قیصرو کسری ٰقسط(25)

288

سالم نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے لیکن آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’یہ تمہیں ابھی معلوم ہوجائے گا‘‘۔
دائیں طرف ایک جگہ سے دیوار ٹوٹی ہوئی تھی اور وہاں جھاڑیوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ عاصم نے باگ موڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہ باڑ پھاند کر باغ میں داخل ہوگیا۔
سالم نے کہا۔ ’’یہ شمعون کا باغ ہے آپ اُس کے گھر پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
عاصم نے گھوڑا روکا اور نیچے کودتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے حملہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تم یہاں انتظار کرو… اگر کوئی خطرہ پیش آئے تو میرے گھوڑے پر یہاں سے نکل جانا‘‘۔
’’لیکن میں…‘‘۔
عاصم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اب تم خاموش رہو، یہ باتوں کا وقت نہیں۔ میں تمہیں صرف اس لیے ساتھ لایا ہوں کہ شاید قبیلے کے لوگوں کو تمہاری گواہی پر اعتبار آجائے۔ اگر مجھے اپنے کام میں کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو میں تمہاری بجائے عباد کو اپنے ساتھ لاتا‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’بہت اچھا! میں آپ کے ساتھ جانے پر ضد نہیں کرتا لیکن مجھ سے یہ توقع نہ رکھیے کہ اگر کوئی خطرہ پیش آیا تو میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائوں گا‘‘۔
عاصم نے کوائی جواب دیئے بغیر جلدی سے گھوڑے کی گردن سے رسّا اُتارا اور بھاگتا ہوا درختوں میں غائب ہوگیا۔
باغ میں سوگز چلنے کے بعد وہ شمعون کے گھر کے بیرونی احاطے کی دیوار کے سامنے رُکا اور دیوار پر چڑھ کر اندر جھانکنے لگا۔ دائیں طرف شمعون کے سکونتی مکان کا دروازہ بند تھا اور بائیں طرف کچھ فاصلے پر ایک چھپر کے نیچے اُس کے نوکر لیٹے تھے۔ عاصم کسی توقف کے بغیر صحن میں کود پڑا اور چھپر کی طرف بڑھا۔ چھپر کے اندر تین آدمی گہری نیند میں خراٹے لے رہے تھے۔ ایک دراز قامت اور قوی ہیکل آدمی کے خراٹے سب سے زیادہ بلند تھے۔ عاصم نے ہلکی سی ٹھوکر سے اُسے جگایا اور اُس کے سینے پر تلوار کی نوک رکھ دی۔ شمعون کے غلام نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں اور انتہائی بدحواسی کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔ عاصم نے تلوار پر ذرا دبائو ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم نے شور مچایا تو میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا۔ تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔ اُٹھو! اور اپنے ساتھیوں کی طرف مت دیکھو، وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ میں اگر چاہوں تو انہیں جگا کر بھی قتل کرسکتا ہوں‘‘۔ غلام خوف سے کانپتا ہوا اُٹھا۔ عاصم نے اُس کے گلے میں پھندا ڈال کر رسّے کو ایک جھٹکا دیا۔ اور پھر تلوار کی نوک اُس کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری خیر اِسی میں ہے کہ تم خاموشی سے میرے آگے آگے چلتے رہو…‘‘ غلام کو اِس حکم کی تعمیل کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آیا، وہ عاصم کے آگے آگے چل دیا۔
صحن کے دروازے کے قریب رُک کر غلام نے پہلی بار عاصم سے ہمکلام ہونے کی جرأت کی اور اُس نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’آپ مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’تم دروازہ کھولو۔ اور خاموشی سے میرے ساتھ چلتے رہو‘‘۔
غلام نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دروازہ کھول دیا اور وہ باغ میں داخل ہوئے۔ اچانک بائیں ہاتھ گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور سالم درختوں کی آڑ سے نکل کر اُن کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
