اس ہفتہ سماجی میڈیا پر ایک پاک بھارت لفظی بلکہ میم کی جنگ خوب چلی ۔یوں کہہ لیں کہ بھارت میں اس ہفتے ہی ’ابھی نندن‘‘ کو اعلیٰ فوجی اعزاز دینے کی تقریب نے سوشل میڈیا کی محفل لوٹ لی ۔ازخود ’پاکستانی فضائیہ کا ایف 16 طیارہ مار گرانے‘ کے نام پر بہادری کا لیبل چڑھا کر بھارت نا معلوم کیوں ایسا کر رہا تھا ۔ سب یہی سوال کرتے رہے ۔ ابھینندن کو ’ویر چکرا‘ ایوارڈ دے کر انڈیا اپنے ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی اپنا مذاق بنواتا رہا مگر جان لیں کہ بھارت کی اپنی حرکات میں استقامت کوہ گراں مانند ہی ہے ۔ ایسے خیالی عمل پر بہادری کا حقیقی فوجی اعزاز دے دینا تو شاید دنیا بھر کی فوجی اقدار کے معیار کے منافی ہے۔سب نے دیکھا تھا کہ یہ پائلٹ کس طرح پاکستان میں گرفتار ہوا، چائے پی اور پاکستان کے موجودہ (بلکہ ماضی کے ہوتے تو بھی ایسا ہی ہوتا )حکمرانوں نے کیسے عزت سے اسکو واپس کر دیا۔ایک ٹوئیٹ یہ بھی کی گئی کہ ’انڈین فضائیہ کی تاریخ میں پہلے بھی ایک فرضی قصے پر ویر چکرا کا اعزاز دیا جا چکا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ 1965 کی جنگ کے بعد انڈین فضائیہ کے ونگ کمانڈر ٹریور کیلر کو پاکستانی ایئر فورس کے فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی کے ایف 86 کو گرانے پر ویر چکرا دیا گیا جو کہ لڑائی کے بعد بیس پر واپس بھی پہنچ گیا تھا۔‘ایک دلچسپ میم یہ بھی بنائی گئی جس میں ابھینندن حیرت سے کہہ رہا ہے کہ ’’باپ رے اپنا ہی جہاز گرانے کا اتنا بڑا انعام ۔‘اسی طرح ایک اور میم بنی جس میں اخبار پڑھتا شخص کہہ رہاتھاکہ ،’’کمال ہے یہ سب میں نے کیا‘‘پوری دنیامیں پھیلے پاک بھارت محبان قوم و وطن کی جانب سے مواد ڈالا جاتا رہا ، مگر سچ پوچھیں یا میرا تجزیہ جو میں نےہیش ٹیگز کی اسکریننگ کی تو مجھے یہی محسوس ہوا کہ بھارتی شہری خود اندر سے شرمندہ ہیں ۔ سلیم صافی نے خود بھارت کے مشہور این ڈی ٹی وی کا اسکرین شاٹ لگاتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ ،’ویسے ڈرامہ بازی اور جھوٹ بولنے میں انڈین حکومت کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ ابھینندن کو پاکستانی ایف 16 گرانے کے صلے میں ایوارڈ دیا جارہا ہے لیکن آج تک انڈین پاکستانی ایف 16گرانے کا ثبوت نہیں دکھاسکے۔خود امریکیوں نے بھی اس وقت تصدیق کی تھی کہ پاکستان کاکوئی ایف 16مسنگ نہیں۔‘پاک فضائیہ نے بھی بھارت کی اس حرکت پرشدید ردعمل دیا کیونکہ ایف سولہ والی بات دور دور تک درست نہیں تھی۔بھارتیوں کے سارے دعوؤں یا خوشی کے اظہار کی سپورٹ میں یا تو سیدھی سیدھی مبارک باد تھی یا اس کی عمومی تصویر تھی یا ابھینند ن کی میڈل /اعزاز لیتے ہوئے کی تصاویر یا کچھ لوگوں نے اس واقعہ کے دوران بھارتی میڈیا کی خبروں کے کلپس ڈال دیئے جس میں ایسی ہی ہوائی کہانیوں سے بھارت کی ڈیڑھ ارب آبادی کو بہادری کے قصے سنائے جا رہے تھے ۔ دوسری جانب اہل پاکستان کے پاس تو بھارت کی ذلت آمیز تصاویر اور وڈیوز کی بھرمار تھی ، جس کا کوئی جوا ب نہیں دے سکتا تھا۔ ابھی نندن کی چائے، اسکی چائے کی رسید، اسکا فنٹاسٹک والا جملہ، بارڈر پر حوالگی کے مناظر ، زخمی حالت میں پکڑے جانے کے مناظر، ہمارے شوز کے کلپس، سمیت بہت سارا مواد تھا جس کا کوئی جواب کم از کم بھارتی دینے سے گریز ہی کر رہے تھے ۔
اسی طرح MeatEatersViolate_LawOfGod کاہیش ٹیگ بھی بھارت کی ٹرینڈ لسٹ میں دیکھ کر مجھے کچھ حیرت ہوئی ،ذرا چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ 3 سال سے مستقل بھارت ، پاکستان کے عوام کوکبھی بھگوان، کبھی مہاراج، کبھی سنتھ کہلوانے والا ’رام پال‘ اور اسکی ٹیم کا یہ نیا کام تھا۔اس بابے کومسلسل میں 3سال سے نوٹ کر رہا ہوںجو سوشل میڈیا پر مستقل بھاری بھرکم سرمایہ کاری کرکے جگہ پانے میں مصروف ہے۔شروع میں تو صرف اپنے نام کی ہی مالا جپواتا تھا ، مگر RSSدور حکومت کے حساب سے ا ب آہستہ آہستہ مذہبی لبادے کو کسنا شروع کر دیا ہے ۔ گوشت کھانے کے حوالے سےبھارت میں شروع ہی سے سخت ٹینشن جاری رہی ہے ،باوجود اسکے کہ بریانی ہندوؤں کی بھی مرغوب ڈش ہے۔ مگر صرف مسلمانوں کے ساتھ تو خاص ہی مسئلہ ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ مسلمان عید قرباں انتہائی جوش و عقیدت سے مناتے ہیں جس سے ایسے RSSذہنیت کے افراد پر خود ساختہ نفرت کے ساتھ ایک خاص رعب و دبدبہ ضرور طاری کرتی ہے۔یہی وجہ ہے جو مسلمانوں کو گھوم پھر جانوروں کے قتل کی آڑ لیکر تنقید و تشددکا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔رام پال کی ٹیم بڑی سمجھ دار یوں بھی ہے کہ اس نے گوشت نہ کھانے پر مہم چلائی اور تمام تر پوسٹوں میں گوشت کے اظہار کے لیے بکروں ہی کو منتخب کیا۔ نہ اسکو گائے یاد آئی، نہ بھینس اور نہ مرغی ، مچھلی۔گوشت کھانے کو شدید گناہ بتاتا رہا اور صرف سبزی کھانے کی جانب مائل کرتا رہا ۔مزید تحرک کی خاطر ساتھ ساتھ سارے مذاہب اور خدا کو بھی شامل کر لیا کہ خدانے اور تمام مذاہب نے گوشت کھانے کی اجازت ہی نہیں دی۔کہیں تو خدا لکھا تو کہیں اللہ کے نام سے پوسٹ بنا ڈالی کہ ’اللہ ان لوگوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا جو اس کی مخلوق کا قتل کرتے ہیں‘اصل میں لفظ تو Kill his Beings لکھا جس کے دونوں معنی بن سکتے ہیں انسان بھی ، مخلوق بھی۔ بہرحال موصوف سوشل میڈیا کے ٹول کو اپنی ویب سائٹ کوبڑے بھرپورانداز سے اور اپنے شائقین، ٹارگٹ آڈینس کے مزاج، اپنے چیلوں ، مریدوں کی نفسیات کے عین مطابق کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیاپرمعززجج صاحبان کی مبینہ لیک وڈیو، آڈیو کے چرچے جاری رہے ۔ لوگ کہتے نظر آئے کہ ’’ویڈیو اور آڈیو کا سیزن چل رہا ہے ڈرو اس وقت سے جب قطری نے کوئی ویڈیو ریلیز کر دینی ہے۔‘‘اسی طرح ، ’’یا اللہ دائیں سے بائیں سے، آگے سے پیچھے سے ،اوپر سے نیچے سے عمران خان کی کسی ایسی ویسی وڈیو لیک سے حفاظت فرما۔‘‘ایک میم یہ بھی رہی کہ ’’بس کر دو بی بی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے ، تم سارے پاکستان کی وڈیو لیک کر دو پھر بھی وزارت عظمیٰ خان کے پاس ہی رہنی ہے۔‘‘بھی مقبول ٹوئیٹ رہی ۔عاصمہ جہانگیر کی موت پر سال مکمل ہونے کی تقریب میں علی احمد کرد کی دھواں دھار انٹری نے بھی سوشل میڈیا پر بھونچال برپا کیا، اپوزیشن نے بھی موقع دیکھ کر خوب شور مچایا۔ اسی دوران پیٹرول ہڑتال اور منی بجٹ کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سوشل میڈیا پر ’آپ کے شہر میں پیٹرول کی صورتحال ‘ پر مباحث جاری رہے ، پیٹرول کامعاملہ حل کروکے ہیش ٹیگ تلے لوگ پیٹرول پمپ کے پتے پوچھتے رہے اور پمپ پر موجود عوام کے رش کی وڈیوز ، تصاویربھی شیئر کرتے رہے۔ اب عوام کی جانب سے سوشل میڈیا میم بنانے کی ترتیب یوں بن گئی تھی کہ آٹا، چینی، گیس ، بجلی اور اب پیٹرول ۔سوشل میڈیا کی بدولت پیٹرول پمپ مالکان مافیا کی ہڑتال کا علم ہو گیا تھا اور شہریوں نے ایسا رش لگایا کہ مت پوچھیں۔لوگوں نے لکھا کہ یہ بھی حکومت کا پیٹرول قیمت بڑھانے کا طریقہ ہے ۔کچھ جگہ سے یہ پوسٹ ڈلوائی گئی کہ لوگ نواز شریف ، زرداری کے پرانے پاکستان کو یاد کر رہے ہیں ۔مریم نواز نے بھی ایسی رش والی تصاویر کےایک کولاج کو شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ،’’لاہور، اسلام آباد، گجرانوالہ کی یہ تصاویر صرف پیٹرول کے لیے قطاروں کی نہیں بلکہ عوام کے کرب، تکلیف اور بے بے بسی کی داستان ہے۔ میری دعا ہے ان ہی قطاروں میں عمران خان، اسکو مسلط کرنے والے اور وزرا بھی کھڑے ہوں تاکہ انھیں پتہ چلے کہ عوام پر کیا قیامت ٹوٹی ہے۔‘‘اس کے جواب میں لوگوں نے 2015میں ہونے والے ایسے ہی پیٹرول بحران کی نیوز رپورٹس نکال نکال کر یہ سمجھایاکہ اصل میں تو عوام کو اس کا عادی ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ بے چاری اب بھی رواں حکومت پرتنقید اور سابقہ کو اچھا کہہ کر گزارا کر رہی تھی، جبکہ اعمال دونوں کے یکساں ہی تھے۔
میری تحریر کا موضوع سماجی میڈیا اور اس پر زیر بحث مباحث کا خلاصہ و اشارہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو بغیر استعمال کیے جان سکیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے۔امریکا میں ہونے والے ایک قابل ذکر واقعہ کے بعد اسی کے ذیل میں پچھلی دو تحاریر تھیں ۔ شیطان اور موسیقی و میڈیا و سوشل میڈیا کے تعلق سے کچھ باتیں مضامین میں تحریر کی گئی تھیں ۔ سلسلہ کلام چونکہ موضوع کے دائرے میں تھا اس لیے کچھ قارئین کی جانب سے سوال آئے ۔ مقصد موضوع سے ہٹنا نہیں بلکہ اُن کی تشفی کے لیے بات کو کچھ پس منظر سے یہاں بیان کر رہا ہوں ۔
