علامہ اقبال
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
…٭…
شکیل بدایونی
مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
مرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
…٭…
پروین شاکر
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی
سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی
بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی
وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد
اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی
اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی
خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
…٭…
امیر قزلباش
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
گرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے
اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا
…٭…
نظر فاطمی
جس طرح لازم ہے گل، کے ساتھ شرکت خار کی
جیت بھی ہے اصل میں، مرہونِ منت ہار کی
بات کیا کرتے ہو اس کے کوچۂ و بازار کی!
آج تو قیمت لگی ہے جُبّۂ و دستار کی!
تجھ سے ملنے کا تصوّر ہو گیا ہے اب گراں
زندگی کیا رہ گئی ہے اب ترے بیمار کی
یوں گزاری زندگی ہم نے انا کے خول میں!
ہائے نادانی بنی خود ساختہ افکار کی
دل کا دھڑکا درکار کھڑکا ہر قدم پر چونکنا
ہم نے منزل ہجر کی کچھ اس طرح سے پار کی
اس کے کوچے سے مجھے ناکام آنا ہی پڑا
سامنے تھا وہ مگر جرأت نہ تھی اظہار کی
میری ہر کاوش میں شامل کم نصیبی کا سفر
اور ناکامی بنی صورت گلے کے ہار کی!
زندگی کا بوجھ خود ہم نے اٹھایا پر نظرؔ
آخرش اٹھنا پڑا کاندھوں پہ صورت چار کی
…٭…
قرآن کی فریاد/ماہر القادری
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں،آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جز دان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ۔ اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کیلئے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں، کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
…٭…
عبید اللہ علیم کے اہم اشعار
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
…٭…
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے
…٭…
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
…٭…
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
…٭…
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
…٭…
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی
…٭…
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
عبد الحمید عدم
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو
حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو
جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو
حکم کرنا بھی اک سخاوت ہے
ہم کو خدمت کوئی بتایا کرو
بات کرنا بھی بادشاہت ہے
بات کرنا نہ بھول جایا کرو
تاکہ دنیا کی دل کشی نہ گھٹے
نت نئے پیرہن میں آیا کرو
ہم حسد سے عدمؔ نہیں کہتے
اس گلی میں بہت نہ جایا کرو
…٭…
جنوری
افتخار عارف کے پانچ پسندیدہ اشعار
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
…٭…
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
…٭…
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں
…٭…
وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا
…٭…
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
…٭…
فروری
افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
…٭…
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
…٭…
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
…٭…
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
…٭…
خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے
…٭…
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
…٭…
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
…٭…
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف
…٭…