عاصم نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’نعمان! اب میں سمیرا کو نہیں دیکھ سکوں گا‘‘۔
ایک عمر رسیدہ آدمی آگے بڑھا اور اُس نے کہا۔ ’’بیٹا! اب تم دیر نہ کرو ورنہ تمہارے لیے یثرب سے زندہ بچ نکلنا ناممکن ہوجائے گا‘‘۔
نعمان نے کہا۔ ’’آپ کا گھوڑا تھک گیا ہوگا۔ آپ میرا تازہ دم گھوڑا لے جائیے‘‘۔
’’نہیں! یہ میرا آخری دوست ہے اور میں اسے یہاں چھوڑنا پسند نہیں کروں گا‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد عاصم ایک ٹیلے کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اچانک ٹیلے کی اوٹ سے سالم گھوڑا بھگاتا ہوا آیا عاصم نے اپنے گھوڑے کی باگ کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’سالم تمہیں اس طرف تنہا نہیں آنا چاہیے تھا۔ اگر قبیلہ خزرج کے آدمیوں نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ بھوکے بھیڑوں کی طرح تم پر ٹوٹ پڑیں گے‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’آپ میری فکر نہ کیجیے۔ چلیے، میں آپ کو کسی محفوظ جگہ پہنچا کر، الوداع کہنا چاہتا ہوں‘‘۔
عاصم نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور سالم اُس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ قریباً چار کوس سفر کرنے کے بعد وہ شام کے راستے سے ایک طرف ہٹ کر ایک اور ٹیلے کے عقب میں گھوڑوں سے اُتر پڑے۔
سالم نے جلدی سے اپنی کمان اور تیروں سے بھرا ہوا ترکش عاصم کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے ڈر تھا کہ آپ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر اس بے سروسامانی کی حالت میں زیادہ دور نہیں جاسکیں گے۔ اس لیے میں پانی کا مشکیزہ اور ضرورت کی دوسری چیزیں لے آیا ہوں۔ آپ میرے گھوڑے پر سوار ہوجائیں۔ میں نے خرجین میں ستو، کھجوریں اور پنیر رکھ دیا ہے۔ اور جو امانت آپ سعاد کے پاس چھوڑ آئے تھے وہ بھی میں نے خرمین میں رکھ دی ہے۔ جب میں گھر کے قریب پہنچا تو قبیلے کے سواروں کی ایک ٹولی ملی۔ یہ لوگ شام کے راستے کی ناکا بندی کے لیے جارہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ مکہ کی طرف نکل گئے ہیں اور وہ اُس طرف چلے گئے۔ قبیلے کے باقی لوگ منذر کے گھر میں جمع تھے۔ اور باری باری آپ سے انتقام لینے کا حلف اٹھا رہے تھے۔ میں نے انہیں بھی یہی بتایا کہ آپ مکہ کی سمت کافی دور جاچکے ہیں اور یہ سنتے ہی کئی اور سوار اُس طرف چل پڑے۔ اس کے بعد میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آپ کو سفر کا ضروری سازوسامان مہیا کیا جائے۔ میں نے اُس ٹیلے کے پیچھے خاصی دیر انتظار کیا مجھے یہ ڈر لگ رہا تھا کہ شاید آپ جاچکے ہیں۔ اب آپ جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوجائیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے اپنا گھوڑا چھوڑنا پسند نہیں۔ میں تمہارے گھوڑے کی زین اس پر ڈال لیتا ہوں۔‘‘
سالم نے کہا۔ ’’اچھا جلدی کیجیے مجھے اندیشہ ہے کہ مکہ کے راستے پر تلاش کرنے کے بعد وہ آپ کو شام کے راستے پر تلاش کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
عاصم نے جلدی سے سالم کے گھوڑے کا سازوسامان اُتار کر اپنے گھوڑے پر ڈال لیا اور اس کے بعد سالم سے پوچھا۔ ’’تم نے سعاد کو تمام واقعات بتادیئے ہیں؟‘‘
’’ہاں! اُسے اب آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں رہی۔ وہ مسعود اور جابر کے لیے روتی ہے اور آپ کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی ہے‘‘۔