قرآن مجید میں سیدھا اور انعام والوں کا رستہ مانگنے کے بعد سورۃ البقرۃ سے شیطان کے بارے میں تفصیلات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سورۃ الناس تک جاری رہتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ سورۃ الناس کاتعلق تمام شیطانی وسوسوںو طاقتوں سے حفاظت کا ہے۔اس کے درمیان کوئی82مقامات شامل ہیںجن میں ابلیس اور شیطان کے نام سے بات کی گئی ہے ،باقی جو اشارہ کر کے بات کی گئی ہے وہ الگ ہیں ۔ ان میں ایک اور یاد رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ 12مقامات پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو واضح طور پر ’’شیطان بطورکھلا دشمن ‘‘کہہ کر متنبہ کیا ہے۔یہی نہیں بلکہ شیطان کے تمام حربے ، شیطان کی طاقتوں اور شیطان کے ساتھیو ں سمیت تمام ہدایات واضح طور پر بتا دیں۔اسی طرح ابلیس کے نام کا13مقامات پر ذکر ہے اور ان میں زیادہ تر وہ مکالمے ہیں جو اللہ پاک کے ساتھ ہوئے۔علامہ ابن کثیرؒ احادیث کی روشنی میں ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ، کائنات میں چار چیزیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنائی ہیں ، باقی سب کچھ اللہ کی جانب سے ’’کن ‘‘ کہہ دینے سے ہی بنا ہے۔ان چار میں آدم ، عرش، قلم جس سے لوح محفوظ میں سب کچھ لکھا گیا اور جنت( عدن)۔قرآن و احادیث سے واقعاتی ترتیب یہی محسوس ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے اعلان فرمایا کہ میں ایک ایسی مخلوق بنانے والا ہوں جسے زمین پر میں اپناخلیفہ بناؤں گا۔اللہ پاک کا یہ ارادہ پہلے سے ہی تھا کہ ایسا ہونا تھا۔زمین پر یعنی اس دنیا پر انسانوں سے قبل جنات بستے تھے جنہوں نے دُنیا میں شدید فساد برپا کر رکھا تھا۔ اس کے بعد ان کی صفائی کے لیے فرشتوں وجنات کی زبردست جنگ ہوئی ۔ اس جنگ میں جنات کی بڑی تعداد کو قتل بھی کیا گیا اور کچھ کومار بھگاکر کچھ جزیروں میں مقید کر دیا گیا۔یاد رہے کہ یہ سب فسادی شریر جنات تھے ۔اس جنگ کی کمانڈ جبرئیل علیہ السلام نے کی اور جبرئیل کاساتھ دیا عزازیل نے جس کا نام بعد ازاں ’ابلیس ‘ہوا ۔ یہ دونوں بہت دوست تھے۔بقول اقبال جبرئیل نے پوچھاکہ ’’ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو؟‘‘ تو عزازیل بولا ’’سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو‘‘۔ یہ نظم بھی اقبال کا زبردست شاہکار ہے۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ عزازیل کو ’’سلطان الارض کہا جاتا، یعنی زمین کا بادشاہ کہا جاتا، اسکی طاقت و رب کی بے پناہ عبادت کی وجہ سے ، اس کو اللہ نے فرشتوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی تھی جس کی وجہ سے اس نے عرش سے زمین پر آنے کا علم بھی جان لیا۔