زندگی کی ہر سر گرمی میں ایک متوازن اور بامعنی ’’وقفہ‘‘ ضروری ہے۔ ہماری شخصیت کے حُسن کا یہ ایک راز بھی ہے۔اس وقفہ سے ہماری کائنات میں توازن قائم رہتا ہے۔ جیسے آلات ِ موسیقی سے جو بھی نغمہ ابھر تا ہے وہ مستقل آواز وں سے نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبہ بند، ہنر مندانہ وقفوں سے سرگم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی موزوں فاصلہ ہی گیت کا جادو ہے، راگ کا رس ہے۔ یہ وقفہ جب عمارت کا استحکام بن جاتا ہے‘ جب وہ ستونوں کو مناسب فاصلے پر کھڑا کرتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کو موج بنا کر پہاڑوں کی بلندیوں پر لے جانے کا ہنر بھی ’’رکاوٹ سے روانی پیدا کرنے کا ہنرہے۔‘‘ جہاں پانی کی رہ گزر پر گڑھے کھود کر، اس میں پانی گرا کر بلندی کی جانب موج کو ایک جست سے پہاڑوں پر لے جایا جاتا ہے۔ یہاں بھی گڑھا حکمت عملی کا فاصلہ ہے۔ بدن کا حُسن بھی جب ترش کر مناسب فاصلوں سے نکھرتا ہے تو بانکپن کا وقار پاتا ہے۔
وقفہ یا فاصلہ بڑا اہم لفظ ہے۔ ’’کاہل‘‘ شخص کو فعال بننے کے لیے اس کے اپنے اقدامات میں دور دور تک پھیلے ہوئے فاصلے کو کم کرنا ہوگا ورنہ خیال و عمل کی دوری اس کو نکما بنادے گی۔ ’’جلد باز انسان‘‘ کو اپنے ردِعمل کے فاصلے کو بڑھانا ہوگا ورنہ بجلیوں کے کوندے اس پرٹوٹ گریں گے۔ اسی طرح سے اگر آپ غور کریں‘ شیر کے پنجرے میں سلاخوں کے فاصلے اگرکشادہ کردیں تو وہ انسانوں میں گھس کر ہلاکت کا سامان کردے گا۔ اگرسلاخیں آپس میں جوڑ کر دیوار بنا کر شیر کو چنوادیں تو وہ سانس بھی لے نہ پائے گا اور گُھٹ کر مر جائے گا۔
بنیادی طور پر ہمارا ذہن روزانہ 60 ہزار سے زیادہ خیالات کی گزر گاہ ہے۔ اس ہوائی اڈے پر بھیڑ کے سبب ہمارا سکھ چین چھن جاتا ہے۔ اس لیے اس کی غیر ضروری پروازوں میں جتنا وقفہ آئے گا اتنا قرار ہماری جانوں کو ملے گا۔ اس لیے مراقبہ بھی ذہنی ہنگام کا پرسکوں وقفہ ہے۔ جو اپنائی ہوئی خاموشی کو سونا جیسا قیمتی بنادیتا ہے۔ جلد بازی سے بچنے والوں کو رب تعالیٰ نے اپنی آیات کی جلوہ سامانیوں کے نور سے منور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
’’آدمی جلد باز بنایا گیا ہے، میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی دکھاتا ہوں سو جلدی مت کرو۔‘‘(الانبیاء:37)
اس لیے ہزار موجوں اور بارشوں کے پانی کی بے شمار بوندوں سے الگ ہو کر جب کبھی ایک ٹھہرا ہوا قطرہ سیپی کی پنا ہ میں آتا ہے تو اسی فاصلے کے سبب موتی بن جاتا ہے۔ ردعمل کی وحشتیں، بجلیوں کے کوندوں پر قابو پانے کا ہنر ہم نے نہیں سیکھا۔
فاصلہ بنائے رکھنا تو خود پر قابو پانے کا ہنر ہے۔ جب جب ہم عجلت پسندی کو اپناتے ہیں تب تب غصہ ہمارے عجلت پسند کے کاندھے پر سوار ہو جاتا ہے بلکہ ہمارے وجود کو جانور بنا کر ہماری پیٹ پر سوار رہتا ہے۔
طبیعتوں کے اضطراب سے پیدا سیمابیت کے سبب ہمارا وجود پُرسکون نہیں رہتا۔ مزاجوں کی منہ زوری مطلوبہ وقفے کو راہ نہیں دیتی۔ اس کے برعکس کسی رنج کے سبب جب جب رواں آنسو تھم جائے تو بڑے سے بڑے غم کا وقار بڑھا دیتی ہے۔ ایک نئی گمراہی جب مذہبی معاملوں میں جذبات کی تائید لے کر، ماحول میں اتاری جائے تو وہ جدت، گمراہ کن بدعت بن جاتی ہے۔ اس سرگرمی کو روایت بننے سے روکنا اور من چاہی تاویل کو تھام کر وقت کا وقفہ بڑھا دیا جائے تو وہ بدعت گمراہی نہیں بنتی ورنہ بنامِ خیر شر فروغ پاتا ہے۔