’’اور تم بھی میری سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہو؟‘‘
سالم نے جواب دینے کے بجائے عاصم کی طرف دیکھا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
عاصم نے کہا۔ ’’اچھا تم جائو اور سیدھے گھر پہنچنے کی کوشش کرو۔ میں نے شمعون کے غلام کو عدی کے گھر میں جمع ہونے والوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد، عباد کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے ماموں جیسے لوگ میرے اس اقدام کو بھی ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے کہ غلام وہاں جا کر اپنے بیان سے منحرف ہوجائے اور وہ عباد کی بوٹیاں نوچنے کو تیار ہوجائیں‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’آپ اطمینان رکھیے۔ قبیلے کے آدمی منذر کے گھر میں جمع ہورہے ہیں اور میں نوکروں کو تاکید کر آیا تھا کہ اگر عباد شمعون کے غلام کے ساتھ آئے تو وہ انہیں گھر سے باہر روک لیں اور میری واپس تک باغ میں چھپائے رکھیں‘‘۔
’’چچا جان نے میرے متعلق پوچھا تھا؟‘‘
’’نہیں! وہ اندر پڑے ہوئے تھے۔ ان سے اب تک کسی نے لڑائی کے واقعات کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اس لیے میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ ابھی انہیں پریشان نہ کیا جائے۔ سعاد جو مکان سے باہر میری راہ دیکھ رہی تھی، کسی سے جابر اور مسعود کی موت کی خبر سن چکی تھی، مجھے اُس کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تمام واقعات بتانے پڑے۔ میں اُس سے بھی کہہ آیا ہوں کہ وہ عباد کا خیال رکھے۔ اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے‘‘۔
عاصم گھوڑے پر سوار ہونے لگا تو سالم نے اچانک بدحواس ہو کر کہا۔ ’’ٹھیریئے! شاید کوئی آرہا ہے‘‘۔
عاصم کو ٹیلے کی دوسری طرف گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی اور وہ حیران ہو کر سالم کی طرف دیکھنے لگا۔
’’میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں‘‘۔ سالم نے یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کی باگ عاصم کے ہاتھ میں دے دی اور بھاگتا ہوا ٹیلے کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ چند ثانیے ایک پتھر کی اوٹ میں سمٹ کر وہ ٹیلے کی دوسری جانب دیکھتا رہا۔ پھر باگ اس کے ہاتھ سے لے کر بولا۔ ’’وہ ہمارے قبیلے کے آدمی ہیں۔ شاید انہیں آپ کا سراغ مل گیا‘‘۔
’’وہ کتنے ہیں…؟‘‘
’’تین ہیں۔ لیکن آپ کے لیے اُن سے اُلجھنا خطرناک ہوگا۔ وہ لڑنے کے بجائے واپس جا کر سارے قبیلے کو اِس طرف لے آئیں گے اور پھر شام کی حدود تک آپ کا پیچھا کریں گے۔ آپ یہیں کھڑے رہیں، میں انہیں دوسری طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔
سالم،عاصم کے جواب کا انتظار کیے بغیر گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور آن کی آن میں ٹیلے کے گرد نصف چکر کاٹ کر دوسری جانب پہنچ گیا۔
عاصم چند ثانیے بے حس و حرکت کھڑا رہا پھر گھوڑے کو ایک جھاڑی سے باندھ کر ٹیلے پر چڑھا اور چوٹی کے قریب لیٹ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ شام کے راستے پر تین سوار کافی دور جاچکے تھے اور سالم پوری تیز رفتاری کے ساتھ اُن کا پیچھا کررہا تھا۔ پھر یہ سوار ایک پہاڑی کے دامن میں رُک گئے اور مڑ کر سالم کی طرف دیکھنے لگے۔ سالم نے اُن کے قریب پہنچ کر اپنا گھوڑا روکا۔ وہ کچھ دیر کھڑے رہے اور اس کے بعد معمولی رفتار سے واپس یثرب کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب وہ ٹیلے کے قریب سے گزر رہے تھے۔ عاصم ایک پتھر کی آڑ میں لیٹا اُن کی باتیں سن رہا تھا۔
