حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنی مشہور نظم ’لینن خدا کے حضور‘ میں فرمایا تھا :
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کْچل دیتے ہیں آلات
یہ Meta میٹا کیا ہے؟یہ آپ کو سوشل میڈیا پر خاصا گردش کرتا نظر آرہا ہوگا۔ اکتوبر کے آخر ی ہفتہ میں فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے اپنی کمپنی فیس بک کے نام کو ’میٹا‘ کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ سوشل میڈیا کمپنی سے ایک میٹا ورس کمپنی بننے والی پہلی کمپنی کہلائی۔ذرا پس منظر میں جھانکیں تو نظر آتا ہے کہ چھاپہ خانہ کی ایجاد کے بعد جو مشینی انقلاب آیا ،تو ایسا لگا کہ شاید اقبال نے اِسی مشین کی بات کی تھی کیونکہ اس ایجاد نے جس تیزی سے ہی انسانی تہذیب پر وہ ڈینٹ مار ے تھے جس کا ذکر اقبال کر رہے ہیں۔وقت گزرتا چلا گیا اور ’ترقی ‘کا پہیہ اپنے مکمل معنی و مفاہیم کے ساتھ چھاتا چلا گیا۔ ہر دور میں ایسا ہی لگتا رہا کہ شاید اقبال ؒ نے اِس دور کے لیے یہ بات کہی ہوگی۔جب محض ایک ٹیلی فون اور ٹیلی وڑن ہی آیا تھا،مگر اب جب موبائل اور اسمارٹ موبائل کی دنیا میں انسان قدم رکھ چکا ہے تو بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ واقعی اقبال ؒ نے دل کی موت کا جو ذکر کیا وہ اس دور کے لیے تھا جب ہمیں مشینوں کے آگے انسانی اقدار وجذبات و دل کی موت نظر آنے لگی۔اس وقت نہ ہی روبوٹ تھے، نہ کمپیوٹر ، نہ ڈرون ٹیکنالوجی تھی مگر علامہ اقبال نے جان لیا تھا کہ جس سرمایہ دارانہ نظام کا اِس وقت ہمیں غلبہ نظر آتا ہے وہ مال میں اضافے کی خواہشات کوبے لگام گھوڑے پر دوڑا کر پروان چڑھارہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ انسانی معاشرے کی ضرورت و اقدار پر ہی تجارت و کاروبار کی بنیاد و نوعیت بناتے تھے مگر سرمایہ دارانہ نظام نے صرف مال کمانے کی حرص و ہوس کے پیمانوںپر ہر قسم کے کاروبار و تجارت کو پروان چڑھایا ہے۔اسی کے اثرات آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نافذہیں۔ سماجی میڈیا کا یہ دور اس سے باہر نہیں، پس یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ سوشل میڈیا نے بہ طور مشین ایک دو دہائی میں مشینوں کی جو حکومت ظاہر کی اس نے تو سب ریکارڈ ہی توڑ دیئے۔لیجیے اب آرہی ہے ایک نئی ڈیجٹل دنیا ، دل کی موت کی ایک اور بدترین شکل کے ساتھ۔
انسانی جسم ایک خاص مقدار کا وزن برداشت کرنے کا عادی ہوتا ہے جیسا کہ ہم ایک کپ چائے کپ کے عادی ہوتے ہیں تازہ دم ہونے کے لیے تو کچھ عرصے بعد ہما را جسم ایک کپ چائے کے اثرات سے آگے بڑھ جاتا ہے اور پھر اس کو وہ چائے ایک سے زیادہ درکار ہونا شروع ہو جاتی ہے بالکل ایسے ہی ہم جیسے جیسے اپنی زندگیوں میں مشینیں داخل کرتے رہے ویسے ویسے ہی ہماری توجہ کا مرکز تبدیل ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی زندگی میں انسان آپس میں زیادہ جڑے نظر آتے ہیں ہر لحاظ سے وہاں کی اقدار الگ ہوتی ہیںکیوں کہ وہاں مشینوں کا، ٹیکنالوجی کا اثر ابھی اتنا نہیں جتنا شہری زندگی میں ہوتا ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق ان مشینوں کی بھرمار سے پہلے انسانوں کواپنے آس پاس کے ماحول پر توجہ دینے کی شرح99 فیصد تک تھی مطلبAttention span ۔