کائنات کمپیوٹرز کے خلاف سازش کررہی ہے

282

آج ہم جس مسئلے پر بات کریں گے اس مسئلے کی وجہ سے ہوائی جہاز کریش ہو سکتے ہیں، وڈیو گیم کے کیریکٹر یکایک ٹھوس دیوار کے پار جا سکتے ہیں اور الیکشن کے نتائج غلط رپورٹ ہو سکتے ہیں۔ ہماری نظروں سے اوجھل یہ مظہر کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ 1978 میں انٹیل (Intel) کارپوریشن کے انجینئرز نے یہ دیکھا کہ ان کی 16 کلو بٹ (16 Kbit) کی رینڈم ایکسس میموری چپ(Random Access Memory Chip) یعنی RAM میں بعض اوقات ڈیٹا میں غلطیاں نمودار ہو جاتی تھیں۔ کبھی کبھی میموری میں اسٹور کیا گیا 1 بغیر کسی ظاہری وجہ کے 0 میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس مسئلے کی وجہ ان میموری چپس کی پیکیجنگ تھی جو سرامک (Ceramic) سے بنائی جاتی ہے۔1970 کی دہائی میں میموری چپس کی ڈیمانڈ آسمان کو چھو رہی تھی۔ اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے انٹیل کارپوریشن نے امریکا کی ریاست کولوراڈو میں ایک نیا مینو فیکچرینگ پلانٹ لگایا۔ اس پلانٹ کے پاس ہی ایک پرانی یورینیم مل تھی‘ اس مل سے تابکار ایٹم خارج ہو رہے تھے جو اس علاقے کے ندی نالوں سے اس دریا تک پہنچ رہے تھے جس کا پانی انٹیل کے پلانٹ میں سرامک کے پیکیجز بنانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ان ماہرین نے دریافت کیا کہ یورینیم اور تھوریم کے گنتی کے چند ایٹم بھی اگر سرامک کے پیکیجز میں موجود ہوں تو میموریز میں یہ ایررز (errors) آنے لگتے تھے۔
میموری ایررز (Memory Errors ):
انٹیل کارپوریشن کی بنائی ہوئی DRAM چپس میں 1 اور 0 کو سیلیکون سیمی کنڈکٹر سے بنے ’’کنویں‘‘ میں الیکٹرانز کی موجودگی یا غیر موجودگی سے اسٹور کیا جاتا ہے۔ یورینیم اور تھوریم کے ایٹم سے تابکاری الفا پارٹیکلز کی صورت میں خارج ہوتی ہے جو چارجڈ پارٹیکلز ہیں اور انتہائی تیز رفتار سے سفر کرتے ہیں یعنی ان کی حرکی توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ پارٹیکلز جب سیمی کنڈکٹر میں سے گزرتے ہیں تو سیلیکون کے ایٹموں کے بیرونی شیل سے بہت سے الیکٹرانز کو خارج کر دیتے ہیں جس سے سیلیکون میں الیکٹرانز اور ہولز کے جوڑے بننے لگتے ہیں۔ اگر یہ الفا پارٹیکلز اس کنویں کے پاس سے گزریں جس میں 1 یا 0 الیکٹرانز کی موجودگی یا غیر موجودگی کی صورت میں اسٹور کیا گیا ہے تو الفا پارٹیکلز کی وجہ سے بننے والے الیکٹرانز یا ہولز اس کنویں میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ ان پارٹیکلز کی وجہ سے اس کنویں میں چارج کی مقدار تبدیل ہو جاتی ہے جس سے اس کنویں میں اسٹور کیا گیا 1 تبدیل ہو کر 0 یا 0 تبدیل ہو کر 1 بن سکتا ہے۔ اس مظہر کوsingle event upset کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی errors کو عموماً errors soft کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے ٹرانزسٹر میں اسٹور کی گئی انفارمیشن تو تبدیل ہو جاتی ہے لیکن ٹرانزسٹر کے اسٹرکچر کو کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچتا۔ اس لیے اس طرح تبدیل ہونے والے bit کو سافٹ ویئر کی مدد سے درست کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین نے ان ایررز کی وجوہات جاننے کے لیے ان میموری چپس کو ایسے چیمبرز میں رکھا جن میں مختلف مقدار میں تابکار عناصر رکھے گئے تھے یعنی تابکار کی مقدار مختلف تھی۔ ان تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ کسی جگہ الفا پارٹیکلز کی تعداد جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر کمپیوٹر کی میموری میں انفارمیشن زیادہ تبدیل ہو گی اور errors زیادہ ہوں گی۔
