پکنک

299

ہنستی کھلکھلاتی ساتھی، جنہوں نے بڑھ چڑھ کر لگن اور ایثار سے تمام کاموں میں ہاتھ بٹایا۔ نہ کسی کی پیشانی پر شکن، نہ کسی سے شکوہ۔ ہر کوئی ان خوش گوار اور یادگار لمحات سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے اور آئندہ زندگی کے لیے کارآمد یادوں کو سمیٹنے میں مصروف رہا۔ مروجہ رواج کے برعکس خواتین و نوعمر لڑکیاں بھی تصویروں اور سیلفی بنانے کی مصروفیت سے لاتعلق رہیں۔ یہ جماعت اسلامی خواتین ضلع شرقی کراچی کے تحت شعبہ جات کے کارکنان کی تفریحی تربیت کا ذکرِ دل نشیں ہے، جس کے لیے فارم ہاؤس چنا گیا تھا۔
مقررہ دن سے قبل منظم پلاننگ، ہمہ جہت تیاریوں کے علاوہ ذمہ داریاں بھی طے کی گئیں۔ مختصر یہ کہ وہ دن بھی آن پہنچا۔ مقررہ مقام پر بس خواتین کو لے جانے کے لیے منتظر تھی۔ دل چسپ پہلو یہ تھا کہ پکنک کی تمام تر ذمے داری نظم کی تھی۔ اس احساس نے خواتین کے دلوں کو باغ و بہار کیا، اور سفر کی اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظریں کھڑکی سے باہر اور زبانیں گپ شپ میں مشغول رہیں۔ کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اپنے تفریحی مقام پر تھے۔
بچپن سے ملیر کے باغات اور ان باغوں کے امرودوں کا ذکر سن کر جواں ہوئے، لیکن کبھی بنفسِ نفیس وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ جنگل نما درختوں اور دیہات نما آبادیوں سے گزر کر جلد ہی منزل پر پہنچ گئے۔ نیلگوں وسیع آسمان، گھنے درخت، مخملی گھاس کے وسیع قطعے، سبزہ کی مخصوص مہک، چیکو اور ناریل کے پیڑ، تازہ سبزیوں کی بہار، پرندوں کی چہچہاہٹ، قدرت سے قریب تر ماحول، اس پر مستزاد جھولے اور شفاف پانی سے لبریز سوئمنگ پولز۔ روزمرہ کے پُرمشقت معمولات، آلودہ شہر کی بے ہنگم گہما گہمی سے نکل کر ایسے لگا، جیسے آرزو پوری ہوگئی ہو۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جماعت اسلامی کے تحت پروگرام ہو اور ڈسپلن کی پابندی نہ ہو!
حلوہ پوری اور گرماگرم چائے کے ناشتے کے لیے خواتین مستعدی سے مصروف تھیں۔ بیٹھے بٹھائے ناشتا میسر آنے کے لطف کو ہر خاتونِ خانہ خوب سمجھ سکتی ہے۔ ناشتے کے بعد افشاں نوید صاحبہ کی تذکیری گفتگو کا اعلان ہوا۔ سب وسیع وعریض آسمان تلے، آتی سردیوں کے خوش گوار موسم، گھنے بلند و بالا برگد کے سائے میں مخملی سبزہ زار پر بیٹھ کر قرآن کریم کی آیات پر مبنی دھیمے لہجے اور پُراثر انداز میں کہی جانے والی گفتگو پر ہمہ تن گوش ہوگئے۔
انہوں نے کہا: اللہ کا سب سے بڑا تحفہ صحبتِ صالحین ہے، یہ جماعت اسلامی کا احسان ہے۔ اس موقع پر ناظمہ ضلع محترمہ ندیمہ تسنیم نے حسبِ معمول انتہائی مختصر گفتگو میں آپس میں نئے افراد سے تعارف اور تعلق داری تشکیل دینے کا گراں قدر مشورہ دیا اور باقی ماندہ وقت اپنی مرضی کے مطابق سیر و تفریح کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں رحماء بینھم کی مثال ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی۔
حقیقت یہ ہے کہ ناظمہ ضلع، اُن کی ٹیم اور پورا نظمِ بالا تمام وقت اپنے انتظام و انصرام، خدمات اور مسکراہٹوں سے اپنے قول کی تصدیق کرتے رہے۔ کچھ نوعمر لڑکیاں فلوٹنگ اور تیراکی کی مہارت دکھا رہی تھیں۔
اسی دوران سبزہ زار پر ڈسکشن فورم سجایا گیا جس میں گرم اور اہم موضوعات زیربحث تھے۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں اہم تبادلہ خیالات کے لیے بھی مشکل سے ہی وقت ملتا ہے۔ فرصت کے یہ پُرفضا اور پُرسکون لمحات سب کے لیے نعمتِ بے بہا تھے۔ تفریح در تفریح میڈیا سیل کے شعبۂ حریم ادب کے تحت بیت بازی کی یادگار محفل تھی جو یومِ اقبال کی مناسبت سے اقبال کے اشعار پر مبنی تھی۔ ضلعی نگراں حریم ادب عصمت منیر نے ناسازیِ طبع کے باوجود اس کے انعقاد کی بھرپور کوشش کی۔
کھلی فضا، درختوں کے سائے اور ہلکی ہوا کے خوشگوار جھونکوں میں اقبال کے معیاری، ولولہ انگیز اشعار سے مزین الفاظ سماعت پر الگ ہی یادگار تجربہ تھا۔ افشاں نوید صدرِ محفل تھیں اور پڑھے جانے والے اشعار کے تلفظ کی تصحیح کی ذمے داری انہوں نے عمدگی سے نبھائی۔ کس کس شعر کا تذکرہ کیا جائے، بس ’خودی کا سرِّنہاں‘ پر سب ہی بے خود ہوکر نغمہ طراز ہوگئے اور سماں بندھ گیا۔ قلتِ وقت کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی دلنشیں محفل اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران خواتین کے ذوقِ اقبال اور اقبال فہمی کا ثبوت بھی ملا۔
بعدازاں انتہائی منظم انداز میں ظہرانہ کا انتظام تھا، بغیر کسی ہلچل، بدنظمی اور افراتفری کے لذتِ کام و دہن ہوا۔ دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش وطن کی باگ ڈور ایسے منظم اور ایثار پیشہ لوگوں کے پاس ہو تو ملک میں سکون، اطمینان، عدل و انصاف کی بہاروں سے اہلِ وطن شاد رہیں۔
شام ڈھل رہی تھی، نمازِ عصر کے سجدوں کے نشاں ثبت کرتے ہوئے سامانِ سفر سمیٹا اور ایک نئے عزم کے ساتھ پھر اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بھر پور شب و روز کی طرف لوٹ گئے۔

حصہ