امریکن نومسلمہ امیرہ کہتی ہیں: ’’میں کنساس یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھی جب میرا اسلام سے پہلا تعارف ہوا۔ یہ تعارف اُن مسلم طالبات کے ذریعے ہوا جو میرے نزدیک ایک بڑے عجیب وغریب لباس میں ملبوس تھیں۔
ان کے سروں پر اسکارف تھے اور جسموں پر بڑی بڑی عبائیں۔ میں نے انھیں پہلی بار دیکھا تو بڑی دیر تک ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ پھر میری جس مسلم طالبہ سے پہلی گفتگو ہوئی اُس کا تعلق فلسطین سے تھا۔ یہ طالبہ اندر سے انتہا درجے مطمئن تھی۔ بہت جلد ہماری دوستی ہوگئی۔
پھر وہ وقت بھی آگیا جب اُس فلسطینی لڑکی اور میں نے گریجویشن مکمل کرلی۔ اب ہماری جدائی کا وقت آگیا تھا اور وہ اپنے وطن چلی گئی… بلکہ صرف اپنے وطن ہی نہیں اُس سے بہت آگے اپنی آخری منزل کی طرف۔ ابھی اسے فلسطین پہنچے دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک روز اُسے اس کے گھر کے باہر شہید کردیا گیا۔ میری پیاری دوست نے جدا ہوتے ہوئے بڑے یقین سے کہا کہ وہ مجھے اگلے جہان میں جنت میں ملے گی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خود مجھے اپنے حجاب اور اسلامی زندگی کے لیے بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ میرے والدین اور اہلِ علاقہ میرے مخالف ہوگئے، میری گاڑی پر کئی بار فائرنگ ہوئی، میرے کمرے کو تہس نہس کردیا گیا، مجھے دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا گیا، ڈرائی کلینر کے پاس سے میرے کپڑے اور اسکارف وغیرہ غائب کردیے گئے۔‘‘
یہ ہے کچھ برسوں پہلے کی نومسلم امریکن خاتون پہ بیتے مظالم کی ایک جھلک۔ امیرہ مزید کہتی ہیں: ’’اللہ کا شکر ہے اُس نے ان حالات میں بھی مجھے ایمانی قوت عطا کیے رکھی۔‘‘ ایسی کئی مثالیں اس ہوس پرست معاشرے کی موجود ہیں جنہیں سن کر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مذہب یا دین کا بڑا مظہر تہذیب ہے۔ درحقیقت حیا اور اخلاق لباس، انداز اور رویوں کو بدل ڈالتے ہیں، ان میں انسانی عظمت کے تصور کا پورا سامان موجود ہے۔
حجاب اور اس سے جڑی تہذیب انسان کی فطرت میں ہے۔ اس کا مذہب سے متعلق ہونا بعد کی بات ہے۔ انگریزی میں میل کے لیے استعمال ہونے والا He اسکارف پہنتا ہے، اور فیمیل کے لیے She بن جاتا ہے۔
پرانی انگلش فلموں میں، جب انسانی اقدار زندہ تھیں، سر پہ اسکارف اور شرٹ پہ فرل واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کا سرا حضرت مریم کے مقدس لباس سے جاکر ملتا ہے۔ اسی طرح اہلِ ہنود کے یہاں بھی ساڑھی کا بڑا سا پلو سر پر ڈالنا لازمی تھا جس میں گھونگھٹ چہرے تک آتا تھا، اسے شرفا کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ گویا حیوان اور انسان کے درمیان واضح فرق حجاب ہے۔
ابتدا میں امریکن نو مسلمہ کی سرگزشت لبرل سماج کی ایک تصویر ہے، ایسی کئی تصاویر امریکا و یورپ میں بہ طور مثال موجود ہیں جو زندہ دلیل ہیں کہ حجاب اور حیا انسان کی فطرت میں موجود ہیں اور قرونِ اولیٰ کی مثالیں اس مادر پدر سماج میں کیسے آج بھی موجود ہیں۔
یہ سارے پُر وقار اور باوفا انداز کہہ رہے ہیں کہ راستہ دو، تعاون کرو، ہم تمھارا احترام کرتے ہیں اور تم سے اسی احترام کی توقع رکھتے ہیں۔ گویا ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا ایک بہترین اظہار ہے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ جنسی جرائم اور حملے روز بہ روز بڑھتے جارہے ہیں، اس میں یقینا لبرلز کا بڑا ہاتھ ہے، مگر جو ہاتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مقتدر و مختار ہیں وہ ان ہاتھوں کو جھٹک سکتے ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل کی تو بات ہے جب وزیراعظم صاحب نے بڑھتے ہوئے ہولناک واقعات کا ذمے دار خواتین کے نامناسب اور مختصر لباس کو قرار دیا تھا کہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے، وہ لازمی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سچ پہ ایک قلیل گروہ کی طرف سے بڑی لے دے ہوئی، مگر اتنی بڑی مقتدر شخصیت کو اس کی کیوں اتنی پروا ہوئی؟ چاہیے تو یہ تھا کہ ٹائٹس اور سلیو لیس لباس پہ پابندی لگائی جاتی، دیگر مؤثر اقدامات کیے جاتے تاکہ دہشت اور خوف کا ماحول ختم ہوتا، عوام کو امن کی زندگی ملنے لگتی۔ بات یہیں ختم ہوگئی، حالانکہ یہ عورتوں کے تحفظ کا سوال تھا، مگر یوٹرن بتا رہا ہے کہ اعتماد کی مصنوعی قلت ہے، جانے کیوں؟
آخر کورونا کی وبا سے قبل چند برسوںسے ایک واہیات جملہ کانوں میں انڈیلا جاتا تھا کہ ’’اب کچھ بھی نہیں ہے چھپانے کو…‘‘
پھر وبا کا قہر ٹوٹا تو محض ایک نہ نظر آنے والے جرثومے سے بچنے کے لیے ہر ایک، چاہے مرد ہو یا عورت یا بچہ، منہ چھپائے نظر آتا ہے۔ کورونا کے برے اثرات تو انسان کو ختم کردیتے ہیں مگر ہوس زدہ فحش اور بے ہودہ کلچر ہولناک جرائم کو مسلسل آکسیجن دے رہا ہے۔ ایک محتاط، پاکیزہ اور دردمند تہذیب دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ کہیں لبرلز آج بھی زلیخا اور اس کی سہیلیوں کو عورت مارچ کے نام پر سڑکوں پہ لاکر معصوم اور مجبور عورتوں کو بہکا رہے ہیں۔ گویا چڑیلیں قہقہہ بار ہیں، ہوس کی وبا کا زہر پھیل رہا ہے۔ نہ کوئی تدارک ہے، نہ علاج، نہ ویکسین… حالانکہ سب موجود ہے۔
رواں سال 14اگست کو مینارِ پاکستان پہ جو شرم ناک ڈراما رچایا گیا، جس طرح وطن کے تقدس کو پامال کیا گیا، یہ سب اسی لبرل کلچر کے کڑوے پھل ہیں جو نہ جانے کتنے شریف گھرانوں کی اذیت کا سبب بنے ہیں۔ یہ محض مرد اور عورت کا مسئلہ نہیں۔ وطن کی پوری تاریخ اور اس سے جڑی تہذیب کی ناموس کا مسئلہ ہے۔ دشمن کو ہنسنے کا موقع دیا گیا۔ یہ اصناف کی جنگ کرانے کی کوشش تھی، اس پہ ردعمل کے طور پر ایک بھونڈا اور مضحکہ خیز بیان آیا کہ ’’مردوں کے مینارِ پاکستان آنے پر پابندی لگاؤ‘‘۔
ایک بڑی اکثریت غم وغصے سے بے حال ہوکر کہتی ہے کہ ساری ٹائٹس کو آگ لگاؤ… آستین اور دوپٹہ لازمی کرو، ٹک ٹاکرز پر پابندی لگاؤ یا کم سے کم محدود تو کرو۔ کرو بھائی! بالکل کرو، اب نہیں تو پھر کب ہوگا؟ مگر آپ کبھی غور کریں منظر کے پیچھے کیا گھٹیا خواہش کارفرما ہے جو سستی شہرت کی خاطر ایک لڑکی کو اپنی مہنگی عزت داؤ پہ لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ ہے راتوں رات نواب بن جانے کی طرح مشہور ہوجانے کی خواہش، جس میں بظاہر خودنمائی کی شدت ہے، مگر خودکشی کی دلدل ہے یا ایسی خوفناک کھائیاں جہاں عزت اور غیرت کے جنازے نکلتے چلے جاتے ہیں۔
پھر وقتی واہ واہ کے باوجود نمائش کی گھٹیا آرزو تشنہ رہ جاتی ہے۔ ’’ہل من مزید‘‘ کے تقاضے ایسی ہی دلدل میں لے جاکر گراتے ہیں۔ مانتا پھر بھی کوئی کسی کو نہیں ہے، اس لیے کہ یہ پاگل کردینے والی خواہش خدا کو ماننے، خدا کی ماننے اور اس کو منوانے کی طرف جانے سے ہی کم ہوسکتی ہے۔ ورنہ کون کس کو مانتا ہے! نمائشوں کی اندھا دھند دوڑ حسد، فحاشی، تکبر اور احساسِ کمتری کے امراض تیزی سے پیدا کررہی ہے۔کسی نے کیا پتے کی بات کہی ہے ’’عافیت گم نامی میں ہے۔‘‘ پرائیویسی کا سُکھ اور سواد سمجھ لیں اسے۔ بس اسی سواد اور امن کی خاطر خالق کا حکمِ حجاب آیا ہے۔ آہنی حصار۔ گھر سے باہر تک مردوں کی آنکھوں میں عورتوں کے لیے عزت اور شفقت کے رویّے، جسے حکمِ غضِ بصر کہہ سکتے ہیں۔ محتاط مگر معاون رویّے یاد رکھیں۔
یہ سچائی تو ہر ایک مانتا ہے کہ کسی بڑے ہدف یا مقام کو حاصل کرنے کے لیے شبانہ روز انتھک محنت لازمی درکار ہوتی ہے۔ معمولی مکینک ہو یا مزدور، درزی ہو یا دکان دار، ٹیچر، کلرک، نرس، ڈاکٹر، وکیل انجینئر، صحافی… آپ کسی شعبۂ زندگی کو لے لیں ایک مقام تک پہنچنے کے لیے برسوں کی جاں فشانی درکار ہوتی ہے، مشق اور تجربات کی بھٹی سے گزر کر کندن بنا جاتا ہے، سیکھنے اور برتنے میں پِتّا پانی ہوتا ہے۔ مگر دکھاوے اور خودنمائی کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہونے والے نہ اپنے ہوتے ہیں نہ کسی اور کے۔ عجلت میں گھٹیا آرزو انہیں بھیڑ چال چلا رہی ہوتی ہے۔ یہی آج سیلفی بنانے کی صورت میں نظر آتا ہے کہ بنانے والا ’’سیلفش‘‘ ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے اثرات جرائم کو پروان چڑھاتے ہیں۔
باحجاب تہذیب کا فروغ اس کا بہترین علاج ہے جہاں دکھاوے اور نمائش کے گھٹیا مقابلے خود بہ خود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ دیکھ رہا ہے، جہاں بھلائی پہ حوصلہ افزائی ہو وہاں دردمندی بھی پیدا ہوگی، تب خودنمائی کا جذبہ اتنا تشنہ نہیں رہے گا، عافیت اور تقدس کے ماحول میں گمنامی سے سُکھ کی راہ نکلے گی۔
نکتہ وروں نے سمجھایا ہے خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو دنیا میں گمنام رہو
خصوصاً خواتین میں یہ شکایت بھی اُس وقت ختم ہوگی جب محرم مرد درونِ خانہ ان کے کاموں کو سراہیں گے۔ مرد حضرات جان لیں کہ اگر وہ بہن، بیٹی یا بیوی کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی تعریف کریں، ان پہ تھوڑی نظرکرم کردیں تو ان کا یہ عمل حجاب کی تہذیب کے فروغ میں ایک بڑا حصہ ہوگا۔ یقین کریں گھروں کا سکون اور سڑکوں کا امن کافی کچھ بحال ہونے لگے گا۔
عافیت واقعی گمنامی میں ہے، اس لیے کہ پرائیویسی کے ماحول میں تخلیق، تحقیق، تنظیم اور تعلیم بہترین طریقے سے ہوتی ہے، صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں، یکسوئی کا حصول آسان ہونے لگتا ہے۔ جب کہ ہر چیز کا دکھاوا، نمائشی جذبے تقلید سے تخریب اور پھر تذلیل کی بھیانک اور اندھیری کھائیوں میں گراتے ہیں جنہیں حادثے یا تباہی کا نام دیا جاتا ہے، الامان والحفیظ۔
یہ وطن ہی کی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی ملکوتی شخصیت نے عورت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ پراسرار اچھی لگتی ہے۔ یہ بڑا بھید بھرا سچ ہے، یہ عورتوں کی ترقی کے لیے معاون راز ہے، یہ جرائم کے محرکات کو کچلنے کا بڑا ہتھیار ہے۔ یقین کریں غیر مسلم شریف گھرانے بھی اخلاقی زوال پہ روتے ہیں، خباثتوں کی دہشتیں ان کو بھی لرزا دیتی ہیں، اس لیے کہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔
نظروں میں شرافت کا نورانی کلچر آج پوری دنیا کو درکار ہے۔ یہ عداوتوں کو کچل سکتا ہے، مردانہ غیرتوں کو جگا سکتا ہے۔ سارہ، آسیہ، مریم، خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ کی پُرنور ردائیں تاریخ کے اوراق میں آج بھی ایک تہذیب کی صورت میں زندہ ہیں۔ اور سستی شہرت کی گھٹیا آرزو اندھے کنووں میں مدفون یا کسی تعفن زدہ سوسائٹی میں سسک رہی ہے۔
وقت اسی طرح برسوں حادثات کی پرورش کرتا ہے، پھر کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا! آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، انسانوں کی سوسائٹی میں بھیڑیوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم، خصوصاً پاکستانی، آنکھیں کھول کر پاکیزہ تہذیب اور غلیظ، لبرل کلچر کا فرق دیکھ لیں جو صاف ظاہر ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں مگر اب تو کھل جانی چاہئیں ’’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘‘۔