ایک سوار کہہ رہا تھا۔ ’’میرا اب بھی یہی مشورہ ہے کہ ہمیں یہیں پہرا دینا چاہیے۔ تمہارے ابا کہتے تھے کہ وہ شام کے سوا کہیں نہیں جائے گا‘‘۔
سالم کی آواز سنائی دی۔ ’’میری نظر اتنی کمزور نہیں کہ میں عاصم کا گھوڑا بھی نہ پہچان سکوں۔ میں نے اُسے پہاڑی سے نکل کر اُس طرف مڑتے دیکھا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اب تک وہ جبل احد کے عقب میں پہنچ چکا ہوگا‘‘۔
’’اگر وہ اُس طرف گیا تھا تو ہمارے پیچھے کیوں بھاگ رہے تھے؟‘‘
’’اُس کا تعاقب کرنے کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت تھی۔ جب تم اُس پہاڑی کے قریب سے گزر رہے تھے تو میں نے تمہیں آوازیں دیں لیکن تم میری طرف متوجہ ہوئے بغیر آگے نکل گئے‘‘۔
’’لیکن تم تنہا اس طرف کیسے آگئے؟‘‘۔
’’مجھے شک ہوا تھا کہ شاید وہ مکہ کا رُخ کرنے کے بجائے کہیں آس پاس چھپ کر دن گزارنے کی کوشش نہ کرے میں بنو قریظہ کے باغوں کے قریب پہنچا تو ایک چرواہے نے مجھے بتایا کہ اس نے ابھی ایک آدمی کو باغ سے نکلتے دیکھا ہے۔ گھوڑے کا حلیہ دریافت کرنے پر مجھے یقین ہوگیا کہ وہ عاصم کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا‘‘۔
ایک اور آواز سنائی دی۔ ’’میرے خیال میں ہمیں عاصم کا پیچھا کرنے کے بجائے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو خبردار کرنا چاہیے۔ اگر شام تک اُس کا سراغ نہ ملا تو رات ہی رات میں وہ کوسوں دور نکل جائے گا‘‘۔
عاصم اس سے زیادہ نہ سن سکا۔ سوار آگے نکل گئے اور جب وہ اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو اُس نے ٹیلے سے نیچے اُتر کر اپنا گھوڑا کھولا اور اُس پر سوار ہوگیا۔
O
ایک فوری خطرہ دور ہوچکا تھا۔ اور اب وہ کسی قدر اطمینان کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ لیکن اچانک اُس کے دل میں خیال آیا کہ میں کہاں جارہا ہوں اور اُسے اپنی زندگی کا ہر سانس ناقابل برداشت محسوس ہونے لگا… ماضی سے اُس کے تمام رشتے کٹ چکے تھے اور مستقبل کی تمام امیدیں خاک میں مل چکی تھیں، اپنے وطن سے آگے وہ روئے زمین کی جن وسعتوں کو سمیرا کے حسین تصورات سے آباد کیا کرتا تھا، وہ اب ایک بھیانک خلا میں تبدیل ہوچکی تھیں۔
نسلی غرور اور قبائلی عصبیت ایک عرب نوجوان کی سب سے بڑی پونجی تھی۔ لیکن وہ یہ پونجی لٹا چکا تھا۔ اُسے بنواوس کے لیے لڑنا اور مرنا سکھایا گیا تھا۔ لیکن اب وہ اُن تمام عقائد سے منہ پھیر چکا تھا جو اُسے زندگی سے زیادہ عزیز تھے۔ وہ تلوار جو اُس نے بنو خزرج سے لڑنے کے لیے خریدی تھی۔ اُس کے اپنے قبیلے کے آدمیوں کے خون سے تر ہوچکی تھی اور عرب کے قانون میں اپنے قبیلے کے کسی فرد کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے کے لیے رحم کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