یہاں سے اس کے اندر ’انا‘ کا ایک بت پروان چڑھا ۔ جب اس نے عرش پر آدم علیہ السلام کا پتلادیکھا تو وہاں سےوہ ’ اِن سیکیور‘ ہونا شروع ہواجو اس کے اندر کے شدید حسد میں تبدیل ہوگئی۔یہاں تک کہ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو خاص علم عطا کیا اور مرتبہ دیا جس کے بعد فرشتوں سمیت تمام مخلوقات کے سامنے انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام ملا توعزازیل نے اس فیصلے کو اللہ کے سامنے چیلنج کر دیا (معاذ اللہ ) اس نے قرآن کے مطابق اللہ ہی کو مورد الزام ٹھہرایاکہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے ۔اب بات کو یہاں ایک توقف کے بعد سمجھانے کے لیے اشارہ دوںگا ، میڈیا کو بطور ٹول کے تعلق والی بات سمجھانے کے لیے۔ مارول سیریز کا نام سنا ہوگا آپ نے وگرنہ گوگل کر لیں، ہالی ووڈ، گریک میتھوڈولوجی سمیت دنیا کے تمام قدیم مذاہب میں دیکھ لیں تمام ایسی آفاقی کہانیوں میں یہی بات آپ کوواضح نظر آئیگی کہ درحقیقت انہوں نے اسلامی ورژن کو خراب کر کے انہوں نے اسی کہانی کو اپنے حساب سے ترتیب دیا ہے ۔ ایک بچہ حسد کا شکار ہوجائے گااور تباہی مچادے گا۔ یہ بچہ ہی تو عزازیل ہے ’تھور‘جیسی فلمیں ہمارے پاس مثال ہیں، ایک بڑا خدا دکھاتے ہیں اس کے بچے دکھاتے ہیں ایک حسد کا شکار ہوتا ہے ، سب پر قبضہ چاہتا ہے اور اس کی خاطر سب کچھ تباہ کرتا ہے۔ یہ بات آپ کو فلموں میں خوب نظر آئے گی کہ اب کسی محلہ، علاقے، شہر یا ملک پر نہیں بلکہ دنیا پر قبضہ کی بات کی جاتی ہے ۔ ایسے ولن پیش کیے جاتے ہیں جو پوری دنیا پر اپنا اقتدار چاہتے ہیں ۔ ایسی ترتیب دکھاتے ہیں کہ وہ انسانوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، کسی وائرس سے، کسی بم سے یاکسی اور طاقتور شے سے ۔ یہ کوئی معمولی خیال نہیں ہے جو پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ سب شیطان کا ایجنڈا ہے جو اذہان میں اتارا جا رہا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک لمحہ کو آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ سب تو اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہے ۔ تو براہ کرم نوٹ کرلیں سورۃ صبا۔21کے مطابق یہ اختیار بھی اللہ ہی کا عطا کردہ ہے یہ جاننےکے لیے کہ ’کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون شک میں پڑا ہے‘‘۔امتحان ہمارا ہے ، اللہ بنیادی طور پر ہماری ہی سائڈ ہے اس لیے اس نے امتحان میں ہمیں پرچہ بھی پہلے تھما دیا، مشکل حالات، دشمن، کیسے وار کرے گا ، کب کرے گا، کیسے بچنا ہے ، پھنس جاؤ تو نکلو گے کیسے یہ سب بتا دیا مگر ہمیں آزاد مرضی پر ہی چھوڑ دیا ہے کہ ہم سب کچھ جان کر اس کے وفاداربنتے ہیںیا شیطان کے ۔سلسلہ طویل ہے اس کو مزید جاری رکھیں گے اگلے ہفتہ۔