں قیامت میں کشاں کشاں تیرے حضور پہنچوں گا اور تجھے بتائوں گا کہ میں تیرا وہ بندہ ہوں جسے دنیا میں لوگ رحمن کا بندہ کہا کرتے تھے۔ کیا آج تو اپنے اس نام کا پاس نہ فرمائے گا؟ کیا آج تو اپنے اس بندے کو ذلیل و رسوا کر دے گا جو تیرے اس نام کی صفت اور نسبت کی آس لگائے ہوئے ہی تیرے پاس آیا ہے۔ میرے کریم آقا! مجھے اپنے دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے اور اپنے اس نام کا بھرم رکھ اور مجھے یقین ہے کہ میری یہ درد بھری صدا دریائے رحمت کو جوش میں لے آئے گی اور میں اس میں غرق ہو جائوں گا۔ میرے آگے‘ پیچھے‘ دائیں‘ بائیں‘ اوپر‘ نیچے تیری رحمت ہوگی۔
…٭…
میرے اعلانِ اسلام کے ساتھ ہی مرحلۂ ابتلا و آزمائش شروع ہو گیا۔ ذرے نے پہاڑوں کا منہ چڑایا تھا۔ نور کی ایک کرن نے ظلمتوں کا کلیجہ چھید دیا تھا۔ باطل نے اعلانِ حق کے ساتھ ہی اپنے لائو لشکر سمیٹے اور یلغار کر دی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے آبادی میں بم پھٹ پڑا ہو۔ دور دور تک اس کی بازگشت سنی گئی۔ ہر شخص کی زبان پر یہی تذکرہ تھا۔ میرے والدین‘ رشتہ داروں اور بھائیوں کو تو جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔ میرے قریبی احباب تک نے کھلے طور پر جان کی دھمکیاں دیں‘ لعنت ملامت‘ طنز و تعریفیں‘ تحقیر و تذلیل غرض کتنے ہی زہریلے نشتر میں اپنے کلیجے پر سہہ رہا تھا۔ مجھے وراثت سے محروم کر دینے کا اعلان کر دیاگیا۔ بھائیوں نے اعلان کر دیاکہ میں اگر مر بھی رہا ہوں تو وہ صورت دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ کہا گیا کہ اگر میں نے گھر کی طرف رخ بھی کیاتو پھر میری گردن مار دی جائے گی۔
تیسرے دن میں اپنے گھر گیا اور سیدھا والد صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور بے رخی سے منہ پھیر لیا۔ ان کی اس بے رخی اور نفرت کا مجھے ذرّہ برابر بھی ملال نہ تھا اس لیے کہ اوّل تو میرے لیے یہ بات غیر متوقع نہ تھی اور پھر دوسری بات یہ کہ ان کے اس غم و غصے کے پس منظر میں جو جذبہ کار فرما تھا وہ بڑی حد تک فطری تھا۔ بھلا وہ اس سانحۂ عظیم کو آسانی کے ساتھ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کا وہ بیٹا جس سے انہوں نے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں ’’بے دین‘‘ ہو جائے اور ’’ملیچھ‘‘ مسلمانوں کا اہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جائے۔ میں ان کے سامنے پہنچ کر خاموشی سے اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ وہ پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں اور ان کاجی کچھ ہلکا ہو تو میں اپنی بات کہوں‘ لیکن جب مجھے اندازہ ہو گیا ہو گیا کہ اس وقت وہ مجھے ڈانٹنے کے موڈ میں نہیں ہیں تو میں نے ہی زبان کھولنا مناسب سمجھا۔ میں نے کہا ’’پتا جی! اس واقعہ کا آپ کو جو رنج ہو سکتا ہے مجھے اس کا اچھی طرح اندازہ ہے لیکن آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا قبول اسلام کوئی جذباتی اقدام نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے میری برسوں کی تلاشِ حق کی تاریخ ہے۔ آپ اس بات سے بھی ناواقف نہیں ہیں کہ میں نے اپنے دین ِ آبائی کو سمجھنے اور اس سے مطمئن ہونے کی پوری امکانی کوشش کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ناکام رہا۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ مذہب کا تعلق انسان کی دُنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح سے ہے۔ اس قدر اہم معاملے میں‘ میں ظاہر ہے آپ کو یا کسی اور کو خوش کرنے کے لیے ایک ایسی چیز کو اپنے سینے سے کیسے لگائے رکھ سکتا تھا جس سے میرا قلب و ضمیر قطعاً مطمئن نہ ہو؟ آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلے گا۔ میں نے امکانی تحقیق و جستجو کے بعد اسلام کو اپنی دنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح و کامرانی کا ضامن سمجھ کر ہی اختیار کیا ہے۔ آپ میرے پتا جی ہیں‘ میرا وجودِ مادّی آپ ہی کے وجود کا پَرتو ہے پھر کیا میں آپ کو بھی اس راستے کی طرف دعوت نہ دوں جس پر چل کر ہی ایک شخص اپنے مقصدِ وجود کو پورا کر سکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ خدا آپ کو میری طرح صراطِ مستقیم پر گامزن کرے۔‘‘
میری بات سن کر پتا جی نے یکبارگی نگاہیں اٹھا کر مجھے بغور دیکھا اور کچھ سوچتے رہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ میری بات کا کوئی معقول جواب سوچ رہے ہوں یا پھر یہ سوچ رہے ہوں کہ میں کس قدر گستاخ ہوں کہ اپنے پجاری باپ کو بھی دعوتِ اسلام دینے سے نہیں چوکتا۔ بہرحال میری اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ انہوں نے بے زاری سے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور میں اٹھ کر چلا آیا۔
(جاری ہے)
میرے قبولِ اسلام کے تقریباً ایک ماہ بعد مجھے اچانک اطلاع ملی کی پتا جی سخت علیل ہیں۔ اطلاع پاتے ہی میں ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ دراصل اسی بہانے میں ایک اور کوشش کرکے دیکھنا چاہتا تھا کہ کل قیامت کے دن مجھ پر یہ الزام نہ آئے کہ میں نے اتمامِ حجت نہ کی تھی۔ والد صاحب نے اشارے سے مجھے قریب بلا کر بیٹھنے کے لیے کہا۔ گزشتہ ایک مہینے ہی میں وہ کچھ سے کچھ ہو گئے تھے۔ مجھے توقع نہ تھی کہ میں انہیں اس خراب و خستہ حالت میں دیکھوں گا۔ انہیں اس درجہ بیمار دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور وہ خود بھی آبدیدہ ہو گئے۔ میں نے سوچا کہ شاید اس آخری وقت ہی میں سہی وہ کوئی صحیح فیصلہ کر لیں اور جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ میں انکے قریب ہی چارپائی پر بیٹھ گیا اور وہ بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہے اور پھر جب انہوں نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں عجیب سی حسرتیں کروٹ لے رہی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ سے بالکل مایوس ہو گئے تھے یا پھر ہنوز انہیں یہ توقع تھی کہ میں دین ِ آبائی کی طرف لوٹ آئوں گا۔ انہوں نے میرا ہاتھ اپنے سرد ہاتھوں میں لے لیا اور اسے ہلکے سے دبایا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ غالباً وہ میرے عزائم کا جائزہ لے رہے تھے کہ یہ کس درجہ پختہ ہیں اور پھر شاید انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ مجھ سے توقعات باندھنا فضول ہے۔
’’پتا جی!‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں انہیں مخاطب کیا ’’کیا آپ ضمیر کی پوری طمانیت اور تسکین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ میں نے کوئی غلط اقدام کیا ہے؟‘‘