آس پاس کے ماحول کا مطلب اطراف کی سماجی زندگی، اپنی جسمانی صحت ، انفراد ی معاملات سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔پھر ریڈیو ٹی وی کی آمد کے بعد یہ 90 فیصد پر چلا گیا، پھر وی سی آر، ڈش،کیبل کے بعد اپنے اطراف کی معاشرت سے ہمارا اٹینشن اسپین 80 فیصد پر چلا گیا، ٹیلی فون کی آمد کے بعد یہ شرح70 فی صد پر آگئی، اس کے بعد کمپیوٹر آنے پر 60 فیصد ہوگئی اور موبائل فون کی آمد کے بعد50 فیصد پر ہماری توجہات چلی گئیں۔ یہ 3G,4Gکی تیزی سے آمد کے بعد 40 فیصد پر لے گئی، وڈیو گیمز کی تیزی سے بدلتی دنیا نے تو ہمیں 30فیصد تک جس میں ہم نے کھانا پینا تک بھلا دیا، ایسی حدپر لے آ یا۔ اس کے بعد دور شروع ہوتا ہے اسمارٹ فون اور سماجی میڈیا کی دنیاکا تو پھر جان لیں کہ یہ شرح مزید کتنی کم ہوگئی ہوگی کہ لوگ اس دنیا میں اس طرح گم ہوتے ہیں کہ جان تک سے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت بھی بالکل مشینوں کی حکومت اور دل کی موت والی بات سمجھانے کو کافی ہے۔ گوکہ سو سال قبل بھی تھی جب اقبالؒ سب دیکھ رہے تھے۔ آج آپ غور کریں کہ ہمارا اپنی زندگی پر کنٹرول ہی ختم ہونے کے قریب ہو چکا ہے۔ ہمارا جسم flow energy Attention کے مطابق کام کرتا ہے۔ نوٹ کریں کہ جس کام میں آپ کی دل چسپی ہوگی‘ توجہ ہوگی آپ وہ کام انتہائی مہارت سے‘ اچھے انداز سے انجام دیں گے کیونکہ آپ کا پورا جسم اس میں آپ کا ساتھ دے گا۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بوریت یا جس کام میں دل چسپی نہ ہو تو آپ کا جسم اس میں ساتھ نہیں دیتا اور آپ کو نیند آنے لگتی ہے۔ فیس بک جیسی کمپنی کا تو مکمل کاروبار اس پر ہی کام کرتا ہے کہ جہاں ہماری توجہ جائے گی، جہاں ہم زیادہ سے زیادہ وقت دیں گے تواسی طرح ہماری ڈیجٹل زندگی کی قدر و قیمت ہماری اصل جسمانی حقیقی زندگی سے بڑھتی چلی جائی گی۔کیا آپ ایسے لوگوں کو نہیں جانتے جو سوشل میڈیا کی پوسٹ پر لائیک، ڈس لائیک یا کسی کمنٹ کو اس حد تک سنجیدہ لیتے ہیں یا اپنے اوپر طاری کرتے ہیں کہ اُنہیںیہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ سب مصنوعی دنیا ہوتی ہے۔ جان لیں کہ ڈیجٹل دنیا ہر قسم کے جذبات و احساسات سے خالی ہوتی ہے، روبوٹس میں بہت سارے احکامات پورے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر احساسات و جذبات نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے سوشل میڈیا کے لائیک ، ڈس لائیک، ایموجی سب مصنوعی ہوتے ہیں مگر ان کو بنایا ، ڈیزائن ہی اسی لیے کیاگیا ہے کہ آپ ورچوئل دنیا میں جیتے رہیں وہی آپ کے لیے سب کچھ ہو۔
میٹا بننے سے قبل فیس بک کمپنی کی تین پروڈکٹس تھیں۔ فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ۔ فیس بک کی کمپنی کے تین اصول ہم نے دیکھے۔ خریدو، کاپی کرو اور تباہ کردو۔ اسی مقصد کے تحت اس نے انسٹا گرام واٹس ایپ خرید لیے کہ وہ مستقبل میں اس کے کاروبار کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک کو وہ خرید نہ پائے اس لیے ان کے فیچرز کو انسٹا گرام میں ہی حقیقت اور کہانی کی صورت ڈال دیا۔ اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے جاری کردہ حقائق کے مطابق ’’وائن‘‘ نامی ایک اور امریکی سوشل میڈیا پلیٹ فارم جو ٹوئیٹر کمپنی کی ملکیت تھا، اس کو محض پانچ سال میں فیس بک کے مالک نے ختم کرا دیا۔ فیس بک یہ جانتاتھا کہ ہم صرف لوگوں کی توجہ پا کر ہی پیسہ کما سکتے ہیں، لوگ جتنا اس ایپلیکیشن پر وقت گزاریں گے اتنا ہی فیس بک پیسہ کمائے گا۔ پس یہی اس کا اور تمام سرمایہ دارانہ اداروں کا واحد سلوگن ہوتا ہے۔ اس میں صارفین کے شعور کو قابو کرنے کا حربہ انتہائی اہم ہوتا ہے۔ گاہک یا خریدار کی آگہی یا شعور جیسے جیسے بڑھتا ہے تو اس کے عمل میں تبدیلی آتی ہے‘ وہ تبدیلی اس کے پورے معاشرتی سرکل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جان لیں کہ فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان اس کے گاہک ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا آپ خود اپنے آپ سے سوال کریں کہ سب سے پہلی بار آپ نے کیوں واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کا استعمال شروع کیا؟ اس کا یقینی طور پر یہی جواب ہوگا کہ فلاں کو دیکھ کر، مطلب فلاں کے عمل نے آپ پر اثر ڈالا اور وہ فلاں آپ کے سماجی سرکل کا حصہ تھا۔ دوست تھا، بھائی، بہن جو کوئی تھا وہ آپ کے سماجی دائرے کا حصہ تھا۔ اب اس بات کو یوں بھی دیکھیں کہ مجھے یقین نہیں آیا جب میرے کانوں نے یہ بات سنی کہ ’’مجھے استعمال کرنا سکھائیں، کہ مجھے بھی کوئی کھانے کی چیز منگوانی ہے، کہ فلاں فلاں بھی جب دیکھو استعمال کر کے کچھ منگواتے رہتے ہیں۔ ‘‘ یہ ہوتا ہے گاہگ کے عمل کی تبدیلی کا اثر۔ ایسا کیا ہوگیا ہے اس دنیا میں کہ جو کام گزشتہ 50 سال میں نہیں کر رہے تھے اب زبردستی ضرورت بن گیا ہے۔ بلاشبہ اس میں اشتہار کاری نے بھی اثرات ڈالے اور لوگوں کو ’’کچن میں تالا‘‘ کی جانب اُبھارا۔ کیا پہلے گھر، دفتر وغیرہ میں مہمان نہیں آتے تھے؟ آسانی۔ جی ہاں آسانی کے نام پر سارا کھیل جاری ہے جبکہ کھیل آسانی کا نہیں، آپ کو ضرورت کا احساس دِلا کر آپ کو ’گاہک‘بنانا ہے تاکہ مال فروخت ہو سکے اور جس کا مال بکے وہ خوب کما سکے اور جو اس کا مال بکوانے میں مدد دے گا وہ بھی خوب کمائے گا۔ آج ہماری دنیا میں ہمارا طرز زندگی حد سے زیادہ صنعتوں کا محتاج بنا دیا گیا ہے، انتہا درجہ کی غیر ضروری اہمیت ایسی چیزوں کو دی گئی کہ اُن سب نے ہم پر حکومت شروع کر دی۔
اسی مال کمانے کی سرمایہ دارانہ نفسیات کے ساتھ میٹا ورس ترتیب دیا گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ زندگی آسان کر دے گا، تو کوئی ٹیکنالوجی کی ترقی کہہ رہا ہے توکوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ چلیں ایک جائزہ لیتے ہیں اور نتیجہ آپ خود نکال لیجیے گا۔ ’’میٹا‘‘ کا لفظی مطلب ’’بعد‘‘ ہے‘ یہ قدیم یونانی زبان سے لیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چھوٹا نام عام طور پر جلدی یاد ہو جاتا ہے اس لیے چھوٹا نام لیا گیا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کمپیوٹر کی زبان میں یہ لفظ ڈیٹا کی زبان میں استعمال ہوتا ہے میٹا ڈیٹا ، یعنی کسی چیز کے پس منظر کی معلومات، یعنی فیس بک کے استعمال کنندگان،مطلب یہ کہ ہم سب کا مکمل ڈیٹا (معلومات) تاکہ یہ ڈیٹا اشتہاری اداروں کوفروخت کیا جا سکے اور اشتہاری ادارے اس ڈیٹا کے مطابق اپنی مصنوعات کے اشتہارات متعلقہ دلچسپی رکھنے والے افراد تک پہنچاتا رہے۔ یہ میٹا بنیادی طور پر ایک پیرنٹ کمپنی کہلائے گی جس کے نیچے ساری ایپلی کیشن واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام چلتی رہیں گی۔ ’’میٹا ورس‘‘ کے نام سے ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کا یہ فارمولا ہے، جیسا یونیورس یعنی کائنات اسی طرح ’’میٹاورس‘‘ کے نام سے ایک نئی دنیا بسائی جائے گی۔ یہ ویسا ہی ایک تصور ہے جو اس سے قبل 1999میں ’میٹرکس ‘نامی ہالی ووڈ فلم کے ذریعے پیش کیا گیا۔ اس نئی دنیا میں آپ اپنی مختلف شناخت کے ساتھ جا سکیں گے۔ کمپنی اِس ورچوئل دنیا میں جانے کے لیے ایک خاص چشمہ (اے آر یا وی آر ڈیوائسز) بنا رہی ہے جس کی مدد سے اس مصنوعی دنیا میں آپ اپنی من پسند شناخت کو’لاگ اِن‘ کر کے داخل ہوں گے۔ ایک نئے طریقے کی انٹرنیٹ دنیا ہوگی جس میں تمام ورچوئل سروسز دی جائیں گی اور ڈیجٹل کرنسی میں ہی خرید و فروخت ہوگی۔ ایک ڈیجٹل دنیا بنے گی جس میں کھانا پینا جیسے کام چھوڑ کر باقی سب کام گھر بیٹھے بیٹھے کر سکیں گے۔ اگر آپ کو شاپنگ پر جانا ہے تو آپ اس کے لیے تیار ہوں گے، وہاں جائیں گے اور خریداری کریں گے پھر واپس آئیں گے۔ مگر میٹاورس کی دنیا میںیہ سارے کام آپ گھر پر بیٹھے بیٹھے کر سکیں گے۔ یہ ڈیوائس اگلے سال تک ممکنہ طور پر ’’کیمبریا‘‘ کے نام سے لانچ کی جائے گی۔ فیس بک نے اس دنیا میں جانے کے لیے جو کردار ڈیزائن کیے ہیں ان میں یہ تیکنیک رکھی ہے کہ وہ کردار آپ کے جذبات کو بھی ظاہر کرے گا یعنی اگر آپ چشمہ لگا کر اس دنیا میں کسی چیز کو دیکھ کر خوش ہوں گے تو اندر آپ کا کردار بھی مسکرائے گا۔ اس طرح وہ آپ کے جذبات کو ظاہر کرے گا۔ سب سے پہلے میٹا ورس کی ترجیح یہ ہوگی کہ اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جائے۔ لوگوں کے بعد یعنی گاہگوں کے بعد، دکان دار یعنی بزنس و پروڈکٹس وہاں لانا اس کی ترجیح ہوگی تاکہ خرید و فروخت کا عمل تیز ہو سکے۔ اس کے بعد ڈیجٹل سروسز بنانے والے ان تینوں کو میٹاورس میں شامل کرکے فیس بک گاہک، دکان دار، خرید و فروخت پر کمیشن اور پورے کنٹرول کی وجہ سے اپنی پروڈکٹس بھی لانچ کرکے بیچ سکتا ہے۔ میٹا ورس ایک نئی معیشت کے طور پر سامنے آئے گاجس میں ’’کرپٹو کرنسی‘‘ ہی استعمال ہوگی۔ اب ڈیجٹل چشمے کی آمد کے بعد تیزی سے انسانوں کا اس جانب رجوع خود ایک بڑی تباہی کی جانب لے جائے گا جب انسانوں کا اپنے اوپر قابو ہی نہیں رہ سکے گا۔ ٹیکسٹ سے تصویر پھر وڈیو اور اس کے بعد لائیوو وڈیو کے بعد اب خود ایک الگ دنیا ’’میٹاورس‘‘ میں ا?پ کو لے جانے کا منصوبہ لایا جا چکا ہے۔ اَب تصور کریں کہ لوگ اس چشمہ کو لگائے ایک الگ ، اپنی من پسند شناخت ، شکل ، جسم کے ساتھ اْس دنیا میں آزادانہ گھومیں گے پھر یں گے اور اپنے باہر کی دنیا سے مزید لا تعلق ہو جائیںگے۔ ایسے وی آر چشمے لگائے آپ نے بچوں کو وڈیو گیم کھیلتے ضرور دیکھا ہوگا، اکثر تو سارا دن گزار دیتے ہیں‘ والدین ان کو اس چشمہ سے باہر ہی نہیں نکال پاتے۔ یہی نہیں اس ٹیکنالوجی میں الیکٹرو مائیگرافک پر بھی کام چل رہاہے مطلب جو کچھ آپ سوچیں گے وہ آپ کے پٹھوں و اعصاب کی حرکات کو جانچ کر تحریر کی صورت سامنے لا سکے گا، کی بورڈ، پین وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ایسا بھی ہوگا کہ ہاتھ میں پہنے ایک بینڈ کی مدد سے آپ کسی بھی سطح پر اپنی انگلی سے جو کچھ لکھیں گے وہ تحریر کی صورت آپ کو مل جائے گا۔ پس یاد رہے کہ آپ کا تمام تر ڈیٹا بلکہ آپ خود اس دنیا کے قابو میں ہوںگے۔ اس موضوع پر مزید تفصیلات آنے پر آگہی دی جائے گی مگر اس پوری صورت حال پر ایک بار پھر اقبال کا یہ تنبیہی شعر دہرانا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی ترجیحات سیٹ کر سکیں۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات