غسان عربوں کا ایک قبیلہ تھا جو عرب کے شمال مغرب میں ملک شام کی سرحد کے قریب آباد تھا وہاں اس قبیلے نے اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ شام مدت تک روم کی عیسائی سلطنت کا حصہ رہا تھا اس لیے اس کے اثر کی وجہ سے قبیلہ غسان کے لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے شام فتح کیا تو قبیلہ غسان کے بادشاہ جبلہ بن ایہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک دفعہ وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ حج کرنے کےلیے مکہ آیا۔ اس سال امیر المومنین حضرت عمرؓ بھی حج کے لیے مدینہ سے مکہ پہنچے تھے۔
جبلہ جس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا (یعنی کعبہ کے گرد پھیرے لگا رہا تھا) اس کی چادر کا ایک کونہ ایک غریب بدو (دیہائی آدمی) کے پائوں تلے آگیا۔ اس پر جبلہ کو غصہ آگیا اور اس نے مڑ کر غریب بدو کو اس زور کا تھپڑ مارا کہ اس بیچارے کی ایک آنکھ بیٹھ گئی۔ یعنی کہتے ہیں کہ اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ غریب بدو حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جبلہ کے خلاف شکایت پیش کی۔ امیر المومنین نے جبلہ کو بلا بھیجا۔ جب وہ حاضر ہوا تو انہوں نے اس پوچھا:
’’جبلہ! کیا یہ صحیح ہے کہ تم نے اس بدو کو تھپڑ مارا؟‘‘
جبلہ (اکڑتے ہوئے) جی ہاں۔ اس نے ہماری چادر پر پائوں رکھ دیا تھا اس لیے ہم نے اسے اس گستاخی کی سزادی اور یہ سزا کیا ہے ہم تو اس رتبہ کے آدمی ہیں کہ کوئی شخص ہماری گستاخی کرےتو ہم اس کا سر اڑا دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ: اب جاہلیت کا زمانہ نہیں رہا۔ اسلام نے اونچ نیچ کی تمیز ختم کر دی ہے۔ اللہ کے دین میں مسلمان برابر ہیں۔ تم نے اس غریب کے ساتھ جو زیادتی کی ہے اسلام اس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ تم سے اس زیادتی کا بدلہ لے۔ یہ بدلہ وہ اسی طرح لے سکتا ہے کہ تمہاری منہ پر بھی تھپڑ مارے۔ ہاں اگر تم اس کو کچھ دے دلا کر راضی کر لو اور وہ تمہیں معاف کردے تو پھر تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
جبلہ: (حیران ہو کر) امیر المومنین یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ کیا اسلام میں شریف اور ذیل میں کوئی فرق نہیں۔ کہاں غسان کا بادشاہ اور کہاں ایک معمولی بدو وہ ہمیں تھپڑ مارے یا ہم اس کو راضی کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
حضرت عمرؓ: ’’اسلامی قانون کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں اس لیے تم کو سزا بھگتنی ہو گی یا بدو کو راضی کرنا ہوگا۔‘‘
جبلہ: اچھا تو مجھے ایک دن کی مہلت دیجیے تاکہ میں اس معاملے پر غور کر سکوں۔
حضرت عمرؓ: بہت اچھا تم کو ایک دن کی مہلت دی جاتی ہے۔ کل تک اس بدو کو راضی کرلو یا سزا بھگتو۔
جبلہ وہاں سے اپنے خیمے میں پہنچا اور رات کو چھپ کر شام کی طرف بھاگ گیا۔ وہاں سے روم کے بادشاہ کے پاس قسطنطنیہ پہنچا اور دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کرکے ساری عمر وہیں گزار دی۔
بعض بزرگوں نے یہ واقعہ ایک اور طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جبلہ نے جب غریب بدو کو تھپڑ مارا تو اس نے بھی جواب میں اس کو تھپڑ مار دیا۔ اس پر جبلہ سخت غصے کی حالت میں حضرت عمرؓکے پاس گیا۔ انہوں نے جبلہ کی شکایت سن کر فرمایا:
’’تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی۔‘‘
یہ سن کر جبلہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا۔
’’امیر المومنین! میں غسان کا بادشاہ ہوں۔ میرے ساتھ جو گستاخی سے پیش آئے وہ موت کی سزا پاتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ’’تمہاری خاطر انصاف کا قانون نہیں بدلا جا سکتا۔‘‘
یہ سن جبلہ خاموش ہو گیا لیکن اس کو حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا۔ اس کے دماغ میں بادشاہی کا غرور سمایا ہوا تھا اس لیے رات کو مکہ سے نکل بھاگا اور چھپتے چھپاتے قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ وہاں روم کے بادشاہ کے پاس جا کر دوبارہ دعیسائی مذہب اختیار کیا۔