اس حکمت کو برباد ہوتے دیکھنا ہو تو لوگوں کو لذیز کھانوں اور اس پر جلدی جلدی ٹوٹ پڑنے کی رسوا کن حماقت دیکھیں۔ اس سرگرمی میں عزت تو برباد ہوتی ہے ساتھ ساتھ ان کے جینے کے ڈھنگ کا پتا بھی چل جاتا ہے۔ اس پر پورا نظامِ صحت ملیامیٹ ہوجاتا ہے۔ اگر یہ دستری ڈکیت، غذائی دہشت گرد اپنے لقموں میں فاصلہ بڑھاتے ہوئے۔ رب کے عطا کردہ 32 دانتوں کا پُرسکون استعمال کریں تو ہر دانہ ہزار نعمت کی سوغات دے جائے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ اشتہارات کی دنیا، تجارت کی منڈیاں طیش میں پل پل کر خریدنے والوں پر پلتی ہے۔ ہرغیر ضروری چیز کو بنیادی بنا کر پیش کرتی ہے۔ یہ دنیا جلد بازوں پر پلتی ہے۔ اشتہار ات آپ کو اپنی حیثیت بھلا دیتے ہیں اور قرض لینے پر آمادہ کردیتے ہیں۔ کریڈیٹ کارڈ کا خوش رنگ جال اسی جذبے سے بُنا گیا۔ اشتہارات کے جادوِ اثر بلکہ سفلی عمل جیسے حربوں سے ہمیں صرف یہ ’’فاصلہ‘‘ بچا سکتا ہے۔ اگر ہم منڈی سے وہی چیز اٹھائیں جو ہماری بنیادی ضرورت کو پورا کرتی ہوں ورنہ جذباتی خریداری کے سبب بچت کا منصوبہ مٹی میں مل جاتا ہے۔
طیش میں لانے والے جذباتی بھونچال سے عزت کی زندگی، رسوا کن قرض کی زندگی میں بدل جاتی ہے۔ حکمت کے تمام فیصلے گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔ اپنے لیے دیوانگی کے انتخاب کے سبب ہم اپنی حکمت کی لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔ اس لیے ایک ’’وقفہ‘‘ کے سبب اچھے نصیبوں کی ساجھے داری ایک متوازن فیصلے سے شروع ہوسکتی ہے جس کے لیے ہمیں اپنے دل کی بے تابیوں کو تھامنا ہوگا ورنہ دھڑکن تیز ہوتے ہی ہمارا جینا دوبھر ہو جائے گا اور دھڑکن زیادہ بڑھتے ہی زمین چھن جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایک لمبا وقفہ اور بڑا فاصلہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کاہل شخص کے اپنے ٹال مٹول سے ڈھلے ہوئے زندگی کے تمام فیصلوں کے فاصلے کو سمیٹنا ہوگا ورنہ اس کو قدرت کا قانون وہی رسوا کن سزا دے گا جو جلد باز کا مقدر ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں اس رسوائی سے بچانے والی کہاوتیں بھی ہیں۔ ’’جلدی پکا سو جلدی سڑا‘‘ اور ’’جلدی کا کام شیطان کا اور دیرکا کام رحمن کا۔‘‘ اس لیے قرآنِ پاک نے فیصلے اور مزاجوں کی سستی سے بچنے کو کہا۔
’’اور سست نہ ہو اور غم نہ کھائو اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘
کہتے ہیں فوری طور پر بغیر سوچا ہواعمل کرنا۔ جس کا محرک نتائج سے بے قابو جذبہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ سڑک پار کر کے خود کو حادثے کے حوالے کرنا ہو یا زندگی کے تیز فیصلے سے آزمائشوں میں گھرنا ہو۔ جب کہ اس جذبہ کو تربیت کے کساو میں رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ روّیوں کو الجھا تا ہے‘ پُر خطر جوکھم میں ڈالتا ہے‘ بے قابو بھوک، ذہنی وحشت و شدت جو کبھی جنسی جوکھم یا اقدامِ خودکشی تک گھسیٹ سکتی ہے۔ اس جذباتی بھونچال کی اکہری تعبیر ممکن نہیں۔ اس کے ہزار رنگ ہوتے ہیں، یہ پیش بینی کی کمی، نئے خطرات سے کھیلنے کا شوق، بے قابو تمنائیں، خود کو انوکھے جتلانے کا دھن، ذہنی ہنگام سے اُمڈنے والے فوری جذبات کے سبب رشتے توڑنے پر اتاولے ہونا اورترجیحات میں بے ترتیبی بھی ایک بڑا سبب ہے۔
وقفہ کی قوت: سوچ ا ور اختیار کی مہلت بڑھا دیتا ہے۔ یہ وقفہ فوری جذبات سے آزادی دیتا ہے۔ اگر وقفہ نہ ہو تو جلد بازی کے سبب ہماری زندگی کے تمام رنگ، حکمت کا نور اور خیر کی خوش بو ہم سے چھن جاتی ہے اور اگر وقفہ اخلاقی مہمات کا شریک ہو تو یہ ہمیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔ اس لیے افصح العرب والعجم نبیٔ رحمتؐ کے انگلیوں جو کائنات کی نبض پر تھیں، ہمیں اس الجھن کو ہزار جہتوں سے سمجھانے والی ایک بنیادی بات بتادی ’’جو چپ رہا وہ نجات پا گیا۔‘‘ یہ چپ بے سبب گفتگو سے جذبات کی تہذیب تک ہے۔ اسی لیے علامہ اقبالؒ نے ایک نورانی وقفے کو لبیک کہا‘ الجھنوں کے حل ڈھونڈتی ساعتوں میں تھم جانے کو کہا۔ وہ وقفہ جو ہمیں شبِ زندہ دار بنادے۔ مشکل گھڑیوں میں ہمارا کوئی مہمات پسند ساتھی ہو کہ دل و دماغ کا ہنگام ہو، سب کو رک کر رب سے جڑ جانے کو کہا کیوں کہ فکر کے سفر میں پڑائو ضروری ہے‘ قیام لازمی ہے۔ جہاں بندہ اپنے رب کے آگے اپنے سجدے سے پہلے یہ قیام کا وقفہ پاتا ہے۔
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا