زہریلے

307

ڈراما الیکٹرانک میڈیا کا ایک ایسا سیگمنٹ ہے جسے ہر بچہ، بوڑھا، جوان چاہے پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، دیکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’ہم‘ چینل سے نشر ہونے والا ڈراما ’’بے مول وفا‘‘ جس کی رائٹر ایک خاتون نزہت ثمن ہیں، ناظرین میں مقبول رہا۔ بظاہر گھریلو سازشوں پر مبنی اس ڈرامے کے تمام کرداروں نے اچھی پُرفارمنس بھی دی اور چچی جان کا کردار انتہائی خوف ناک، چال باز اور مکار کا تھا۔ اُن کا انجام بھی برا دکھایا گیا کہ پرائی بیٹیوں کا گھر اجاڑنے والوں کی اپنی بیٹیاں بھی کبھی نہیں بستیں۔ معافیاں تلافیاں ہوئیں، سب خوشی خوشی رہنے لگے… اللہ اللہ خیر صلا… مگر ٹھیریے جناب، اصل نکتے پر بھی غور کرلیجیے۔ سسر صاحب پرانے دقیانوسی خیالات کے مالک (یہ میرا نہیں، رائٹر صاحبہ کا تخیل ہے) جو بہو کو گھر گرہستی پر توجہ دینے کو کہتے ہیں، اور بہو صاحبہ جنھیں نہ تو کوکنگ آتی ہے نہ گھر سنبھالنا، اور اماں جان کے تو کیا کہنے، جو ان کو کچھ سکھانے کی ٹینشن سے آزاد ہیں، چوری چھپے کھانے بناکر بھجوا دیتی ہیں۔ ان کے پاس تیز دماغ جو ہے، منٹوں میں مسئلہ حل… جیسے ساری زندگی ایسے ہی کھانے بنا بناکر بھیجتی رہیں گی اور بہو رانی بہت مظلوم ہیں کہ ظالم سسرال والے کھانے بنانے کو کہتے ہیں۔ اچھا چلیں معاف کیا۔
ایک اور سین ملاحظہ فرمائیں… دیور صاحب کو جاب مل جاتی ہے، مٹھائی بانٹ رہے ہیں۔ خوشی میں آپے سے باہر ہیں دیور بھی اور بھابھی صاحبہ بھی۔ گلے لگ رہے ہیں، ساتھ چمٹ کے خوشی کا اظہار ہورہا ہے، اور سسر بے چارے اگر اس کو بے ہودگی کہہ رہے ہیں، تو سسر صاحب کو دقیانوسی اور ان کی سوچ کو گندا کہا جارہا ہے۔ گویا نعوذباللہ، اللہ کے اس فرمان کی نفی کی جارہی ہے کہ عورت اور مرد نامحرموں کے فرق کو سمجھیں، اور دیور اور بھابھی کا رشتہ تو فتنہ قرار دیا گیا ہے، اور جیٹھ ہوں یا دیور، ان سے باقاعدہ پردے کا حکم آیا ہے۔ مانا کہ آج کے دور میں باقاعدہ پردہ نہیں کیا جارہا، مگر کیا ان حرکات کے بغیر مہذب طریقے سے نہیں رہا جا سکتا؟
اچھا چلیں مان لیا کہ ان کے درمیان کچھ غلط نہ تھا، پھر بھی ایسے نامناسب سین کے بغیر کیا ان کے اخلاص کو واضح نہیں کیا جا سکتا تھا؟ یہ سین خاص طور پر ڈالا گیا تاکہ ذہن سازی کی جا سکے کہ نیت صاف ہونی چاہیے، قرآنی احکام کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا یہ اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا نہیں؟ اور حد تو تب ہوئی جب آخر میں سسر صاحب سے ان کی تمام ’’غلطیوں‘‘ کی معافی منگوائی گئی۔ افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت زہر گھولا جارہا ہے، سیکولرزم کی میٹھی گولیاں بنا بنا کر کھلائی جا رہی ہیں، بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے، لڑکیوں لڑکوں کو ان کی زندگی کا مقصد محض عشق لڑانا بتایا جارہا ہے۔ وہ مقصد جس کے لیے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا جس میں اخلاقیات کو اوّلیت حاصل ہے، مٹایا جارہا ہے۔ اور اس آگ کی لپیٹ میں آج ہر دوسرا گھرانا آچکا ہے۔ اس کے ذمے دار صرف والدین نہیں بلکہ حکومتِ وقت اور متعلقہ ادارے بھی ہیں جنھوں نے الیکٹرانک میڈیا کو بے لگام چھوڑ رکھا ہے، یا پھر وہ خود بھی اس سازش کا حصہ ہیں۔

حصہ