ٹرانس جینڈر ز کے لئے قانون سازی

475

قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ تھی کہ فتنے اس طرح ٹوٹ کر گریں گے جیسے ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے۔۔ یعنی ایک کے بعد ایک فتنے سر اٹھاتے چلے جائیں گے اور ہم انہی میں الجھ کے رہ جائیں گے۔
آج کی طرح ہر فتنے کے لیے ایک دلیل ہوگی اور فتنوں کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی ہوگی۔۔
تو وہ قانون سازی کبھی فیمینزم کو پروموٹ کرنے کے لیے ہے، تو کبھی تیسری جنس کے تحفظ کے لیے۔
اور یہ گلوبل ولیج تو ہم جنس پرستوں کے تحفظ کے لیے خم ٹھوک کر میدان میں آگیا ہے۔۔ ہم محض تماش بین ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایجنڈے کے تحت ہماری شریعت سے سراسر متصادم قوانین بن جاتے ہیں۔ ہم کچھ احتجاج ریکارڈ کرا دیتے ہیں، لیکن ہوتا وہی ہے جو وقت کے فرعون چاہتے ہیں۔
خدا کی خدائی کو چیلنج کرنا اس وقت کے فرعونوں کا سب سے بڑا ایجنڈا ہے۔
قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب وہ قوانینِ فطرت سے بغاوت کرتی ہیں تو تباہ ہوجاتی ہیں۔
اللہ نے مرد اور عورت کے علاوہ ایک تیسری جنس بنائی، بالکل ایسے ہی جیسے کسی کو بینائی سے محروم رکھا کسی کو سماعت سے، کچھ بچے ذہنی معذور ہوتے ہیں، آٹزم کا شکار ہوتے ہیں۔
کیوں ہوتے ہیں؟ اللہ پابند نہیں ہے کہ ہمارے اس کیوں کا جواب دے۔۔۔
جب سے دنیا قائم ہے یہ تیسری جنس بھی ہے، لیکن ہزاروں میں کوئی ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ جو ہر چوک چوراہے پر درجنوں خسرے موجود ہیں اللہ نے یہ جنس کبھی اتنی وافر نہیں بنائی۔
یہ ناخواندہ نوجوان جو اپنے آپ کو اس روپ میں پیش کرکے ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اگر ملازمتیں ان کے لیے نہیں ہیں تو ملازمتیں تو پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے بھی نہیں ہیں۔ ان کے ذہن میں بھیک مانگ کر کھانا ہی کیوں آتا ہے؟
کوئی فلمی اداکارہ سرعام وہ فحش حرکات نہیں کرسکتی جو یہ کرتے پھرتے ہیں۔
کیا ان کی الگ کالونی ہونا چاہیے؟
کیوں؟ یہ جس خاندان کے فرد ہیں وہ ان کو تحفظ فراہم کرے۔ جس طرح جسمانی یا ذہنی معذور بچے خاندان میں پیار و محبت سے پلتے ہیں اِن کو بھی خاندان کا تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
پہلے پہل خاندانوں میں ایسے لوگ ہوتے بھی تھے تو تشہیر نہیں کی جاتی تھی۔
بیٹی کی صورت میں گھریلو زندگی گزار کر، یا تلاش معاش کرکے مردانہ انداز میں پاکیزہ زندگی گزار کر رخصت ہوجاتے تھے۔
اس وقت یہ بحث بہت سادہ نہیں ہے۔
جس طرح خواتین پر تشدد کی آڑ میں مادرپدر آزادی کے ایجنڈے پر کام کرکے نکاح کو مسدود کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسی طرح ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ کا قانون منظور کرکے کس سمت پیش رفت کی جارہی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جائزہ لیں کہ اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تشریح کیا کی گئی ہے؟
نمبر 1۔۔ پیدائشی طور پر لڑکا یا لڑکی کا تعین نہ ہونا بلکہ تیسری جنس ہونا۔
نمبر 2۔۔ زندگی میں کسی وقت کسی حادثے کی صورت میں یہ تبدیلی ہوجانا۔
اور نمبر3۔۔ عادت و اطوار کے باعث دوسری جنس میں تبدیلی کا رجحان پایا جانا۔
جس طرح کالے رنگ کو گورا کرنے، ہیئر ڈائی سے بالوں کا اور کانٹیکٹ لینس سے آنکھوں کا رنگ بدلنے کے اختیارات حاصل ہیں، اسی طرح خواہش پر جنس بھی تبدیل کی جاسکتی ہے!!
یہ دنیا کو کس طرف دھکیلا جارہا ہے؟
دنیا بھر میں ہم جنس پرستی کے قوانین کو قانونی حیثیت دی جارہی ہے۔
ہم بھی ٹرانس جینڈر کی آڑ میں بے حیائی اور عملِ قومِ لوط کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا، انڈیا کے صف ِ اوّل کے اداکار اسٹوڈیو میں ایک خاتون کا انٹرویو کررہے ہیں جو اپنی جنس تبدیل کراکر مرد سے عورت بن گئی ہے۔۔ وہ کہہ رہی تھیں چونکہ ان کی عادات لڑکیوں والی تھیں اس لیے انہوں نے مزید لڑکا رہنا پسند نہ کیا۔
