ماں کے دودھ کی اہمیت

1703

انسان اور جانور جب سے وجود میں آئے ہیں تب سے مائیں ان کو اپنا دودھ پلاتی آئی ہیں۔ اپنا دودھ پلانے کے بے شمار فائدے ہیں جن کو کبھی بھی چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی، مگر اس سائنسی صدی میں اور بھی اَن گنت منفی رویّے نظر آنے لگے ہیں۔ وہ ہیں ماحول کی آلودگی، ہتھیاروں کی دوڑ۔ اور اس صدی کا یہ بھی المیہ ہے کہ ماں کے دودھ کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے۔ اس لیے مارکیٹ میں طرح طرح کے رنگ برنگ دودھ کے ڈبے نظر آرہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پائوڈر والے دودھ کو سرکار کی بھی سرپرستی حاصل ہے، میڈیا کے ذریعے اس کی اشتہار بازی کی جارہی ہے اور باقاعدہ اس کا پرچار کیا جارہا ہے کہ ماڈرن عورت وہی ہے جو اپنے بچوں کو ڈبے کا دودھ پلائے، جب کہ ماڈرن ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ فقط ماں کا دودھ ہی بچے کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فوراً ہی یا زیادہ سے زیادہ پانچ چھ منٹ کے بعد ہی ماں کو اپنا دودھ پلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بہت فوائد ہیں۔ مثلاً ماں کے دودھ میں کچھ ایسے اینٹی باڈیز موجود ہیں جو بچے میں پیدا ہونے والے انفیکشن کے مقابلے میں مداخلت کی بہت زیادہ قوت رکھتے ہیں۔ دنیا میں بے شمار جراثیم موجود ہیں۔ بچہ بچے دانی سے نکلتے ہی ان کا سامنا کرتا ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ بچے اپنی چھٹی سے پہلے ہی بیمار ہوجاتے ہیں۔ مگر ماں کا دودھ بچے کو ان تمام بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
کئی بڑے اسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز میں خود ڈاکٹر بھی اس بات پر عمل نہیں کرتے کہ بچے کو پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ ضرور پلانا ہے، بلکہ وہ بچے کو ماں کے پاس 24 یا 48 گھنٹے بعد لے کر آتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ بچہ پیٹ کے اندر ماں کی آنت سے حاصل کی گئی خوراک سے ابھی بھی اپنے اندر خوراک کا کچھ ذخیرہ رکھتا ہے۔ اس لیے جب تک وہ خوراک مکمل طور پر ہضم نہیں ہوجاتی بچے کو اور کچھ نہیں دینا چاہیے۔ مگر جدید تحقیق بتاتی ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچے کو ماں کا دودھ پلانا بچے کو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے، اور یہ بھی کہ ماں کا دودھ زودہضم ہوتا ہے، اس لیے وہ بچے کے ہاضمے پر کوئی بھی برا اثر نہیں ڈال سکتا۔
ماں کے دودھ کے مزید فوائد درج ذیل ہیں:
-1 بچہ دودھ پینا شروع کرتا ہے تو ماں کے دماغ سے ایسے ہارمونز نکلتے ہیں جو بچہ دانی پر اثر ڈالتے ہیں، بچہ دانی کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس لیے زچگی کے بعد جاری ہونے والا خون غیر ضروری طور پر ضائع نہیں ہوتا۔
-2 ماں کا دودھ غذائیت سے بھرپور ہے، اس میں تمام نعمتیں موجود ہیں جو بچے کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔
-3 ماں کے دودھ میں مناسب مقدار میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، فیٹ اور دیگر ضروری وٹامن موجود ہیں۔
-4 ماں کا دودھ ہاضمے کے لیے مناسب غذا ہے۔
-5 ماں کا دودھ مفت اور ہر وقت دستیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ماں کو بھی کوئی اضافی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی، جیسا کہ بوتلیں صاف رکھنا، بوتلیں اُبالنا وغیرہ۔
-6 ماں کا دودھ پلاتے ہوئے ماں اور بچے کے درمیان گہرے تعلق کا ربط جڑ جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے صحت مند اور مطمئن ہوتے ہیں اور ان کی نفسیاتی نشوونما اچھی طرح ہوتی ہے، اس لیے ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔
-7 ماں جب بچے کو دودھ پلارہی ہوتی ہے تو اس کی چھاتیوں اور چہرے کے درمیان 14 سینٹی میٹر کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اس لیے بالکل ننھا سا بچہ ماں کے چہرے کو اچھی طرح غور سے دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے ماں کا دودھ پینے والے بچے ماں کے چہرے کو اچھی طرح پہچان لیتے ہیں اور ماں سے زیادہ انسیت رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ بچے کو پیدائش کے بعد 12۔13 گھنٹے تک بھوکا رکھا جائے، یا پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے رسم کے طور پر گھٹی دی جائے۔ کوئی رشتے دار خاتون اپنی انگلی پر شہد لگا کر بچے کو چٹاتی ہے، یا کچھ لوگ بچے کو پانی میں شہد ملا کر پلاتے ہیں۔ یہ سب غلط طریقے ہیں جن سے بچے کو نقصان ہوسکتا ہے۔
جس بچے کو ماں کا دودھ مل جائے اُس کو دنیا کی ساری نعمتیں ازخود مل جاتی ہیں۔ بچے کو پانی پلانے کی بھی ضرورت نہیں، کہ ماں کے دودھ میں پانی بھی بہت مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
دودھ پلانے والی مائوں کو پیش آنے والے مسائل
٭اکثر مائوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اپنا دودھ پلانے سے ان کے جسم کی خوب صورتی ختم ہوجاتی ہے اور ان کا جسم ڈھیلا سا پڑ جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
٭ ماں بننے کے تمام مراحل فطری انداز میں طے ہوتے ہیں، اس لیے فطرت نے ہی اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوچکا ہے کہ دودھ پلانے والی عورتیں بچہ دانی کے کینسر اور چھاتیوں کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔ ویسے کسی ظاہری خوب صورتی کے مقابلے میں زندگی کا حاصل ہونا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس عمل سے بچے اور ماں کے درمیان اپنائیت کا رشتہ جڑ جاتا ہے اور دونوں ہی نفسیاتی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ماں دودھ پلاتے ہوئے اگر خود بھی کچھ احتیاط برتے تو اس کا جسم ڈھیلا نہیں ہوگا۔ بچے کو وہ اچھی طرح سے دودھ پلائے اور اپنے جسم کا خیال رکھے۔ مناسب غذا لے، تھوڑی بہت ورزش کرے اور موٹاپے کو اپنے قریب آنے نہ دے تو پھر دودھ پلانے کا عمل اسے زیادہ خوب صورت بنادے گا۔
*…کچھ مائیں کہتی ہیں کہ انہوں نے خود تو بہت چاہا لیکن بچے نے ماں کا دودھ پینے سے انکار کردیا، اس میں کتنی حقیقت ہے؟
٭ جنم لینے والا ننھا بچہ کسی چیز سے تعلق جوڑنے اور اسے قبول کرنے میں وقت لگاتا ہے، کیونکہ وہ عادی نہیں ہوتا، اسی لیے چوسنے میں سستی کرتا ہے، اور بازار میں ملنے والا نپل جو بوتل سے دودھ پلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نرم ہوتی ہے، ماں کی چھاتیوں کے نپل کچھ سخت ہوتے ہیں، اس لیے بچے کو عادی ہونے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ پھر ماں کو خود بھی تھوڑی تکلیف ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ گھبرا کر بچے کو الگ کردیتی ہے۔ ماں کو بھی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور بار بار کوشش کرتی رہے تو یہ مسئلہ نہیں رہے گا۔ یہ غلط بات ہے جو مائیں سوچ لیتی ہیں کہ شاید ان کا دودھ بچے کو قبول نہیں، یا پسند نہیں آیا۔ اور پھر یہ بھی کہ وہ بھوکا نہ رہ جائے، اس لیے اسے ڈبے کا، بھینس، گائے یا بکری کا دودھ بوتل میں ڈال کر دے دیتی ہیں یا چمچے سے پلادیتی ہیں۔ بچہ اسے آسانی سے پی جاتا ہے۔ یاد رکھیے، آپ اپنی ممتا کی طرف سے بچے کو اگر کوئی بیش بہا تحفہ دے سکتی ہیں تو وہ فقط آپ کا اپنا دودھ ہے۔ آپ کے دودھ سے زیادہ آپ کے بچے کے لیے دھرتی پر اور کوئی انمول نعمت نہیں ہے۔
بڑی بوڑھی عورتوںکو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ کچھ مائوں کا دودھ زیادہ اچھا ہوتا ہے اس لیے اُن کے بچے بہت ہی صحت مند ہوتے ہیں، جبکہ کچھ عورتوں کا دودھ ہی ایسا ہوتا ہے، اس لیے ان کے بچے کمزور رہتے ہیں؟
٭ یہ غلط بات ہے۔ ماں کا دودھ خراب نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی کسی کا دودھ اور مائوں کے مقابلے میں اچھا یا خراب ہوسکتا ہے۔ فطرت ہر ماں پر یکساں طور پر مہربان ہوتی ہے۔ لیکن ماں کی صحت اچھی ہوگی اور بہتر غذا ہوگی تو ماں دودھ پلاتے ہوئے تھکن یا بیزاری محسوس نہیں کرے گی۔ کچھ بیماریاں یا ایسے انفیکشن ماں کو ہوسکتے ہیں کہ ڈاکٹر اینٹی بایوٹک دوائیں تجویز کریں، اس صورت میں ڈاکٹر ایسی مائوں کو ان دوائوں کے اثرات سے بچے کو بچانے کے لیے اپنا دودھ پلانے سے منع کرسکتے ہیں۔
دیہات کی عورتیں سمجھتی ہیں کہ بیٹی کی ماں کا دودھ پتلا اور بیٹے کی ماں کا دودھ گاڑھا ہوتا ہے۔ اس طرح وہ دورانِ حمل گھر پر اپنا دودھ کسی برتن میں نکال کر آزما کر دیکھتی ہیں، اور دائیاں بچوں کو کھانسی اور زکام کے علاج کے لیے ماں کا دودھ کان اور ناک میں ڈالتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
٭ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس جدید سائنسی صدی میں علم اور تعلیم سے محرومی کی وجہ سے ہم بہت ہی شدت سے توہمات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ماں کا دودھ بچوں کے کان اور ناک میں ڈالنا تو بہت خطرناک ہے۔ کان، ناک، گلا اپنے اندر بہت سی پیچیدگیاں رکھتے ہیں۔ بچے کے کان، ناک اور گلے کے اندر خود سے کوئی بھی چیز دودھ، پانی یا تیل وغیرہ مت ڈالیں، اس کی وجہ سے بچے کو عمر بھر کے لیے نقصان ہوسکتا ہے۔
بیٹے اور بیٹی کے دودھ میں کوئی بھی فرق نہیں ہوتا، اور ماں کا دودھ ہمیشہ پتلا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر جنس معلوم کی جاسکتی تو الٹراسائونڈ کے بجائے لیبارٹری میں دو تین قطرے دودھ لے کر معلوم کرلیا جاتا۔ میڈیکل سائنس کی نظر میں بیٹے اور بیٹی کے دودھ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

حصہ