دنیا بھر میں موٹر کار کے ذریعہ سے سفر بہت مقبول ہوتا جارہا ہے، لیکن اسی کے ساتھ کار کے حادثات اور ہلاکتوں کی رفتار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا اور یورپی اقتصادی برادری کے 12 رکن ممالک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں ہر سال ایک لاکھ افراد سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے ہلاک اور لاکھوں مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔
زخموں سے ہلاکتوں کی شرح امریکا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایسے زخمیوں کے لیے علاج اور جراحتی اقدامات ضروری ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس ملک میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے کی مدت ڈیڑھ لاکھ یوم سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اور محض ایک برس میں اس پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ امریکا میں اگر سڑکوں پر ہر سال پچاس ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں تو اسی ہزار ریڑھ کی ہڈی اور سر کی چوٹوں کی وجہ سے مستقل معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں اور دوہزار افراد ہر سال کو مایانزع کی حالت میں مبتلا یا غیر معینہ مدت تک طبی امداد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ انہیں صرف جدید طبی معاونتوں کے سہارے زندہ رکھا جاتا ہے۔ امریکا میں ان حادثات میں سے چالیس فیصد شراب نوشی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں حادثات کی وجہ سے اموات کی شرح میں تیز رفتار اضافے نے ماہرین صحت کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ شراب نوشی اور تیز رفتاری کے علاوہ نوجوانوں میں بڑھتا ہوا تشدد کا رجحان بھی ان ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ جنوبی و شمالی امریکا میں تشدد کے واقعات میں شریک افراد بالعموم 15 سے 45 سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں صنعتیں قائم ہورہی ہیں اور نئی تہذیب کی روشنی پہنچ رہی ہے، تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مثلاً تھائی لینڈ میں مجموعی اموات میں قتل اور حادثات کی اموات بہت زیادہ ہورہی ہیں۔ اس کے بعد جنوبی امریکا کا ملک وینزویلا آتا ہے۔ تشدد کا رجحان بلاامتیاز ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بڑھ رہا ہے۔
حفاظتی اقدامات کی ضرورت
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اس شرح اموات کے پیش نظر حفاظتی اقدامات بے حد ضروری ہوگئے ہیں۔ اب حادثات اور ان سے پہنچنے والے زخموں اور صدمات کو محض اتفاقی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ مختلف عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جن میں سڑکوں کی حالت، گاڑیوں کی رفتار، ان کی میکانکی خرابیاں، ٹریفک کے قوانین کے نقائص اور ان پر عملدرآمد میں تساہل، نشہ آور اشیاء کا استعمال اور ڈرائیونگ کے دوران حفاظتی اقدامات کا اختیار نہ کرنا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حادثات سے تحفظ کے سلسلے میں اب تک زیادہ تر توجہ تین بڑے شعبوں، پیشہ ورانہ حفاظت، سڑکوں اور گھروں میں تحفظ پر مرکوز رہی ہے۔ ان میں کھیلوں اور تفریحات کے دوران حفاظتی اقدامات بھی شامل ہیں، لیکن اب اموات کی جو تفصیلات مل رہی ہیں، ان کے مطابق سڑکوں کے حادثات کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے، اس لیے اس سلسلے میں حفاظتی اقدامات پر خصوصی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
اس ضمن میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حادثات میں زیادہ تر اموات سر کی چوٹوں کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔ اس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ کار میں سفر کے دوران سیٹ میں لگے ہوئے حفاظتی بیلٹ ضرور باندھ لیے جائیں۔ اس کے علاوہ سر کی ٹوپی (ہیلمٹ) کا استعمال بھی بے حد ضروری ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل چلانے والوں کے لیے اس کا استعمال بے حد ضروری ہے۔ امریکا، جاپان اور یورپ وغیرہ میں گاڑیوں کے اندر ان کے اگلے حصے میں ایسے حفاظتی کشن بھی لگے ہوتے ہیں جو ٹکر کی صورت میں ہوا سے بھر جاتے ہیں۔ اس طرح کار کی اگلی نست پر بیٹھے ہوئے افراد اس حفاظی کشن یا غبارے کی وجہ سے کار کے شیشے اور اگلے حصے (ڈیش بورڈ) سے ٹکرا کر سخت زخمی ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسٹیئرنگ کے لگنے کے بعد ان کا سینہ اور پسلیاں بھی محفوظ رہتی ہیں۔
حفاظتی ٹوپی یا ہیلمٹ کے استعمال سے کھلاڑی، تعمیراتی کارکن اور کان کن بھی محفوظ رہتے ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے رکن ملکوں کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ حفاظتی ٹوپی کے علاوہ کاروں میں بیلٹ کا استعمال ضروری قرار دیں۔
حفاظتی بیلٹ اور ہیلمٹ کی افادیت
گاڑی کی اگلی نشست والوں کے لیے حفاظتی بیلٹ کے استعمال سے شدید زخموں اور اموات کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس سے سرکی چوٹوں سے ہلاکتوں کی شرح میں چالیس فیصد کمی ہوئی، اسپتالوں میں داخل ہونے والوں کے اعداد و شمار کے مطابق بیلٹ استعمال نہ کرنے والوں کے زخمی ہونے کی شرح بیلٹ استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ رہی۔ حفاظتی بیلٹ استعمال کرنے والے 69 فیصد افراد کھوپڑی کے چٹخنے سے، 85 فیصد چہرے کے زخموں سے اور 82 فیصد آنکھوں کی چوٹ سے محفوظ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے علاوہ کینیڈا، فرانس اور برطانیہ میں اگلی سیٹ کے علاوہ پچھلی نشست والوں کے لیے بھی حفاظتی بیلٹ کا استعمال لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حفاظتی ٹوپی کے استعمال سے موٹر سائیکل سواروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کی شرح بھی متاثر ہوئی ہے۔ چنانچہ آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں اس کے استعمال پر سختی سے عملدرآمد ہورہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا استعمال قانوناً لازمی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے)۔ دنیا کے بعض ملک سائیکل چلانے والوں کے لیے بھی حفاظتی ٹوپی کا استعمال ضروری قرار دینے پر غور کررہے ہیں۔