جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
ابھی ہم جامعہ کے جھمیلوں میں الجھے، مختلف کاموں کی غرض سے اِدھر اُدھر ڈپارٹمنٹ میں دوڑ رہے تھے کہ یک دم فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو اسکرین پر حسب توقع ہماری تحریکی ساتھی جویریہ باجی کا نام جگمگا رہا تھا۔ فون اٹھانے پر کچھ یوں استفسار کیا گیا، ’’پیاری بہن! جلدی کریں نا! ہم ان قیمتی لمحات سے جلد از جلد مستفید ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں آپ فکر نہ کریں۔ بس میں ہوا کے گھوڑے پر سوار یوں آپ کے ڈپارٹمنٹ پہنچی۔ پھر ہم اس پیاری سی محفل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔‘‘ ہم نے تسلی دی۔ اب آپ قارئین ضرور اس سوچ میں غلطاں ہوں گے کہ اچانک جامعہ سے گھر جانے کے بجائے کدھر رخت سفر باندھا جا رہا ہے؟ کہیں کوئی پس پردہ ایڈونچر کی پلاننگ تو نہیں کی جارہی ہے؟ آخر یہ پیاری سی محفل ہے کون سی جہاں جانے کے لیے ہم بیتاب ہیں؟ تو ہم ہر خاص و عام کو بتاتے چلیں کہ بحیثیت کارکن اسلامی جمیعت طالبات ہم اپنی عزیز جان تنظیم کی جانب سے سجائی گئی ڈھائی روز پر محیط نرالی محفل میں شرکت کی غرض جا رہے تھے۔ جمیعت بھی کتنی پیاری تنظیم ہے نا! اس فکر میں گھلی کہ کہیں اس کا کوئی کارکن غیر تربیت یافتہ نہ رہ جائے بلکہ ہر کارکن بذات خود ایک مثالی نمونہ ہو۔ جس کی ذات آبِ جو کی حد بندیوں سے آزاد بحر بیکراں کی مانند ہو۔ اسی تناظر میں کراچی مقام نے ڈھائی روزہ تربیت گاہ کا اہتمام کیا جو اس کی سالانہ سرگرمیوں میں سے ایک ہے یا یوں کہیں کہ یہ وہ سرگرمی ہے جس کا ہر کارکن بے چینی سے انتطار کرتا ہے۔
ہری شاخِ مِلّت ترے نم سے ہے
نفَس اس بدن میں ترے دَم سے ہے
تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدّیقؓ دے
جویریہ باجی کے ساتھ مل کر ہم نکلے اور بس میں سوار ہو گئے۔ نشست حاصل کرنے کے بعد افسردہ نگاہوں کے ساتھ جویریہ باجی سے کہہ اٹھے کہ جامعہ کی پڑھائی کے باعث ہم جمعہ کے روز شرکت نہیں کر پائے۔ نا جانے کتنی انمول باتیں اور رہنما اسباق ہم سیکھنے سے محروم رہ گئے۔ انہوں نے بھی حمایت میں سر ہلا دیا اور کہا کہ چلو اس سفر کے وقت کو ضائع جانے نہیں دیتے اور کسی کام کی چیز سے استفادہ کر لیتے ہیں۔ سو جھٹ ہم نے موبائل ہاتھ میں تھاما اور کسی بھلے انسان کی جانب سے بھیجے گئے جمعے کے روز ہونے والے مختلف پروگرامات کے نوٹس پڑھ کر اصول اپنے دل میں جذب کرنے لگے۔ جمعے کے روز کہنے کو تو ہم وہاں موجود نہیں تھے لیکن ہمارا دل وہیں اٹکا ہوا تھا۔ جس طرح ہم بچپن میں جب اسکول سے غیر حاضر ہو جایا کرتے تھے تو اسکول کے اوقات میں بیٹھ کر یہی سوچا کرتے کہ ابھی یہ پیریڈ ہو رہا ہوگا۔ اسی طرح ہم بھی دعوت نامہ پڑھ کر یہی سوچ رہے تھے کہ حاضرین محفل اب کس پروگرام کے سحر میں گرفتار ہو کر بیش بہا اصول چن رہے ہوں گے۔ اسلامیہ کالج کے سامنے اترے اور ادارہ نور حق میں قدم رکھا تو نماز ظہر اور ظہرانے کا وقفہ چل رہا تھا۔ پنڈال میں ایک عجب سماں قائم تھا۔ یوں لگا کہ جیسے کسی ہرے بھرے باغ میں قدم رکھ دیا ہو جہاں کے پھولوں سے اٹھتی بوئے رفاقت نے یہ جہان معطر کر ڈالا ہو۔ دولت ایمانی سے لبریز یہ دل لپک لپک ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے محبت بھرے انداز میں محو گفتگو تھے۔ مزید آگے بڑھے تو قدم قدم پر بھچڑی سہیلیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ الغرض ابھی پہنچے ہی تھے کہ ذہن پر چھائی کلفت کافور ہوگئی۔ طعام گاہ کی جانب رخ کیا اور دال چاول سے انصاف کرنے میں خوب مزہ آیا۔ سوشل میڈیا مینجمنٹ ورکشاپ کی باری آئی جس میں مقررہ نے طنز و مزاح سے بھرپور روز مرہ کی مثالوں کے ذریعے سوشل میڈیا کے درست استعمال کی جانب ہماری راہنمائی کی۔ یہ ورکشاپ ہمیں وقت کی ضرورت محسوس ہوئی کیوں کہ کبھی کبھار ہم بھی زمانے کے چال چلن کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں اس بات سے بے خبر کہ ہمارا کردار عامیانہ نہیں بلکہ جدا ہونا چاہیے۔ نماز مغرب کے وقفے کے بعد مذاکرہ بعنوان ’’تعلیمی ادارے انقلاب کے مراکز‘‘ کا وقت آیا جس میں مختلف باجیوں نے مختلف سوالوں کے جواب کے ذریعے اپنے بیش قیمت تجربات اور رائے سے مستفید کیا۔ جہاں مدت دراز سے تعلیمی اداروں میں ایسی ثقافت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو اسلام کی متضاد ہے، وہیں یہ مسلمان طلباء تعلیمی اداروں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کا باعث ہیں جس کی روشنی کی تاب نہ لیتے ہوئے خون صد ہزار انجم سے انقلاب کا سورج طلوع ہوگا۔
مثلِ بُو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چَمنِستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!
اسی بیچ میں میمونہ باجی نے لوگوں کی مثال زمین کے نمک اور پہاڑی کے چراغ سے دی۔ یعنی لوگوں کا اخلاق اور کردار یوں ہو جو فائدہ پہچانے کا باعث ہو اور لوگوں کے دل موہ لے۔ اب کتاب ڈسکشن میں شرکا مختلف دائروں میں تقسیم ہوگئے۔ حامیات نے کتاب ’’فریضہ اقامت دین‘‘ اور رفیقات نے کتاب ’’دعوت دین اور اس کے طریق کار‘‘ پر تبادلۂ خیال کیا۔ الغرض سب نے مل کر بہترین انداز میں اپنا حاصل مطالعہ سامنے رکھا اور اس اپنے حقیقی مقصد کو ازسرنو جلا بخشی۔ وہ مقصد جس کی خاطر ہم تخلیق کیے گئے ہیں یعنی نیکی کی اس فوج کے ہر اَول دستے میں شامل ہو کر دعوت حق کے علمبردار بن جائیں۔ اس کے لیے حکمت سے کام لینا ضرور ہے اور یہ حکمت کتابوں میں چھپے علم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ گزرتی گھڑیوں کے ساتھ رات بھی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور موسم نے ایک انگڑائی کے ساتھ خنک ہوا کے جھونکے کیا چلائے کہ سب نے شالیں اور سوئیٹر تان لیے۔ اب آمنہ صدیقی نے آکر اسٹیج سنبھالا اور بیت بازی کی میزبان کے طور پر اس ادبی نشست کا آغاز کیا۔ مختلف زونز پر مشتمل ٹیم اسٹیج پر جوق در جوق آتی گئیں۔ چند کے چہرے مضطرب تھے اور چند ایک اطمیان کے ساتھ براجمان ہوگئے۔ مقابلے کا آغاز ہوا اور ہر ٹیم کی جانب سے معیاری اشعار پڑھے جانے لگے جن کو سن کر ہم شرکائے مقابلہ کی علمی و شعری قابلیت کو داد دیے بغیر نہ رہ پائے۔ سب بھرپور تیاری کے ساتھ آئے تھے اور اشعار کے چنائو پر انگشت بدنداں رہ گئے اور پھر ہم نے بھی ذرا اپنے ذہن میں موجود اشعار کے ذخیرے کو مزید وسیع کرنے کی ٹھانی۔ زون بن قاسم فاتح قرار پایا اور شاداں و فرحان توصیف وصول کرنے لگا۔ یکے بعد دیگرے پروگرامات سننے کے بعد کافی دیر سے پیٹ کے چوہے التجا کر رہے تھے سو طعام گاہ کے باہر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے یا یوں کہیں کہ سوچوں کے بھنور میں دوبارہ پھنس گئے۔ خیال آیا کہ یہاں ہماری تربیت صرف وعظ و نصیحت سے نہیں کی جاتی بلکہ مختلف اجتماعی و سماجی تعلقات کے ذریعے کردار سازی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر طعام گاہ سے اٹھتی مہک ہمارے صبر کا امتحان ضرور لے رہی تھی لیکن ہم نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے یا تربیت گاہ میں سرگرم عمل ’’چپل مافیا‘‘ جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں لگا پایا ہے، سے نبردآزما ہونے کے لیے برداشت سے کام لیتے آرہے تھے۔ نظم وضبط پر مقرر افراد کی بات ماننا، روایات کی پاسداری کرنا، رائے کا احترام کرنا اور اپنی ذات سے بالاتر ہو کر پہلے دوسروں کو ترجیح دینا، یہ کافی باتوں میں سے چند باتیں ہیں جو لاشعوری طور پر تربیت کا باعث بنتی ہیں۔ پہلے پہل تو دسترخوان پر بریانی چنی گئی مگر اچانک مینو تبدیل ہوتا ہے اور پھر روغن میں غوطہ زن آلو قیمے کے ذریعے ہم نے اپنی آنتوں کو رام کیا۔ بتیاں گل ہو چکی تھیں اور دن بھر کی تھکن پلکوں پر ایسی غالب آئی کہ جلد ہی نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ ابھی ہم خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف ہی تھے کہ کہیں سے خراٹوں کی آواز آئی تو کہیں سے دبے دبے قہقہوں کی اور تو اور ہماری برابر میں موجود کوئی ساتھی نیند کی وادیوں میں غرق نہ جانے کس سے دست و گریبان تھیں کہ حقیقی دنیا میں ان کی ٹانگ ہمیں لگ گئی۔ اس افتاد پر ہم خوب بھنائے لیکن کیا کریں! یہ بھی تربیت کا ایک عنصر ہے کہ آپ لوگوں کی مزاجوں کو سمجھنا سیکھیں۔ اذان فجر کی محسورکن آواز کے ساتھ ہی ہم اٹھ گئے اور نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے۔ ساتھ میں شامیانے کے جھروکوں سے پھوٹتی شفق کی روشنی پیام امید دے رہے تھی کہ چلو چلے کہ منزل ابھی دور نہیں! درس حدیث کے ڈسکشن کے لیے شرکا مختلف گروپس میں بٹ گئے جہاں باجی نے پراثر انداز میں منتخب کردہ حدیث قدسی کے مفہوم و معنی سے آگاہ کیا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب کے وارث وہ بندے بنائے جنہیں ہم نے چن لیا۔ پھر تین طرح کے لوگوں کے طرز عمل کی مثال بیان کی گئی اور بتایا گیا کہ ان سے ان کے اعمال کے مطابق کس طرح حساب لیا جائے گا۔ اب آخر میں ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہو رہا ہے۔ ناشتے اور تیاری کے وقفے کے بعد سابقہ ناظمہ اعلی اسلامی جمعیت طالبات نے ’’اخلاص نیت‘‘ پر درس حدیث پیش کیا۔ ان کی علمی باتوں کا لب لباب یہی تھا کہ ہمارے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے تو یہی نیت اور تڑپ ہوتی جو ہمیں قوت بخشتی ہے، ثواپ پہنچانے کا باعث بنتی ہے اور اسی اخلاص نیت سے شیطان بھاگتا ہے۔ قدیم زمانے سے آج تک برائیوں کے آلۂ کار بھی نوجوان ہی بنتے رہے ہیں اور بھلائی کے علمبرداروں کی فوج بھی وہی بنے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور عہد رسالت کے صحابہ کی مثال لے لیتے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر مصائب کا مقابلہ کیا اور بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے۔ پروگرام ‘خدا کرے تیری جوانی رہے بے داغ’ پر صبوحی طلعت نے اپنی فکری اور جاندار گفتگو کے ذریعے جذبات گرما دیے اور سیروں خون بڑھا دیا۔ شباب کے موضوع پر علامہ اقبال کے اشعار واضح کرنے کے بعد حیا کی اقسام بتائیں اور اس بات کو سمجھایا کہ حیا کے اصول ہماری زندگیوں میں کہاں کہاں لاگو ہوتے ہیں اور حیا ہی ہماری جوانیاں بے داغ بنا سکتی ہے۔ ہماری فکریں بلند اور سوچیں پاک ہونی چاہیے اور تخریب افکار کے بجائے تطہیر افکار کو اپنا مقصد بنا کر ہی دلی جذبات کو قابو میں رکھ کر اپنی ضرب کا وار کاری بنایا جا سکتا ہے۔ جس نے من ربکم کی تیاری کرلی وہ قیامت کے روز عرش کے سائے میں ہوگا۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
پروگرام کا اختتام ہوا اور آہستہ آہستہ نیند کی پری ہماری آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر تھپک تھپک کر لوریاں سنا رہی تھیں۔ قریب تھا کہ ہم نیند کی پری کا ہاتھ تھام لیں مگر ہم نے اپنی توجہ اگلے پروگرام کی جانب مرکوز ڈالی۔ آمنہ عثمان نے Distractions Attractive کے عنوان پر ورکشاپ کروائی اور قدم قدم پر موجود نظر کو خیرہ کرتی چکا چوند کی حقیقت آشکار کرتے ہوئے رہنما اصول واضح کیے۔ انہوں نے سمجھایا کہ اپنے نصب العین کو لے آگے بڑھتے ہوئے اپنی زندگی کی لگامیں پکڑ لیں۔ مصروف رہیں، توجہ ایک جانب مرکوز رکھیں اور اپنی مشغولیات کو محدود کر لیں۔ اب امیر جماعت اسلامی کراچی نے اپنے خطاب کے ذریعے کہا کہ اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے مختلف گائڈ لائینز فراہم کی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مقصد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسلام کی سر بلندی کے لیے کام کریں۔ اب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں اے-ون گریڈ حاصل کرنے والی کامیاب طالبات میں اسناد تقسیم کی گئیں جو ڈھیر ساری سی طالبات نے وصول کیں جو اس بات کا روشن ثبوت تھا کہ یہ پنڈال ذہین طالبات سے پر ہے۔ تعارف نظم و شوری کراچی مقام کا وقت ہوا چلا تھا۔ مختلف باجیاں اور چند ہم عمر بہنیں اسٹیج پر جا کر بیٹھ گئیں تو ان کی چہروں کی دمک فکر اسلام سے لبریز اور آواز بلبل کی طرح نالہ اور فریاد سے معمور تھی۔ نظم نے پھر اپنے آپ کو محاسبے کے لیے پیش کیا۔ طالبات نے اپنی شکایات اور تجاویز کے ساتھ پروگرامات میں پسند کی گئیں باتیں سامنے رکھیں۔ بالآخر مختصر سی دعا کے بعد اڑھائی روز پر مبنی یہ بزم اختتام پذیر ہوئی جو ہماری تربیت اور تزکیہ نفس کا باعث بنی۔ وہ چہرے جو ملاقاتوں کے وقت خوشی کے مارے چمک رہے تھے، اب جدائی کے ان لمحات میں افسردہ سے ہوگئے۔ وہ نظریں جو بار بار گھڑی کی سوئیاں تک رہی تھیں، اب پلٹ پلٹ کر پنڈال کی جانب مڑ رہی تھیں۔ وہ ذہن جو ہمیں بار ہا یاد دلا رہا تھا کہ کل دوبارہ جامعہ جانا ہے، چپکے سے سرگوشی کرنے لگا کہ چلو کسی طرح وقت کا سفر کرکے ماضی کے ان لمحات سے دوبارہ لطف اندوز ہو لیں۔ لیکن یہ وقت دوڑ رہا ہے اور ہم بھی وقت کے دھارے میں بہتے چلے رہے ہیں۔ اگر ایک جگہ رک گئے تو پیچھے رہ جائیں گے سو اس شرارتی سے دل کو اگلے سال کا کہہ کر بہلایا اور وہ نازک کندھے جو پہلے ہی احساس ذمہ داری سے جھکے چلے جا رہے تھے، پر اپنا بستہ جما کر باجیوں کو الوداعی کلمات کہہ کر گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحبِ اعجاز بھی