اُمیدوں کے وہ چراغ، جن کی روشنی میں اُس نے اپنی زندگی کی ایک نئی منزل دیکھی تھی، بجھ چکے تھے۔ سمیرا کی موت اُس کے نزدیک، مستقبل کے تمام حوصلوں، ولولوں اور امیدوں کی شکست تھی۔ ماضی کی روایات سے منحرف ہو کر، جو الگ راستہ اُس نے اپنے لیے تلاش کیا تھا۔ ایک تاریک غار کے کنارے ختم ہوچکا تھا اور اب اُس کی حالت اُس مسافر کی سی تھی جسے بددلی اور مایوسی نے ہر راستے اور ہر منزل سے بے نیاز کردیا ہو۔ ماضی کے آغاش سے موت کے مہیب سائے اُس کا پیچھا کررہے تھے۔ اور اُس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ مستقبل اپنے دامن میں اُس کے لیے کتنی تلخیاں اور کتنی راحتیں لیے ہوئے ہے۔ تاہم زندگی کے ہر ولولے سے محروم ہونے کے باوجود اُسے اپنے قبیلے کے ہاتھوں مرنا پسند نہ تھا۔ یثرب اب اُس کے نزدیک ایک ایسا ظلمت کدہ تھا جہاں کسی روشنی کا تصور کرنا بھی ایک طرح کی خود فریبی تھی اور شام کا رُخ کرتے ہوئے عاصم کو صرف یہ تسکین تھی کہ وہ اِس ظلمت کدے سے دور جارہا ہے۔ لیکن کاش! اُسے یہ معلوم ہوتا کہ صرف چند منزل پیچھے، جبل فاران کی چوٹیوں پر، آفتاب رسالت نمودار ہوچکا ہے جس کی ضیاپاشیوں سے یثرب کے درودیوار منور ہونے والے ہیں۔ وہ جس وطن کے مستقبل سے مایوس ہو کرجارہا ہے، اُس پر راضی و سما کی تمام نعمتوں کی بارش ہونے والی ہے۔ وہ زمین جو اُس کے لیے تنگ ہوچکی ہے، اطرافِ عالم میں امن و سکون کے جویائوں کا مرکز بننے والی ہے۔ جہاں اُس نے شَر کا غلبہ دیکھا ہے وہاں نیکی کا بول بالا ہوگا۔ جہاں اُس نے بربریت، وحشت اور انتقال کے انگارے دیکھے ہیں وہاں محبت کے پھول کھلیں گے۔
عاصم نے پیغمبر اسلام کے متعلق ابھی تک صرف اس قسم کی باتیں سنی تھیں کہ مکہ کی زمین اُس پر تنگ ہوچکی ہے۔ قریش اُسے اپنا دشمن خیال کرتے ہیں، اُس کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور اُس پر ایمان لانے والے مٹھی بھر انسانوں کو مکہ کی گلیوں اور بازاروں میں زدوکوب کیا جاتا ہے۔ قریش ایک زبردست قوت کے مالک ہیں اور مکہ میں کسی ایسے دین کی کامیابی بعید ازقیاس ہے جس کی تعلیم اُن کے مروجہ عقائد کی نفی کرتی ہو۔
اگر کوئی مردِ حق آگاہ عاصم کا راستہ روک کر یہ کہتا۔ ’’تم کہاں جارہے ہو؟ تم اپنے مستقبل سے مایوس کیوں ہو؟ تو اُس قافلے کا انتظار کیوں نہیں کرتے، جسے قدرت نے اِس وادی میں اپنی عظمت اور جلال کے پرچم گاڑنے کے لیے منتخب کیا ہے؟ تم شام کی بجائے حجاز کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔ تم جس وادی کو الوداع کہہ رہے ہو۔ وہ روئے زمین کے تمام بے بس اور مجبور انسانوں کی امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز بننے والی ہے۔ یہاں زمین کے فرش پر بیٹھنے والے مرمریں ایوانوں میں سونے والے کجکلاہوں کی قسمت کے فیصلے کیا کریں گے۔ مکہ سے وہ ہادیٔ برحق آنے والا ہے جو اوس و خزرج کو ایک یہ صف میں کھڑا کردے گا۔ تم اس سرزمین پر نفرت اور عداوت کی بجائے اخوت اور محبت کے مظاہرے دیکھو گے۔ تمہیں زندگی کی راحتوں کی تلاش میں کسی اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔ تو عاصم اُسے دیوانہ خیال کرتا۔ اگر اُس وقت اچانک آسمان کے دریچے کھل جاتے اور وہاں سے نازل ہونے والے فرشتے عاصم کو یہ پیغام دیتے کہ پروردگارِ عالم نے اِس زمین کے باشندوں کو اپنے اُن انعامات کے لیے منتخب کیا ہے جو روئے زمین کی کسی قوم کے حصے میں نہیں آئے تو بھی اُسے اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں پر اعتبار نہ تھا۔
(جاری ہے)
چند دن بعد ایک شام عاصم قبیلہ غطفان کے ایک رئیس زید بن عبادہ کی بستی میں داخل ہوا۔ زید اُن تاجروں میں سے تھا جن کے ساتھ عاصم نے یروشلم سے واپسی میں سفر کیا تھا۔ عاصم کا چہرہ اس قدر تبدیل ہوچکا تھا کہ زید پہلی نگاہ میں اُسے پہچان نہ سکا اور عاصم کو یہ کہنا پڑا ’’میں یثرب سے آیا ہوں اور میرا نام عاصم ہے؟‘‘