میری بات سن کر ان کے چہرے پر شدید اندرونی کرب و اضطراب اور کشمکش کے آثار ظاہر ہوئے جیسے وہ فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ انہیں کیا کہنا چاہیے۔ کچھ دیر ان پر تشنج کی سی کیفیت طاری رہی اور پھر ان کی مدھم سی آواز ابھری جیسے کیسے گہرے کنویں سے بول رہے ہوں۔
’’تمہارا فیصلہ… شاید درست ہی ہے۔‘‘ میں سوچا ’’حق کا اعتراف کرنا کتنا مشکل کام ہے‘ سچ کو سچ کہنے کے لیے بھی لوگوں کو اپنے آپ پر کتنا جبر کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’پتا جی! پھر آپ حق کو حق جاننے کے باوجود اپنے مؤقف پر غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے پُر سوز لہجے میں ان کے اندر کے خیر پسند انسان کو جگانے کی کوشش کی۔
’’بیٹے!‘‘ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے مزید کہچھ کہنے سے روک دیا ’’تم میری مجبوری کو نہ سمجھ سکو گے۔ میں عمر بھر جس چیز کو حق کہتا رہا‘ آج اسے باطل کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے اور پھر وہ بھی عمر کے اس مرحلے میں جب کہ چند سانسیں باقی رہ گئی ہوں؟ نہیں نہیں میں نہیں چاہتا کہ میری قوم میری موت کے بعد مجھ پر زبان دراز کرے۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں اس اعمر میں تمہاری طرح کوئی انقلابی اقدام نہیں کرسکتا۔ تمہاری بات اور ہے‘ تم نے ابھی کارزارِ حیات میں قدم رکھا ہے‘ تمہاری توانائیاں اور صلاحیتیں تازہ ہیں‘ تم چاہو تو اپنے ماحول سے تنہا ہونے کے باوجود ایک بھرپور ٹکر لے سکتے ہو۔‘‘
پتا جی کے پاس سے لوٹنے کے کچھ ہی دن بعد مجھے اچانک اطلاع ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں دل مسوس کر رہ گیا۔ مجھے ان کی موت کا اتنا رنج نہ تھا جتنا اس بات کا کہ وہ حالتِ کفر میں مرے تھے۰ رنا تو سبھی کو ہے‘ وہ آج نہ مرتے تو کل مرتے‘۱ اس سے کیا فرق پڑ جاتا‘ آج وہ‘ کل ہماری باری ہے‘ تمام نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن کتنا فرق ہوتا ہے اس موت میں جو حالتِ ایمان میں آئے اور اس موت میں جو حالتِ کفر میں آئے۔
بہرحال میں نے صبر کر لیا اور اپنے گھر گیا کہ کم از کم ان کا آخری دیدار کر لوں۔ مجھے دیکھتے ہی میرے ایک بھائی نے مجھ پر کلہاڑی اٹھائی کہ تمہیں بھی پتا جی کی ارتھی کے ساتھ جلا دیا جائے گا‘ اس لیے کہ تمہاری ہی وجہ سے پتا جی نے صدمہ اٹھا کر جان دی ہے۔ پورے اہلِ خاندان اس بات پر مصر تھے کہ وہ مجھ مسلمان کو پتا جی کی ارتھی کے قریب بھی نہ جانے دیں گے چونکہ فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اور لوگ جذباتی ہو رہے تھے‘ اس لیے میں پتا جی کی نعش دیکھے بغیر خاموشی سے واپس لوٹ آیا۔
لوگوں نے صبر تو کر لیا لیکن وہ مجھے بالکل میرے حال پر چھوڑ دینے کے لیے تیار نہ تھے اور نہ میں خود ایسا چاہتا تھا۔ مقصد اگر بحث برائے بحث نہ ہو تو باہمی تبادلۂ خیال اور مختلف موضوعات پر آزادانہ گفتگو اکثر مفید نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اس میں نہ صرف یہ کہ اپنے مؤقف کی صحیح وضاحت کا موقع ملتا ہے بلکہ اگر یہ کاوشیں مخلصانہ نہ ہوں تو مخاطب کو متاثر بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اب یوں ہونے لگا کہ انتہا پسندانہ طرزِ فکر رکھنے والے غیر مسلم نوجوان‘ مختلف غیر مسلم مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں سے اکثر میرے ہائی اسکول کے زمانے کے ساتھی تھے‘ ان سے روزانہ کسدی نہ کسی موضظع پر بحث و گفتگو ہوتی۔ یہ موضوعات عام طور پر وہی ہوتے جن سے متعلق غیر مسلم ذہن یا تو کسی شدید غلط فہمی کا شکار رہتا یا پھر ان کے نقطہ نظر کے مطابق اس میں کوئی بڑی قباحت موجود ہوتی ہے مثلاً گوشت خوری‘ جہاد‘ پردہ‘ تعداد ازدواج‘ خاندانی منصوبہ بندی‘ اورنگ زیب کا مندروں کو گرانا‘ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک پر اعتراضات وغیرہ وغیرہ۔ جماعت اسلامی کے لٹریچر کے تفصیلی مطالعے نے الحمدللہ مجھے علمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں ان تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو بھی کرسکتا تھا اور مسائل کا سائینٹفک تجزیہ بھی کرکے دکھا سکتا تھا کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا۔ جب ان دوستوذں کے لیے کوئی راہِفرار نہ رہ جاتی تو وہ یہ کہہ کر بات کو ختم کر دیتے کہ بحث میں تم سے جیتنا مشکل ہے (گویا علمی دلائل تو ان کے پاس موجود ہیں لیکن مجھ جیسے ’’باتونی‘‘ کے سامنے وہ زبان کھولنے کے حق میں نہیں) حالانکہ یہ محض عذرلنگ تھا۔ دراصل دلیل کے نام پر ان کے ہاں نری جذباتیت‘ اوہام اور سینہ بہ سینہ قسم کی غلط سلط روایات کے سوا کچھ نہ تھا اور ہاں اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض سلیم الفطرت نوجوان میرے یقین‘ درد مندی اور مدلل علمی مؤقف سے اس درجہ متاثر ہو گئے تو انہوں نے تنہائی میں مجھ سے مل کر کہا کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ تم اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہو‘ آج سے ہم تمہاری طرف سے دفاع کریں گے۔‘‘
ایک موقع پر ایک غیر مسلم دوست نے بڑے پُرسوز لہجے میں مجھ سے کہا کہ تم اسلام‘ اسلام کی رٹ لگاتے ہو‘ اس کے عدل و انصاف وغیرہ کا تذکرہ کرتے رہتے ہو‘ لیکن ذرا دیکھو تو سہی کہ گائے جیسے معوصوم‘ بے ضرر اور نفع بخش جانور کے ساتھ مسلمان کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کی شرارت تو دیکھو کہ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم اسے اپنی ماتا کہتے ہیں اور اسے دیوتا سمجھتے ہیں‘ اسے ہمارے ہی سامنے کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ یہ بات اس نے بڑے جذباتی اور پُر سوز لب و لہجے میں کہی تھی اور اس سے میں خود بھی متاثر ہو گیا تھا۔ میں فوراً تو اسے کوئی جواب نہ دے سکا البتہ اتنا ضرور کہا کہ اس معاملے میں تم محض جذباتیت کا شکار ہو گئے ہو‘ میں ان شاء اللہ تمہاری تشفی کرا دوں گا۔ میری بات سن کر وہ اپنی کامیابی پر نازاں مسکراتا ہو چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی میں فوراً ماسٹر صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں صورتِ حال بتائی۔ ماسٹر صاحب میری گھبراہٹ اور تردد کو دیکھ کر مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ اپنے دوست سے پہلے یہ پوچھو کہ کیا وہ اپنے پرکھوں کے نقش قدم پر چلنا باعثِ سعادت نہیں سمجھتا؟ اور پھر اسے یہ بتائو کہ ویدوں سے یہ بات ثابت ہے کہ دیوتائوں پر گائے‘ بیل اور بھینسے ذبح کر ے بطور بھینٹ چڑھایا جاتا تھا‘ بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے معزز مہمانوں کی تواضع گائے کے نوعمر اور نو خیز بچھڑے سے کرتے تھے۔ اس سے کہو کہ سوامی وریکانند کہتے ہیں کہ (ویدک دور میں) وہ لوگ قربانی کی ایک چتا بناتے‘ کچھ جانوروں کو ذبح کرتے اور ان کا گوشت سیخوں پر بھونتے اور یہ گوشت اندر دیوتائوں کے اوپر چڑھا دیتے۔‘‘