’’اخی!‘‘ اُس نے گھوڑے سے اُتر کر معذرت کے انداز میں کہا۔ ’’میرے لیے وہاں انتظار کرنا بہت صبر آزما تھا اب صبح ہوگئی ہے آپ دیر نہ کریں‘‘۔
عاصم کچھ کہے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور پھر شمعون کے غلام سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’تم رات بھر کی بھاگ دوڑ سے بہت تھک گئے ہوگے لیکن میں اِس وقت تمہارے لیے سواری کا انتظار نہیں کرسکتا۔ تمہیں کچھ دیر میرے ساتھ بھاگنا پڑے گا۔ تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ تم راستے میں گرنے کی کوشش نہ کرو… اور تمہارے فائدے کی دوسری بات یہ ہے کہ تم میرے ہر سوال کا جواب دو‘‘۔
غلام نے کہا۔ ’’آپ نے وعدہ کیا ہے کہ آپ مجھے قتل نہیں کریں گے‘‘۔
’’لیکن اگر تم نے کوئی غلط جواب دیا تو میں اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکوں گا… بتائو رات کے وقت ہمارے گھر سے عدی کے باغ تک کسی نے تمہارا پیچھا کیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں…‘‘
’’اور جب تم عدی کے باغ میں چھپ گئے تھے تو وہاں میں تمہیں ملا تھا؟‘‘
’’جی ہاں…‘‘
’’تم ہمارے گھر میں آگ لگانے کے بعد بھاگے تھے؟‘‘
’’جناب! میں بے قصور ہوں، میں باہر کھڑا تھا۔ میں ایک غلام ہوں اور اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کررہا تھا‘‘۔
’’میں تمہیں شمعون کے جرم کی سزا نہیں دوں گا۔ لیکن سچ کہو کیا شمعون نے تمہیں یہ حکم دیا تھا کہ جب ہمارے آدمی حملہ کرنے والوں کا تعاقب کریں تو تم انہیں اپنے پیچھے لگا کر عدی کے گھر تک پہنچادو، تا کہ ہمارے آدمی یہ خیال کریں کہ حملہ کرنے والے عدی کے بیٹے تھے‘‘۔
’’جناب! مجھ پر رحم کیجیے وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
عاصم نے رسّے کو جھٹکا دیا اور گرجتی ہوئی آواز میں چلایا۔ ’’خبیث! ٹھیک ٹھیک جواب دو‘‘۔
غلام نے سراپا التجا بن کر جواب دیا۔ ’’جناب! مجھ پر رحم کیجیے۔ میں نے صرف اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’سالم اب تم اپنے گھر جائو، اب تم سمجھ گئے ہوگے کہ اِس لڑائی سے میرے اجتناب کی وجہ کیا تھی۔ میں اپنے قبیلے سے مایوس ہوں لیکن عدی کے گھر میں جمع ہونے والے لوگ شاید یہ بات سمجھ جائیں کہ ہم یہودیوں کے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ اس کے بعد میری کوشش یہ ہوگی کہ یہ شخص زندہ تمہارے پاس پہنچ جائے۔ اس لیے نہیں کہ میں اپنی صفائی پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہ جب میں یہاں سے نکل جائوں تو تم میرا نام لیتے ہوئے شرم محسوس نہ کرو۔ اب تم جائو! اگر عباد راستے میں مل گیا تو میں اسے اُس کے حوالے کردوں گا‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’اخی! آپ ان باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر کریں۔ جابر اور مسعود کے قتل کے بعد ہمارے قبیلے کا کوئی آدمی میری باتوں پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ اور اگر وہ اِس ذلیل غلام کی گواہی پر اعتبار کر بھی لیں تو بھی وہ آپ کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ آپ یہاں سے فوراً نکل جائیں۔ میں جبل احد کے چشمے کے قریب آپ کا انتظار کروں گا‘‘۔
’’سالم تمہارا کیا خیال ہے کہ میں عدی اور سمیرا کے قاتلوں سے رحم کی درخواست کروں گا۔ منات کی قسم! اگر بنو اوس میرے سر پر تاج رکھ دیں تو بھی میں اُن کی رفاقت گوارا نہیں کرسکتا۔ تمہیں احد کے دامن میں میرا راستہ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں شام کا رُخ کررہا ہوں اور یہ میری آخری ملاقات ہے۔ اگر تم عباد کا خیال رکھ سکو تو یہ مجھ پر احسان ہوگا‘‘۔
عاصم نے یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑ لگادی اور شمعون کا غلام جس کا رسّہ اُس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اُس کے ساتھ بھاگنے لگا۔
O
قبیلہ خزرج کے کئی اور آدمی عدی کے گھر میں جمع ہوچکے تھے اور چند عورتیں بین کررہی تھیں۔ مقتولین کے خون سے بھرا ہوا ایک پیالہ دروازے کے سامنے پڑا تھا اور نوداروباری باری اس خون سے اپنی انگلیاں تر کرکے اُن کا انتقام لینے کا حلف اٹھارہے تھے۔
عاصم گھوڑا دوڑاتا ہوا صحن میں داخل ہوا۔ شمعون کا غلام جس کا لباس پسینے سے تر ہوچکا تھا۔ بڑی مشکل سے اُس کا ساتھ دے رہا تھا۔ عباد اُسے پیچھے سے ننگی تلوار سے ہانک رہا تھا۔ عاصم نے صحن میں داخل ہوتے ہی رسّے کو زور سے جھٹکا دیا اور غلام جس کی ہمت جواب دے چکی تھی منہ کے بل گرپڑا۔
صحن میں جمع ہونے والے لوگ ایک دوسرے کی زبانی عاصم کی کار گزاری کا حال سن چکے تھے اس لیے کسی نے اُس کی آمد پر بے چینی کا مظاہرہ نہ کیا لیکن شمعون کے غلام اور عباد کو دیکھ کر وہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔
عاصم نے کہا۔ ’’بھائیو! میں نے آپ سے کہا تھا کہ یثرب میں میرے حصے کا آخری کام باقی ہے… اب شمعون کے غلام کو آپ کے سامنے پیش کرکے میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ یہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اوس اور خزرج ایک دوسرے کا خون بہا کر یہودیوں کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں۔ تم لوگ جانتے ہو کہ اب میرا اپنے قبیلے سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ مجھے اس سے سروکار نہیں کہ تم میں سے کون مرتا ہے اور کون زندہ رہتا ہے۔ میں یہاں نہیں رہوں گا، اور میری آنکھیں تمہاری بربادی کا تماشا نہیں دیکھیں گی، لیکن یثرب چھوڑنے سے پہلے میں آخری بار تمہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ اوس اور خزرج جس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں وہ آگ یہودیوں نے لگائی ہے۔ یہ شمعون کا غلام ہے اور تم اِس سے میری باتوں کی تصدیق کرسکتے ہو۔ رات کے وقت جب ہمارے گھر پر حملہ ہوا تھا تو میں باغ میں عدی سے باتیں کررہا تھا۔ سمیرا کے سوا اِس گھر کے کسی اور فرد کو ہماری ملاقات کا علم نہ تھا۔ پھر جب میں عدی سے رخصت ہو کر باغ سے نکل رہا تھا تو شمعون کا غلام بھاگتا ہوا اِس باغ میں داخل ہوا۔ اور ایک آدمی جو اس کا پیچھا کررہا تھا واپس چلا گیا۔ میں نے اس غلام سے اس طرف آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے یہ بتایا کہ میں اپنے آقا کے گھر سے چوری کرکے بھاگا ہوں۔ اور اُس کے نوکر میرا پیچھا کررہے ہیں۔ مجھے شمعون کی چوری سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب میں گھر پہنچا تو وہاں ہمارے مویشیوں کا چھپر جل رہا تھا اور میرا چچا زخمی تھا۔ قبیلے کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ عدی کے بیٹے ہمارے گھر پر حملہ کرکے بھاگ گئے ہیں اور میرے غلام عباد نے اس گھر تک، اُن میں سے ایک کا تعاقب کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ پتا چلا کہ منذر کے بیٹے عدی کے گھر پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ میں واپس یہاں پہنچا تو اس گھر پر حملہ کرنے والے اپنا کام پورا کرچکے تھے‘‘۔
شمعون کا غلام بے حس و حرکت منہ کے بل پڑا تھا۔ عاصم نے عباد کو اشارہ کیا اور اُس نے اُس کی گردن پکڑ کر کھڑا کردیا۔ عاصم نے غلام سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’بتائو! یہ باتیں درست ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ اُس نے گردن جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا یہ درست ہے کہ حملے کے بعد شمعون نے تمہیں عدی کے گھر کی طرف بھاگنے کی ہدایت کی تھی؟‘‘
’’جی ہاں! لیکن میں بے قصور ہوں۔ ایک غلام کے لیے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔
عاصم نے عباد کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’عباد! اب تم اسے میرے چچا کے پاس لے جائو۔ اگر یہ اُن کے سامنے اپنے بیان سے منحرف ہونے کی کوشش کرے تو اسے سالم کے سپرد کردینا، مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا سر قلم کرتے ہوئے شمعون کا خوف محسوس نہیں کرے گا۔ تمہارے لیے یہودیوں کی آبادی سے گزرنا خطرناک ہوگا، اس لیے باہر سے پھیر کھا کر پہنچنے کی کوشش کرنا۔‘‘
عباد نے غلام کا رسّا پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن میں آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ساتھ کسی ایسے مسافر کا دیا جاتا ہے جس کی کوئی منزل ہو اور میرے لیے بے نشان راستوں کے سوا کچھ نہیں۔ تم جائو!‘‘
عباد کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور وہ غلام کو کھینچتا ہوا وہاں سے چل دیا۔
حاضرین اب آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کررہے تھے۔ عاصم کچھ دیر خاموشی سے اُن کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’منذر کے بیٹوں نے سمیرا، عدی اور نعمان کے بھائیوں کو قتل کیا ہے اور میں نے منذر کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، لیکن یہ اوس اور خزرج میں سے کسی کی فتح نہیں۔ یہ صرف یہودیوں کی فتح ہے۔ تمہارے درمیان نفرت کی آگ یہودیوں نے جلائی ہے اور تمہارے خون کے چھینٹوں سے اس کے شعلے بھڑکتے رہیں گے۔ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی۔ اور مجھے اِس جرم کی سزا مل چکی ہے۔ میرے باغ کے تمام پھول اِس آگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ اب مجھے یثرب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اب میں تم سے کوئی التجا نہیں کروں گا‘‘۔
اتنا کہنے کے بعد عاصم کی آواز بھرا گئی اور اُس نے گھوڑے کی باگ موڑ لی۔
نعمان نے بھاگ کے دروازے کے باہر اُسے روکا اور کہا۔ ’’عاصم، ٹھہرو!… مجھے معلوم نہیں کہ تم سمیرا کو کب سے جانتے تھے۔ لیکن میںتمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتی اور تمہارا ساتھ دینا چاہتی تو میں اُس کا راستہ نہ روکتا۔ میرے لیے صرف یہ جان لینا کافی ہوتا کہ تم نے ابا جان کی حمایت میں تلوار اُٹھائی تھی۔ مجھے اپنے قبیلے کے طعنوں کی پروا نہ ہوتی۔ اب اگر تم جانے سے پہلے ایک بار پھر اُسے دیکھنا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)
عاصم نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’نعمان! اب میں سمیرا کو نہیں دیکھ سکوں گا‘‘۔
ایک عمر رسیدہ آدمی آگے بڑھا اور اُس نے کہا۔ ’’بیٹا! اب تم دیر نہ کرو ورنہ تمہارے لیے یثرب سے زندہ بچ نکلنا ناممکن ہوجائے گا‘‘۔
نعمان نے کہا۔ ’’آپ کا گھوڑا تھک گیا ہوگا۔ آپ میرا تازہ دم گھوڑا لے جائیے‘‘۔
’’نہیں! یہ میرا آخری دوست ہے اور میں اسے یہاں چھوڑنا پسند نہیں کروں گا‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍباب 11
طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد عاصم ایک ٹیلے کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اچانک ٹیلے کی اوٹ سے سالم گھوڑا بھگاتا ہوا اور عاصم نے اپنے گھوڑے کی باگ کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’سالم تمہیں اس طرف تنہا نہیں آنا چاہیے تھا۔ اگر قبیلہ خزرج کے آدمیوں نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ بھوکے بھیڑوں کی طرح تم پر ٹوٹ پڑیں گے‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’آپ میری فکر نہ کیجیے۔ چلیے، میں آپ کو کسی محفوظ جگہ پہنچا کر، الوداع کہنا چاہتا ہوں‘‘۔
عاصم نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور سالم اُس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ قریباً چار کوس سفر کرنے کے بعد وہ شام کے راستے سے ایک طرف ہٹ کر ایک اور ٹیلے کے عقب میں گھوڑوں سے اُتر پڑے۔
