وہ اُمت جو زندگی کی تنظیم ایک وحدت ِ خیال پر کرچکی‘ جس کی خانگی زندگی کے چشمے سے پوری خارجی زندگی کی آبیاری ہوتی ہو وہ کس طرح کسی مسئلے کو سمجھنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اساسی نظریات پر جو قوم متحد ہے‘ جس کے نزدیک پوری کائنات ایک اکائی ہے۔ ’’حیات‘‘ اور ’’موت‘‘ سفر کی منزلوں کے نشان سے زیادہ کچھ نہیں۔
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں وہ تمدنی معاہدہ جسے ہم ’’عقد ِ نکاح‘‘ کہتے ہیں‘ وہ کس اعتبار سے اوروں کے تمدنی معاہدے کی اساس پر جی سکتا ہے جب کہ دنیا کے اس تہذیبی جنگل میں تمدنی لٹیروں نے نظریاتی میدان کی کئی چوکیاں ہم سے چھین لی ہیں۔ اس کی تہذیبی یلغار کی زد پر ہماری آخری چوکی ہمارا گھر ہے۔ جس کے بعد ہماری شناخت مٹ جائے گی۔ ہمارے اس آخری ٹھکانے پر حملہ ہوچکا ہے۔ جہاں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے حیا کی چادریں سرک رہی ہیں اور وہ چلاچلا کر ہم سے تحفظ مانگ رہی ہیں۔ اسی رفتار سے حیا باختہ تہذیبی ٹولہ حملہ کر رہا ہے۔ ایسے میں کیا صرف کوئی ایک باحمیت اور غیرت مند دستہ، دشمن کی فوج کے آگے بچھ کر راستہ روک دے گا۔
نہیں… ہرگز نہیں۔ ایک دستہ اس بڑی جنگ کو تھام نہیں سکتا بلکہ ہم اپنی تہذیبی سرحد کی آخری چوکی کے تحفظ میں پوری فوج کو کٹ کٹا کر گرتے رہیں گے اور اس چوکی کا انفردی تشخص باقی رکھیں گے۔
ہمارے معنوی وجود کو مٹانے والی جنگ کی فضا میں اب ذرا اپنی قوم و ملت کے رنگ ڈھنگ دیکھیے۔
حرص کے بندے نکاح کو منڈی و بازاروں تک کھینچ لے آئے۔ پھیری والوں کی طرح ڈاکٹر، انجینئر و ہنر مند گھومتے ہیں کہ کوئی ہے معیاری شادی کرنے والا… ہے کوئی جو اپنے جگر گوشے کوجہیز میں ہیرے سونا چاندی، پیسے، کپڑے اورگاڑی سے سجا کر بارات روانہ کردے… ہمیں صرف خوشی سے دیا جائے۔ شرع کی آرزو کو ذر ا رہنے دو… ذرا دنیا کا چلن اور بدلتے معیار پر نظر رکھو…نہ نہ نہ یہ موقع نہیں ہے اسلام کے ذکرکا… نہ آپ پوری طرح پابند ہیں اور نہ ہم…ارے! ارے… براداری میں ناک کٹ جائے گی‘ سادگی کے نام پرشادی کو موت کی طرح خوف ناک اور ویران نہ کرنا… ہاں! ہاں!! مولوی سے فتویٰ لے لو۔
حضرت علیؓ کو بھی جہیز دیا گیا تھا… جی ہاں… شادی کا کھانا لڑکے والے کھلائیں گے… اُف…اوہ! خدارا یہ مت کہیے کہ سارے کنبے اور ہمارے چاہنے والوں کو بھی دعوت نہ دیں…کیا کوئی چوری چکاری ہو رہی ہے…؟ برسوں کے یارانے ہوا ہوجائیں گے… ارے ہم نے بھی ان کی دعوتیں اڑائی ہیں۔ دیکھیے آپ تو کنجوسی اور بخالت کو مذہبی سادگی کا نام دے رہے ہیں… اوہ… ہو… وہ زمانے لد گئے جہاں شادی آسان کام تھا۔ چلو تمہاری ہر بات سچ… کیا ہم ہی رہ گئے ہیں شادی کی خوشیوں کو اجاڑنے اور ویران کرنے کے لیے؟
نکاح کی عالی شان تمدنی عمارت کا یہ تہہ خانہ ہے جس میں یہ شرطیں طے ہوتی ہیں اور پھر دونوں فریق سج دھج کر بالائی عمارت پرآجاتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا حوالہ دینے والے اپنے دور کی فاطمہ کا غم بھی نہیں سمجھتے جس کی سسکیاں معاشرتی دھمال میں دب جاتی ہیں اور اس کو اپنی چپ اور حیا کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کینسر کا مہلک جرثومہ خود عورت ہے جس کے مختلف روپ ہیں… کہیں لڑکے کی ماں‘ کہیں بہن‘ کہیں خالہ… اور کبھی توکوئی رشتے دار۔
شادی کو کہیں بڑی آرزوئوں اور خواہشوں سے جوڑ دیا گیا ہے… کہیں پر تو جوڑے جہیز کی منڈی میں رد عمل اور بدلے کا جواز فراہم ہوتا ہے کہ ’’ہم نے بھی اپنی بیٹیوں کو خوب دیا ہے پھر ہم کیوں نہ لیں۔‘‘ کہیں پر لالچ رال ٹپکاتا ہوا ہانپتے کتے کی مانند نکاح کی سادگی کو بھنبھوڑنے لگ جاتا ہے… کہیں لڑکی کے والدین کا خوف ’’غنڈہ ٹیکس‘‘ دینے پر راضی ہے…کہتے ہیں داماد کو دیے جانے والا خراج مظلوم بیٹی کے سکون کی قیمت ہوتی ہے۔ ورنہ بیٹی کی زندگی سسرال میں مٹی کے تیل سے مہک کر آگ کے شعلوں میں چمک اٹھے گی۔
