دبستان بولان کوئٹہ کے تحت 26 تا 28 نومبر کو سہ روزہ ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے روز پاکستان حمدیہ سیمینار اور طرحی حمدیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کی۔ طاہر سلطانی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ الطاف درویش نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صادق علی صادق نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ میجر نادر علی آڈیٹوریم گلستان ٹائون کوئٹہ میں ہونے والے اس پروگرام میں بزم حمد و نعت کراچی کا تعاون شامل تھا۔ شفقت اعوان نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ حمد کا لفظ اللہ رب العزت کے لیے وقف ہے اس موضوع پر غیر مسلم شعرا نے بھی کلام کہا ہے یہ عمل باعثِ برکت ہے۔ پروفیسر صدف چنگیزی نے کہا کہ ہم کوئٹہ میں پہلا حمدیہ سیمینار کر رہے ہیں۔ حمد کہنا ایک مشکل کام ہے کیوں اس میں غلو سے کام نہیں چلتا۔ زیادہ تر حمدیہ کلام غزل کی ہیئت میں کہا جارہا ہے اب حمد بھی اردو ادب کی ایک صنف ہے۔ طاہر سلطانی نے کہا کہ حمد کہنے کے لیے قرآن فہمی اور احادیث کا مطالعہ ضروری ہے اردو میں سب سے پہلی حمد لکھنے کا اعزاز فخر الدین نظامی کو حاصل ہے اس کے بعد سے حمدیہ اشعار کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطرب نے کہا کہ حمد ایک عظیم الشان موضوع ہے اور افضل ترین عبادت بھی۔ حمد کہنا ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سنت پر عمل کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ اس پروگرام کے بعد طرحی حمدیہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا جس میں ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ رمضان صابر‘ وحید الرحمن‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ طاہر سلطانی‘ پروفیسر چنگیزی‘ جواد موسوی‘ امین بنارسی‘ شاہ فہد‘ گل افشاں‘ شفقت آسمی‘ ذکاء الدین‘ صادق حسین صادق‘ نعمان علی نجات‘ محمد فدا کھوسہ اور الطاف درویش نے حمدیہ کلام نذر سامعین کیا۔ 27 نومبر کو خانہ فرہنگ ایران کوئٹہ میں طرحی مسالمہ اور غیر طرحی نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر صدر تھے۔ سرور جاوید اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار مہمانانِ خصوصی تھے۔ ڈاکٹڑ کمیل قزلباش نے نظامت کی۔ ڈائریکٹر آف خانہ فرہنگ کوئٹہ حسین تقی زادہ نے خطبہ استقبالیہ میں کہاکہ شعر گوئی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور شعرائے کرام زندگی کے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں تاہم کربلا رثائی ادب کا مرکز و محور ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعتیہ ادب کا آغاز آنحضرتؐ کے زمانے سے ہوا اور تاقیامت جاری رہے گا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ حضرت امام حسینؓ نے ہمارے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ ہر یزید وقت کی بیعت حرام ہے۔ ہمارے رسولؐ کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہے نعتیہ کلام فروغ اسلام کا ایک اہم ذریعہ ہے شعرائے کرام نعت گوئی میں سیرتِ رسول اور شمائل بھی رقم کر رہے ہیں‘ اس کے علاوہ وہ یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ آنحضرتؐ کی پیروی میں دین و دنیا کی بھلائی مضمر ہے۔ اس مشآعرے میں ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ سرور جاوید‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ رمضان صابر‘ پروفیسر صدف چنگیزی‘ طاہر سلطانی‘ امین بنارسی‘ میاں وحید الرحمن‘ جواد موسوی‘ گُل افشآں‘ شاہ فہد‘ جملہ عباسی‘ شفقت علی آسمی‘ فدا کھوسہ‘ صادق علی صادق‘ اکبر علی شاہ‘ ذکاء الدین ذکاء اور ڈاکٹر کمیل قزلباش نے اپنے اپنے اشعار پیش کیے۔ 28 نومبر کو بہاریہ مشاعرے کے علاوہ راقم الحروف کے غزلیہ مجموعے ’’آئینوں کے درمیان‘‘ کی تقریبِ پزیرائی کا اہتمام تھا جس کی صدارت ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کی اور سرور جاوید مہمان خصوصی تھے جب کہ نظامت کے فرائض الطاف درویش نے ادا کیے‘ تقریب کے پہلے مقرر شفقت ہاشمی نے کہا کہ ڈاکٹر نثار کی شاعری میں غمِ جاناں اور غمِ دنیا کی نمائندگی ہے ان کے یہاں جدیدیت اور نئے نئے استعارے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر صدف چنگیزی نے کہا کہ ڈاکٹر نثار بھی ہمارے معاشرے کے نوحہ گر ہیں انہوں نے مسائلِ زمانہ کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین بھی باندھے ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کہا کہ ڈاکٹر نثار ایک جینوئن شاعر ہیں انہوں نے اپنے بہاریہ مجموعۂ کلام میں اپنے احساسات اور موجودہ عہد کے اہم مسائل پر بات کی ہے ان کا اسلوب جداگانہ ہے انہوں نے نئے استعاروں کی آبیاری کی ہے۔ تعارفی تقریب کے بعد بہاریہ مشاعرہ ہوا جس میں ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ سرور جاوید‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ پروفیسر چنگیزی‘ رمضان صابر‘ جواد موسوی‘ امین بنارسی‘ وحید الرحمن‘ شگفتہ ناز‘ شاہ فہد‘ شفقت آسمی‘ اعظم بنگش‘ ذکاء الدین ذکاء‘ نعمان ادیب نجات‘ محمود احمد کھوسہ‘ صادق علی صادق‘ عرفان علی عابد اور الطاف درویش نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس سہ روزہ ادبی میلے میں زندگی کے مختلف شعبوں کے بہت سے اہم افراد نے شرکت کی۔