سالم نے جلدی سے اپنی کمان اور تیروں سے بھرا ہوا ترکش عاصم کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے ڈر تھا کہ آپ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر اس بے سروسامانی کی حالت میں زیادہ دور نہیں جاسکیں گے۔ اس لیے میں پانی کا مشکیزہ اور ضرورت کی دوسری چیزیں لے آیا ہوں۔ آپ میرے گھوڑے پر سوار ہوجائیں۔ میں نے خرجین میں ستو، کھجوریں اور پنیر رکھ دیا ہے۔ اور جو امانت آپ سعاد کے پاس چھوڑ آئے تھے وہ بھی میں نے خرمین میں رکھ دی ہے۔ جب میں گھر کے قریب پہنچا تو قبیلے کے سواروں کی ایک ٹولی ملی۔ یہ لوگ شام کے راستے کی ناکا بندی کے لیے جارہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ مکہ کی طرف نکل گئے ہیں اور وہ اُس طرف چلے گئے۔ قبیلے کے باقی لوگ منذر کے گھر میں ؟؟؟ تھے۔ اور باری باری آپ سے انتقام لینے کا حلف اٹھا رہے تھے۔ میں نے انہیں بھی یہی بتایا کہ آپ مکہ کی سمت ؟؟؟؟؟ دور جاچکے ہیں اور یہ سنتے ہی کئی اور سوار اُس طرف چل پڑے۔ اس کے بعد میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آپ کو سفر کا ضروری سازوسامان مہیا کیا جائے۔ میں نے اُس ٹیلے کے پیچھے خاصی دیر انتظار کیا مجھے یہ ڈر لگ رہا تھا کہ شاید آپ جاچکے ہیں۔ اب آپ جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوجائیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے اپنا گھوڑا چھوڑنا پسند نہیں۔ میں تمہارے گھوڑے کی زین اس پر ڈال لیتا ہوں۔‘‘
سالم نے کہا۔ ’’اچھا جلدی کیجیے مجھے اندیشہ ہے کہ مکہ کے راستے پر تلاش کرنے کے بعد وہ آپ کو شام کے راستے پر تلاش کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
عاصم نے جلدی سے سالم کے گھوڑے کا سازوسامان اُتار کر اپنے گھوڑے پر ڈال لیا اور اس کے بعد سالم سے پوچھا۔ ’’تم نے سعاد کو تمام واقعات بتادیئے ہیں؟‘‘
’’ہاں! اُسے اب آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں رہی۔ وہ مسعود اور جابر کے لیے روتی ہے اور آپ کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی ہے‘‘۔
’’اور تم بھی میری سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہو؟‘‘
سالم نے جواب دینے کے بجائے عاصم کی طرف دیکھا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
عاصم نے کہا۔ ’’اچھا تم جائو اور سیدھے گھر پہنچنے کی کوشش کرو۔ میں نے شمعون کے غلام کو عدی کے گھر میں جمع ہونے والوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد، عباد کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے ماموں جیسے لوگ میرے اس اقدام کو بھی ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے کہ غلام وہاں جا کر اپنے بیان سے منحرف ہوجائے اور وہ عباد کی بوٹیاں نوچنے کو تیار ہوجائیں‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’آپ اطمینان رکھیے۔ قبیلے کے آدمی منذر کے گھر میں جمع ہورہے ہیں اور میں نوکروں کو تاکید کر آیا تھا کہ اگر عباد شمعون کے غلام کے ساتھ آئے تو وہ انہیں گھر سے باہر روک لیں اور میری واپس تک باغ میں چھپائے رکھیں‘‘۔
’’چچا جان نے میرے متعلق پوچھا تھا؟‘‘
’’نہیں! وہ اندر پڑے ہوئے تھے۔ ان سے اب تک کسی نے لڑائی کے واقعات کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اس لیے میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ ابھی انہیں پریشان نہ کیا جائے۔ سعاد جو مکان سے باہر میری راہ دیکھ رہی تھی، کسی سے جابر اور مسعود کی موت کی خبر سن چکی تھی، مجھے اُس کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تمام واقعات بتانے پڑے۔ میں اُس سے بھی کہہ آیا ہوں کہ وہ عباد کا خیال رکھے۔ اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے‘‘۔

حصہ