گاندھی جی اپنی کتاب ہندو دھرم صفحہ 19 پر لکھتے ہیں کہ ’’جانوروں کی قربانی کا عمل ایک زمانے میں عام تھا۔ کیا آج ہم اسے ازسرِ نو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم گوشت کھاتے تھے‘ کیا آج ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
مشہور مؤرخ ڈاکٹر تاراچند کہتے ہیں ’’ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے کی طرح پھل‘ دودھ اور چاول کی روٹیاں شامل ہیں۔ بعد میں جانوروں کی قربانی مذہبی اعمال سے غائب ہوگئی۔‘‘ (ہندوستانی تہذیب پر اسلام کا اثر: ص: 3) پھر اس کے علاوہ یہ بھی ویدوں سے ثابت ہے کہ وہ مچھلی کے گوشت کو بطور غذا استعمال کرتے تھے۔ دراصل گائے کو تقدس حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آرین زراعت پیشہ تھے اور اس کے ساتھ ہی گوشت خور بھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گوشت خوری کے نتیجے میں زراعت کے لیے جانور کم ہو رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ زراعت ہی ان کا اصل ذریعہ معاش تھا) تو انہوں نے جانوروں کا ذبیحہ بند کر دیا اور اسے ممنوع ٹھہرا دیا بالخصوص گائے کو‘ قاس لیے کہ بہترین زراعتی جانور بیل گائے ہی فراہم کرتی تھی۰۔ بعد میں یہ امتناع قانون اور تقدس کی شکل اختیار کر گیا۔ ہمارے ہندو بھائی اس سادی سی حقیقت پر غور کیے بغیر اس معاملے میں جذباتی ہو جاتے ہیں ورنہ خصوصیت نہ گائے کی ہے نہ کسی اور جانور کی۔ یہ سب انسان کی خدمت ہی کے لیے اللہ نے پیدا کیے ہیں۔
چنانچہ دوسرے دن میں نے یہ سب باتیں اپنے دوست کے سامنے رکھیں‘ وہ ہکا بکا سا رہ گیا۔ اسے کسی طرذح اس بات کا یقین نہ آتا تھا کہ کسی زمانے میں دیوتائوں پر جانورں کا گوشت چڑھایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر پنڈت جی اس بات کی تصدیق کر دیں تو میں مان لوں گا۔ چنانچہ ہم پنڈت جی کے پاس گئے اور ان سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے گھورا اور گول مول سا جواب دیا کہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ دیکھنا ہوگا‘ ویدوں میں دیکھنا ہوگا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ویدوں میں کیا لکھا ہے۔ میں خاموش ہوگیا۔ کتمانِ حق کی یہ روش کچھ نہیں ہے اور پھر پنڈت جی ہی کی کیا خصوصیت ہے خود مسلمانوں میں کتنے ہی نام نہاد ملا اور مولوی کیا ایسے نہیںجو جانتے بوجھتے مسلمانوں کو مختلف بدعتوں اور مشرکانہ آداب و رسوم میں محض اس وجہ سے مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ اس سے ان کی دال روٹی چلتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس اعلان سے پہلے بھی اس کے بعد بھی مجھے اس قسم کے کتنے ہی مناظروں اور مباحثوں میں الجھنا پڑا‘ حق و باطل کی یہ کشمکش تو ظاہر ہے کہ بہت قدیم ہے پھر میرے معاملے ہی میں یہ سنت کیوں نہ پوری ہوتی۔