ناظرین انہیں خراجِ تحسین پیش کررہے تھے، گویا ان کو رول ماڈل بناکے پیش کیا گیا کہ انہوں نے کتنا بولڈ فیصلہ کیا… یعنی جیسے چاہو جیو۔
بجائے نفسیاتی معالج کی خدمات حاصل کرنے کے ہم فرد کو تبدیلیِ جنس کا اختیار دے کر خدا کی خدائی میں کیسا فساد برپا کررہے ہیں!
نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے برسوں میں پچیس ہزار سے زائد عورتوں اور مردوں نے تبدیلیِ جنس کا آپریشن کروایا۔
یہ بھی کھیل تماشا ٹھیرا۔۔۔
ہم اپنی آئندہ نسلوں کو کس دنیا میں چھوڑ کر جارہے ہیں، فکر اس بات کی ہونی چاہیے۔
ہم سے قومِ لوط، ہود و ثمود کے بگاڑ کے بارے میں تو سوال نہیں ہوگا لیکن پاکستان میں خلافِ شرع قوانین منظور کیے جاتے رہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں تو۔۔۔۔۔ اجتماعی بے حسی پر عذاب قوموں پر آتے ہیں۔ تب گیہوں اور گھن ساتھ پستے ہیں۔۔ تاریخِ امم یہی بتاتی ہے۔
ہاں! سازشوں کے لیے سازشی دماغ درکار ہوتے ہیں جو بہت باریک بینی سے اپنے اہداف تیار کرتے اور انھیں حاصل کرتے ہیں۔
کچھ سال قبل ایک ٹی وی چینل پر خسروں کے حوالے سے ایک ڈرامہ سیریز آئی تھی جس میں ان کو بہت مظلوم دکھایا گیا تھا کہ معاشرہ اس جنس کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اختیار کرکے ان کا استحصال کرتا ہے، ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اُن کے کچھ نمائندے ٹی وی پروگراموں میں بلائے جانے لگے، جو اپنی مظلومیت کو ثابت کرنے کے لیے معاشرے کی سنگ دلی پر بات کرکے ہمدردیاں حاصل کرتے تھے۔
ہمارا معاشرہ الحمدللہ معذوروں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا معاشرہ ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جو یتیم خانے بناتے اور انھیں بہت اہتمام سے چلاتے ہیں۔
معذور بچوں کے ادارے ایک شان کے ساتھ چل رہے ہیں مخیر اور دردمند افراد کے تعاون سے۔۔
چیریٹی میں پاکستان دنیا بھر میں اپنا امتیازی مقام رکھتا ہے۔
صائمہ سلیم نامی نابینا خاتون پاکستان کی نمائندگی اقوام متحدہ میں کرتی ہیں، عالمی فورم پر کشمیر کا مقدمہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے محنت سے اپنا مقام بنایا۔ کسی معذوری کو روگ بناکر ہاتھ نہیں پھیلایا۔
اصل میں غلطی ان خسروں کے بڑوں سے ہوئی ہے، جنھوں نے ناچ گانے کو پیشے کے طور پر اپنایا۔
مجھے یاد ہے بچپن میں محلے کے جس گھر میں شادی بیاہ کی بھنک پڑتی یہ آن دھمکتے۔ یہاں تک کہ گھروں میں بے تکلف داخل ہوجاتے، اس ہمدردی کا فائدہ اٹھاتے جو لوگ ان سے رکھتے ہیں۔
گلی میں کھڑے ہوکر ناچنا اور ڈھول بجانا شروع کردیتے۔ ایک مجمع لگ جاتا ان کا ناچ دیکھنے کے لیے۔
لوگ ان کو نوٹوں سے نوازتے.. سو انہوں نے یہ پست معاشرتی مقام پیشے کے طور پر اپنالیا۔۔
یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر یہ مرد اور عورت دونوں نہیں ہیں تو یہ عورتوں کا بہروپ کیوں اختیار کرتے ہیں؟ کیوں یہ مردوں سے خود کو قریب نہیں سمجھتے؟ جب کہ عورت کے روپ کے لیے ان کو مسی، غازے پر بھی خاصے اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔
اس طرح یہ معاشرے کو سخت فتنے سے دوچار کرتے ہیں۔ یہ عورتوں کی بھی توہین ہے۔
جس طرح سماعت یا بصارت سے محروم لوگوں کا کوٹا ہے، ان کا بھی ملازمتوں میں کوٹہ ہونا چاہیے۔ ان کو بھی خاندانی تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ ذمہ داری ریاست کے ساتھ خاندان کی بھی ہے کہ وہ ان کو تنہا نہ چھوڑیں۔
عورتوں کے لیے جتنی قانون سازی ہورہی ہے اتنے ہی ریپ کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان کے لیے جتنا قانونی تحفظ اور قانون سازی کریں گے ان کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔۔ ان کے مطالبات بڑھتے چلے جائیں گے۔
معاشرتی آگہی اور خاندان کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانا ضروری ہے۔
ان کے لیے کوئی اخلاقیات ترتیب دینا قانون سازی میں شامل کیا جائے۔
قرآن نے فتنے کو قتل سے شدید کہا ہے۔ کسی کو چوک چوراہوں پر فحش حرکات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

حصہ