زید نے گومجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’بھائی معاف کرنا۔ تمہاری صورت دیکھ کر مجھے یقین نہیں آتا کہ تم وہی ہو‘‘۔
عاصم اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا۔ ’’ایک مصیبت زدہ آدمی کی شکل تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی بستی میں ایک بے سہارا آدمی کو پناہ مل سکتی ہے؟ میں صرف چند دن کے لیے آرام کی نیند چاہتا ہوں۔‘‘
زید نے جواب دیا۔ ’’میرے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچ کر تمہیں یہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔
عاصم بولا۔ ’’میرا مقصد آپ کی مہمان نوازی کی توہین کرنا نہیں تھا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ میرے دشمن میرا پیچھا کررہے ہیں۔ ممکن ہے وہ یہاں بھی پہنچ جائیں‘‘۔
زید نے ایک نوجوان سے کہا۔ تم اس کا گھوڑا اصطبل میں لے جائو اور پھر عاصم سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’میرے ساتھ آئو!‘‘۔
عاصم اُس کے ہمراہ چل دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اپنے میزبان کے ساتھ ایک پُرتکلف دسترخوان پر بیٹھا تھا۔
عاصم نے چند نوالے کھانے کے بعد اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ تو زید نے قدرے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’میرا پیٹ بھر چکا ہے اور اب مجھے چند پہر صرف پرسکون نیند کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’میں نے تمہارے آرام کے لیے ایک علیحدہ خیمے کا انتظام کردیا ہے۔ اب اگر اسے مہمان نوازی کے آداب کے خلاف نہ سمجھو تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارا پیچھا کرنے والوں کی تعداد کیا ہے اور وہ یہاں سے کتنی دور ہیں؟‘‘
’’ان کی پانچ ٹولیاں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ آخری ٹولی کو میں نے یہاں سے تین منزل کے فاصلے پر دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ تمام سواروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہوگی‘‘۔
’’بنوخزرج کے پچاس سوار تمہارا پیچھا کررہے تھے اور تمہارے قبیلے کا کوئی آدمی تمہاری مدد کو نہیں پہنچا؟‘‘
’’میرا پیچھا کرنے والے بنو خزرج کے آدمی نہیں بلکہ میرے اپنے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور میں راستے میں لڑنے کی بجائے اُن کی نگاہوں سے بچ کر یہاں پہنچنا چاہتا تھا۔ مسلسل بے آرامی کے بعد میری آخری اُمید آپ کی بستی تھی لیکن یہاں تک پہنچنے سے قبل میرے لیے یہ اطمینان کرنا ضروری تھا کہ دشمن نے میرا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔ سواروں کا پہلا گروہ میں نے یثرب سے فرارا ہونے کے دوسرے روز دیکھا تھا۔ پھر میں راستہ چھوڑ کر دو دن صحرا میں بھٹکتا رہا۔ تیسری شام میں بھوکا اور پیاسا بنو کلب کی ایک بستی کے قریب پہنچا تو ایک چروا ہے کی زبانی معلوم ہوا کہ یثرب کے پندرہ بیس سوار بستی کے رئیس کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ رات بھی صحرا میں گزاری اور اس کے بعد تین دن اور ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ بنو کلب کے سواروں کا ایک گروہ بھی مجھے تلاش کررہا ہے۔ ایک رات میں نے ایک بددی کے خیمے میں پناہ لی۔ اُس نے میری خاصی خاطر تواضع کی لیکن جب ہم کھانا کھا کر لیٹ گئے تو وہ دبے پائوں خیمے سے باہر نکل گیا۔ میں ابھی نیم خوابی کی حالت میں تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے گھوڑے کی ہنہناہٹ سنائی دی۔ میں پریشان ہو کر باہر نکلا تو وہ میرے گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے یہ اطمینان تھا کہ میرے گھوڑے پر کوئی غیر سواری نہیں کرسکتا اس لیے میں ایک طرف چھپ کر اطمینان سے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ بددی مایوس ہو کر اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور ایک طرف نکل گیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے تلاش کرنے والوں کے پاس جارہا ہے۔ اس وقت میں چند گھنٹے کی نیند کے عوض اپنا گھوڑا اور زادراہ بھی قربان کرنے کو تیار تھا لیکن نیند کی حالت میں قتل ہونا مجھے پسند نہ تھا۔ چناں چہ میں نے اپنے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہو کر وہاں سے چل دیا۔ کوئی پانچ کوس چلنے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور میں گھوڑے کو کھلا چھوڑ کر ریت کے ایک ٹیلے پر لیٹ گیا۔ پچھلے پہر سردی سے میری آنکھ کھل گئی۔ اور میں نے آگ جلانے کی ضرورت محسوس کی لیکن ابھی کوئی خشک جھاڑی تلاش ہی کررہا تھا کہ مجھے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی پھر چاند کی دھندلی روشنی میں ٹیلے سے کوئی دو سو قدم دور مجھے چند سوار دکھائی دیئے، ایک شتر سوار اُن کی رہنمائی کررہا تھا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ وہ کون ہے۔ حیران کی بات صرف یہ تھی کہ اُس نے مجھے نیند کی حالت میں قتل کیوں نہیں کردیا تھا‘‘۔
’’اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ قتل نہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ تمہیں پکڑوانے کے بعد اُسے زیادہ انعام کی توقع تھی۔ میں تمہاری تمام سرگزشت سننا چاہتا ہوں لیکن اس وقت تمہیں آرام کی ضرورت ہے میرے ساتھ آئو‘‘۔
عاصم اُس کے ساتھ باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد وہ کشادہ صحن کے کونے میں ایک چھوٹے سے خیمے میں داخل ہوا۔
زید نے کہا۔ ’’اب تم اطمینان سے سو جائو۔ میں تمہیں اس بات کا یقین دلا سکتا ہوں کہ اگر یثرب کی ساری آبادی اس طرف اُمڈ آئے تو بھی میرا خاندان تمہاری حفاظت کرے گا۔ مجھے بنو کلب کے متعلق بھی یہ اطمینان ہے کہ وہ یثرب کے کسی خاندان کو خوش کرنے کے لیے ہماری دشمنی مول نہیں لیں گے‘‘۔
زید عاصم کو تسلی دینے کے بعد خیمے سے باہر نکل گیا اور عاصم کو بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ پچھلے پہر وہ بیدار ہوا تو اُس کا گلا پیاس سے خشک ہورہا تھا۔ اور جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں اُسے خیمے کے دروازے کے قریب ایک مٹکا دکھائی دیا اُس نے اُٹھ کر پانی کے دو کٹورے پیئے اور دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن جسم کے درد اور بخار کے باعث اُسے نیند نہ آئی۔ طلوع سحر کے وقت وہ خیمے سے نکلا اور کچھ دیر بستی سے باہر گھومنے کے بعد واپس آکر پھر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
زید خیمے کے اندر داخل ہوا اور عاصم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
زید نے کہا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تم ابھی تک سو رہے ہو گے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں کئی دن کے بعد آرام کی نیند سویا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ آج ہی مجھے اپنی تھکاوٹ کا احساس ہوا ہے۔ میرا سارا جسم درد کررہا ہے اور شاید بخار بھی ہے‘‘۔
زید نے آگے بڑھ کر اُس کی نبض دیکھی اور بولا۔ ’’میں شام کے وقت بھی یہ محسوس کررہا تھا کہ تم بیمار ہو، لیکن دو چار دن آرام کرنے کے بعد تم بالکل ٹھیک ہوجائو گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میرا خیال تھا کہ میں ایک رات آرام کرنے کے بعد سفر کے قابل ہوجائوں گا اور آپ کو زیادہ تکلیف نہ دوں گا‘‘۔
زید نے جواب دیا۔ ’’عاصم! میں تمہیں عمر بھر کے لیے پناہ دے چکا ہوں۔ اور میرا سارا خاندان یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے لیے یہ سودا مہنگا نہیں۔ میں بنو غطفان کے تمام رئوسا کے سامنے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تم ہمارے قبیلے میں داخل ہوچکے ہو اور میرے خاندان سے تمہارا رشتہ خون کا رشتہ ہے۔ ہمارے پاس اہل یثرب کی طرح سرسبز و شاداب چراگاہیں اور باغ نہیں لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ دوسرے قبائل کے کئی پناہ گزین ہمارے قبیلے میں داخل ہوچکے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن اس وقت میرا کوئی فیصلہ ایک ایسے انسان کا فیصلہ ہوگا۔ جو اپنے حواس کھوچکا ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ مجھے چند دن سوچنے کا موقع دیں‘‘۔
زید نے ندامت کے لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں نے تمہیں کسی شرط کے بغیر پناہ دی ہے لیکن مجھے یقین ہے تندرست ہونے کے بعد جب تم اپنے مستقبل کے متعلق اطمینان کے ساتھ سوچو گے تو میری مخلصانہ دعوت۔د نہیں کرسکوں گے‘‘۔
O
پانچویں دن عاصم کا بخار اتر چکا تھا اور مزید چند دم آرام کرنے کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا۔ اِس عرصہ میں اُسے اپنا تعاقب کرنے والوں کے متعلق یہ معلوم ہوچکا تھا کہ وہ بنو کلب کے علاقہ چھاننے کے بعد بنو غطفان کے بعض رئوسا کے پاس بھی پہنچے تھے لیکن زید کے اثرورسوخ کے باعث قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ ایک دن زید کو یہ اطلاع ملی کہ پانچ سوار اُس کی بستی کا رُخ کررہے ہیں۔ اُس نے بیس جوان اُن کا راستہ روکنے کے لیے بھیج دیے۔ زید کے آدمیوں نے بستی سے دو کوس کے فاصلے پر اُن پر حملہ کیا اور اُن کے گھوڑے اور اسلحہ چھین کر انہیں واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد کسی اور گروہ کو زید کی بستی کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
تین ہفتے کے بعد ایک دن زید کی چھوٹی بہن کی شادی کے موقع پر قبیلے کا بڑا سردار اور دوسرے رئوسا اُس کے گھر جمع ہوئے تو اُس نے عاصم کو اُن کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو اور بزرگو! مجھے اِس بات پر فخر ہے کہ قبیلہ اوس کے ایک معزز نوجوان نے پناہ لینے کے لیے میرا گھر منتخب کیا ہے اور میری وجہ سے بنو غطفان کے اسلحہ خانے میں ایک قیمتی تلوار کا اضافہ ہورہا ہے۔ میں اسے اپنے قبیلے میں داخل کرنے کے لیے آپ کی اجازت چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ خوشی سے مجھے اس کی اجازت دیں گے۔ عاصم کے دل میں ابھی تک یہ شبہ ہے کہ ہم شاید اُسے پناہ دے کر بنواوس کی دشمنی مول لینے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اور اسے مطمئن کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ سب باری باری میرے اِس اعلان کی تائید کریں کہ آج سے عاصم کے دوست ہمارے دوست اور اس کے دشمن ہمارے دشمن ہوں گے‘‘۔
(جاری ہے)