رشتو ں کے محاذ پر تاجرانہ ذہنوں نے حیا، پاکیزگی اور سادگی کی بہت کم قیمت لگائی ہے۔رشتوں کا پورا تقدس دائو پر لگ گیا۔
عورت کی حیثیت بے دام ٹھہری‘ نیکی بے وزن ہوئی‘ دینی بشارتیں موہوم ایمان پر گراں گزریں…اور آخر کار ابلیسی فرمان نشر و نافذ ہوگیا کہ ’’نکاح کو اتنا مشکل کردو کہ گناہ آسان ہو جائے‘‘۔
ایک طرف گھروں کی چلمنوں کی اوٹ میں شدید غم کا کہرا ہے۔ ٹھٹھری ہوئی بے زبان لڑکیاں حسر ت و یاس سے بھائیوں کے مضبوط دست و بازو سے گتھیاں سلجھانے کی اُمید کرتی ہیں‘ سرپرستوں کی اقدامات کی منتظر ہیں۔ ہمارے معاشرے کی یہ توانا فصیلیں مادیت کے گولہ بارود کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی اور جب یہ شہرِ پناہ کی دیواریں ٹوٹیں گی تو نامعلوم کیا قیامت برپا ہوگی۔ دوسر ی طرف کچھ انوکھے مناظر ہیں۔
کہیں بھائیوں نے ہجرتیں کیں تو کہیں خود دلہنوں(خلیج کی نرسیں) نے ہجرتیں کیں تاکہ اتنا پیسہ جوڑ سکے کہ کہار اس کی ڈولی اٹھا کر اس کو اپنے پیا کی گلیاروں اور اس کی دہلیزتک لے جاسکے۔ سب نے اپنے کنبے کو روتا دھوتا چھوڑا اورگھروں سے نکل پڑے۔ اجنبی شہروں میں۔ اجنبی صحرائوں میں… برِصغیر کے دیو مالائی دنیا میں ہوس کی دیوی نے جہیز کے نام پر کئی نسلوں کی کڑی جوانیوں کی بھینٹ مانگی ہے… سب اپنے حصہ کی قربانی دے رہے ہیں… بھائیوں کی کڑیل جوانیاں لٹ گئیں… سرپرستوں نے توانائیں نچھاور کیں لیکن ہوس کی دیوی مطمئن نہیں ہوئی اور ان مہاجروں کی تنہا آرزو یہ ہے کہ ان کی بیٹیاں آباد ہوجائیں… ان کی بہنیں گھرہستی کا سکھ پائیں۔
رسم و رواج کی یہ عجیب چمک دھمک ہے جو بزعم خود توحید پرستوں کی زندگی کو فروزاں کرنے کے لیے شیوالوں سے مانگ کر لائی گئی ہے جس کے بغیر اسلام کی سادہ طرز زندگی انھیں اجاڑ اور پھیکی نظر آتی تھی…ہاں! دیکھو تو اب رنگ آیا… رسموں کے شنکھ بجے‘ بے حیائی کے رنگ پھیلے… لغویات نے آرتھی اتاری… اور منہ زور طبیعتوں نے محفل کو رنگ و نور سے آباد کردیا۔ ایسے میں پوری فضا چیخوں سے گونج اٹھتی ہے کہ کہاں ہے وہ جیالوں کا دستہ جس نے اپنے حسن ِ عمل سے دنیا کو جینے کے انداز سکھائے تھے…کبھی جس قافلے کے ایک ایک سپاہی نے پوری انسانی بستیوں کو حیران کردیا تھا۔ ان میں ایک نام محمد بن قاسم بھی تھا جس نے سندھ کے ساحل پر امت کی بیٹیوں کے تحفظ میں سمندر عبور کر کے فتح یاب لوٹا تھا… اور کہا ں ہے وہ مردِ مومن جس کی ذات کی تشکیل پر ابلیس کی چیخوں کو محسوس کیا گیا؟
الحذر آئینِ پیمبر سے سو بار الحذرحافظِ ناموس زن مرد آزما مرد آفریں
تہذیب کی اس جنگاہ میں دنیا منتظر ہے کہ اسی قافلۂ سخت جاں سے‘ اسی وادیٔ امکاں سے چند جیالے کسی جانب سے اٹھیں گے اور اس مشکل گھڑی سے ہم سب کو نکال لیں گے… وہ جیالے ہم کیوں نہیں…؟آئو اس شور و غول کے بیچ حقیقی خوشیوں کے مفہوم کو سمجھیں۔ جمالیات کی نئی تعبیر کریں‘ اپنے حوصلوں سے دنیا کو امن اور گرہستی کے سکھ چین کی خیرات کریں۔
نکاح کو آسان کرکے قیدی امت کی بیٹیوں کو رہا کریں… اس سے پہلے کہ بوڑھے سرپرستوں کی سسکیاں و آہیں عرش الٰہی پرکہرام مچا دے‘ نیکی کو آزاد کروا دیں… اب نیکی مشروط نہ رہے‘ زر پرستوں کی مسرفانہ ادائوں پر۔
ذرا سوچیے کبھی انسانوں نے کم عمر لڑکیوں کو زندہ درگور گیا تھا… لیکن آج کی اس مشکل نے لاتعداد باشعور لڑکیوں کو زند ہ در گور کرنے کو رواج دیا ہے۔
آیئے ہم سب مل کرانہیں بچا کر پوری انسانیت کو حیات ِ تازہ عطا کریں۔