ریحانہ: دیکھو بیٹا! زندگی میں ہم جو چاہتے ہیں وہ سب کچھ نہیں ملتا، اور جو کچھ ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ضرور ملتا ہے۔ بعض اوقات کوئی چیز ہمیں بظاہر اتنی اچھی محسوس نہیں ہوتی لیکن آگے چل کر اس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں… ویسے بھی آپ پچیس سال کی ہوگئی ہیں، ہم نے اسی سوچ میں کئی رشتے گنوا دیے کہ آپ کو ماسٹر کرنے کا شوق تھا۔ وہ بھی پورا ہوگیا، اب مزید وقت گنوانا صحیح نہیں ہے۔
…٭…
شعیب، ریحانہ کے شوہر کے دور پرے کے رشتے دار کا بیٹا تھا، بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی تو دونوں گھرانوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ شعیب کے ابو سرمد صاحب کی خواہش پر ہی امبر اور شعیب کی شادی کی بات طے ہوگئی۔ سرمد صاحب کی فیملی بظاہر خوشحال اور آسودہ تھی۔ شعیب معمولی شکل صورت کا عام سا لڑکا تھا۔ امبر نے ایک صاف ستھرے ماحول میں پرورش پائی تھی۔ آج کے زمانے کی طرح اُس نے کوئی بہت اونچے خواب نہیں دیکھے تھے لیکن وہ آرام دہ اور پُرسکون زندگی چاہتی تھی۔ سسرال میں قدم رکھا تو اس گھر کے بہت سے مسائل و پیچیدگیاں سامنے آتی گئیں… بڑی مشکل سے جہیز کے لالچ میں تینوں بیٹیوں کی شادیاں تو ہوگئیں لیکن آئے دن وہ کوئی نہ کوئی مطالبہ لے کر باپ سے رقم لے لیتیں کہ ابو کی کمائی میں ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا باقی گھر والوں کا۔
…٭…
راحیلہ آج ایک بڑی رقم کا مطالبہ لے کر اپنے والد کے پاس آئی۔ ماں کے کہنے پر مجبوراً والد نے اسے رقم دے دی۔ راحیلہ کا مطالبہ پورا ہوا تو شہلا بھی آگئی کہ نئے مکان کے لیے رقم کم پڑ رہی ہے، ابو آپ نے ہی یہ شادی کروائی ہے، اب میں سسرال میں نہیں رہ سکتی، الگ گھر لینا چاہتی ہوں… غرض کہ تینوں بیٹیاں اور دونوں چھوٹے بیٹے باپ کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ شعیب گرچہ بڑا بیٹا تھا لیکن سیدھا سادہ تھا… اور حالات اُس وقت ابتر ہو گئے جب شعیب کی معمولی ملازمت بھی چلی گئی۔ نئی ملازمت کا ملنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا… امبر بڑی مشکل سے گزارا کررہی تھی۔ شوہر سے کہا کہ مجھے ملازمت کی اجازت دے دیں، لیکن سسر نے منع کردیا کہ ہماری بہو بیٹیاں ملازمت نہیں کرتیں۔گھر میں ماں کے ساتھ ساتھ ابھی تک تینوں بہنوں کا راج تھا۔ گھر میں تین بہوئیں تھیں… لیکن امبر پڑھی لکھی، دو بچوں کی ماں سب کے رحم وکرم پر تھی… ان ہی حالات میں سرمد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹروں کی کوشش کے باوجود وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے ان کی موت کا وقت آچکا تھا۔
سرمد صاحب کے انتقال کے بعد سب سے چھوٹے بیٹے ریحان نے باپ کا تمام بچا کھچا سرمایہ اور مکان کے کاغذات اپنے قبضے میں لے لیے۔ شعیب اور امبر کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت تک نہ رہی۔ بڑی مشکل سے شعیب کو ایک چھوٹی موٹی ملازمت مل گئی، کرائے پر دو کمروں کا مکان بھی مل گیا تو امبر نے بھی ملازمت کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی۔ تجربہ نہ تھا لیکن تعلیم کی ڈگری تھی، لہٰذا اسکول میں استانی کی ملازمت مل گئی۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ بڑا منصف اور مہربان ہے، کسی کو بھی اپنی رحمتوں سے محروم نہیں کرتا، بے شک آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں، ان کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ امبر نے اپنی ماں سے اچھی تربیت حاصل کی تھیجو اس کی زندگی کے لیے رہنما بن گئی۔ وہ شام میں پڑوس کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانے لگی۔ اس طرح دونوں میاں بیوی کی اتنی آمدنی آنے لگی کہ بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوگئے اور دو وقت کی دال روٹی کا انتظام بھی ہوگیا۔ گرچہ ان مصائب کا براہِ راست اثر امبر پر پڑ رہا تھا۔ گھر، بچے، اسکول کی ملازمت اور شام میں ٹیوشن… ان سب ذمہ داریوں کے باوجود امبر پوری کوشش کرتی کہ بچے اور شوہر متاثر نہ ہوں۔ امبر کی امی بیٹی کی اس حالت پر کڑھتیں، لیکن براہِ راست کچھ نہ کہتیں۔ امبر جانتی تھی کہ امی میری وجہ سے دکھی ہیں، اس لیے اُن سے کچھ بھی شیئر نہ کرتی۔ دوسری طرف سسرال والے شعیب کے کان بھرتے کہ تمہاری بیوی بے کار میں پرائیویٹ اسکولوں کے چکر میں پڑی ہوئی ہے، اسے اصل میں گھومنے پھرنے کا شوق ہے اسی لیے ملازمت کررہی ہے۔ امبر سب کچھ سنتی اور صبر و استقامت سے اپنی تمام ذمے داریاں ایمان داری و خلوص سے انجام دیتی۔ اس کے حوصلے اور ہمت پر اس کے دوست احباب حیران ہوجاتے، اور وہ لبوں پر کبھی شکوہ بھی نہ لاتی، ہر مشکل کو ہنس کر یہ کہہ کر برداشت کرتی کہ اللہ نے مجھے بہت سی دوسری نعمتوں سے مالامال کیا ہے، بچے ذہین اور فرماں بردار ہیں، مجھے اللہ نے صحت و ہمت دی ہے، سر چھپانے کے لیے چھت دی ہے، اور بہت سے محبت کرنے والے رشتے بھی دیے ہیں، بہت سے لوگ ان نعمتوں سے بھی محروم ہیں۔ خصوصاً جب وہ اسکول کے بہت سے دولت مند گھرانوں کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی دیکھتی تو گھر آکر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی۔ کسی کو بیمار دیکھتی تو شکرانۂ رب سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔ غرض کہ وہ ہر تکلیف کے وقت اپنا محاسبہ کرتی کہ اللہ نے اسے دوسری کن کن نعمتوں سے نوازا ہے، اس طرح اسے اپنی ہر تکلیف کم لگتی۔ وہ ایسی ہی تربیت اپنے بچوں کی بھی کررہی تھی۔ بچے ماں کے نقشِ قدم پر چل کر عجز و انکسار، محبت، خلوص، ایمان داری جیسی خوبیوں سے مزین ہوتے گئے۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو آزماتا ہے لیکن ان کی طاقت و ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اور جو اللہ پر بھروسا کرتے ہیں، اللہ رب العالمین ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ مومن بندے کا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ میرا رب بڑا منصف و مہربان ہے، وہ آزمائش و تکلیف دیتا ہے لیکن ان حالات سے بھی وہی نکال سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ غلط راہیں اپنانے سے وقتی طور پر تو شاید تکلیف دہ لمحے آسانی میں ٹل جائیں، لیکن غلط قدم ابدی زندگی کو تباہ کردیں گے۔ لہٰذا مشکل و تکلیف میں رب پر کامل بھروسا اور محنت، لگن، اور صحیح راستہ اپنانا ایمان کی نشانی ہے۔
امبر کی زندگی کا یہ حقیقی واقعہ آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج ہمارے سامنے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اِن حالات میں ہمت ہار دیتے ہیں، اور واویلا مچاتے ہیں، جس کی وجہ سے آس پاس کے قریبی رشتے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بدمزگی کی اس لہر سے خصوصاً بچے بہت متاثر ہوتے ہیں، ان کی زندگی پر پڑنے والے یہ منفی اثرات ساری زندگی ان کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کے سامنے میاں بیوی لڑتے جھگڑتے ہیں یا خصوصاً بیویاں رونا روتی ہیں، شوہروں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی ہیں، سسرالی رشتوں کا ہر وقت گلہ شکوہ، یا ان کی زیادتیوں کا رونا روتی رہتی ہیں، یہ غلط روش ہے۔ وقت آنے پر اولاد کو بھی احساس ہوجاتا ہے کہ کن رشتوں کی طرف سے ہمارے والدین کو دکھ پہنچا ہے۔ اگر وقت آنے پر انہیں احساس ہو بھی جائے تو انہیں مثبت طریقے سے درگزر کی تلقین کرنی چاہیے تاکہ رشتوں کا تقدس قائم رہے۔ اور بچوں کو یہ بھی باور کرائیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہی تھا۔ آزمائش کی گھڑیوں میں صبر و تحمل اور رب پر بھروسا کرنے، اور کوشش اور مثبت طریقہ اپنانے سے ہی معاملات سدھرتے ہیں۔