غزل

152

کچھ گمانوں کے پاس بھی لیکن
کچھ ہے میرا قیاس بھی لیکن
دور دریا ہے پاس صحرا ہے
اور شدت کی پیاس بھی لیکن
تیرے جانے کی منتظر بھی ہوں
تیرے آنے کی آس بھی لیکن
چشمِ ناداں مکر بھی سکتی ہے
دل ہے صورت شناس بھی لیکن
اس کی آواز ہر جگہ ہے مگر
وہ نہیں آس پاس بھی لیکن
اب بھی تم وسوسوں سے ڈرتے ہو
مل گئی سورہ ناس بھی لیکن
یوں تو دل وصل کو مچلتا ہے
پر جدائی ہے راس بھی لیکن
میرے پیروں کی آخری بیڑی
کر گئی کچھ اداس بھی لیکن

حصہ