یہ مسئلہ سب سے پہلے 1970 کی دہائی میں دیکھنے میں آیا کیوں کہ اس زمانے میں پہلی بار کمپیوٹر چپس میں موجود ٹرانزسٹرز کا سائز اس قدر چھوٹا ہو گیا تھا کہ ایک الفا پارٹیکل بھی میموری میں اسٹور کی گئی انفارمیشن کو تبدیل کر سکتا تھا۔ اس سے پہلے ٹرانزسٹر کا سائز نسبتاًً بڑا ہوتا تھا اور ایک الفا پارٹیکل کسی میموری لوکیشن میں اسٹور کیے گئے چارج کو اس قدر ڈسٹرب نہیں کر پاتا تھا کہ ڈیٹا 1 سے 0 ہو جائے یا 0 سے 1 ہو جائے۔
کمپیوٹرز کی میموری میں رینڈم ایررز پیدا ہو جانے کا یہ مسئلہ انتہائی سنگین تھا اس لیے بہت سے انجینئرز اور سائنس دان اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے۔ اس مسئلے پر جو پہلا سائنسی پیپر شائع ہوا‘ جس میں اُن میموری ایررز کی وجوہات بیان کی گئیں‘ وہ پیپر اس قدر اہم تھا کہ اس کی اشاعت سے پہلے سیمی کنڈکٹر چپ انڈسٹری کی ہر بڑی کمپنی کے انجینئرز کے پاس اس پیپر کی کاپی پہنچ گئی۔ اس دریافت کے نتیجے میں کمپیوٹر چپ بنانے والی کمپنیوں نے مینوفیکچرنگ پراسیس کے دوران سرامک مٹیریل کو تابکار عناصر سے بچانے کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔
تابکاری کی پیمائش:
ہنری بیکویریل نے 1896 میں یورینیئم میں تابکاری کے مظہر کو دریافت کیا۔ اس دریافت کے بعد بہت سے سائنس دان تابکاری کی مقدار کی پیمائش کے طریقے تلاش کر رہے تھے۔ انہیں یہ جاننے میں دل چسپی تھی کے مختلف مٹیریل کس قدر تابکاری خارج کرتے ہیں۔ تابکاری کی پیمائش کا ایک طریقہ الیکٹرو میٹر کا استعمال تھا جس میں سونے کا ورق لٹکا ہوا ہوتا تھا جس کے پیچھے دھات کی ایک راڈ تھی۔ جب اس ورق پر کوئی چارج نہ ہو تو یہ ورق عمودی حالت میں رہتا تھا۔ لیکن اگر اس ورق پر چارج موجود ہوتا تو سونے کے ورق اور دھات کی راڈ ایک دوسرے کو پرے دھکیلتے جس سے سونے کا ورق مڑ جاتا۔ سونے کے ورق کے مڑنے کا زاویہ چارج کی مقدار کو ظاہر کرتا تھا۔ اگر اس ورق پر چارجڈ پارٹیکلز کی بوچھاڑ ہوتی تو ان پارٹیکلز کی وجہ سے اس ورق سے کچھ چارج زائل ہو جاتا جس سے ورق کا زاویہ کم ہو جاتا۔ تابکاری کے چارجڈ پارٹیکلز کی تعداد جس قدر زیادہ ہوتی اسی قدر تیزی سے ورق ڈسچارج ہوتا اور اس کا زاویہ کم ہوتا چلا جاتا۔ گویا الیکٹرو میٹر کو فضا میں چارجڈ پارٹیکلز کی موجودگی ڈیٹیکٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
1910 میں ایک سائنس دان تھیوڈور وولف نے ایسا ہی ایک الیکٹرومیٹر پیرس کے ایفل ٹاور کی چوٹی پر نصب کیا۔ اس وقت چٹانوں اور زمین کی مٹی میں تابکاری دریافت کی جا چکی تھی۔ تھیوڈور کا خیال تھا کہ چوں کہ چارجڈ پارٹیکلز ہوا میں زیادہ دور تک نہیں جا سکتے اس لیے زمین سے تین سو میٹر کی بلندی پر تابکاری کی شرح زمین کی سطح پر تابکاری کی شرح کی نسبت محض چند فیصد ہی رہ جائے گی۔ لیکن اس کی توقع کے برخلاف ایفل ٹاور کی چوٹی پر بھی چارجڈ پارٹیکلز کافی زیادہ تعداد میں ڈیٹیکٹ ہو رہے تھے اور اس بلندی پر ان چارجڈ پارٹیکلز کی شرح سطح زمین سے محض کچھ فیصد ہی کم تھی۔
کاسمک ریز:
1911 میں آسٹریا کے ایک سائنس دان وکٹر ہیس نے ہائیڈروجن سے بھرے غبارے کی ٹوکری میں الیکٹرومیٹر نصب کیا جو ایفل ٹاور سے کہیں زیادہ بلندی تک جا سکتا تھا۔ پہلی دو فلائٹوں میں اس سائنس دان نے بھی گیارہ سو میٹر کی بلندی تک کم و بیش وہی مشاہدات کیے جو وولف نے ایفل ٹاور پر کیے تھے یعنی اس بلندی پر تابکاری کی شرح وہی تھی جو زمین پر تھی۔ اگلے سال اس نے غبارے کی گیارہ اڑانوں میں یہ پیمائشیں دہرائیں جن میں سے کچھ 5200 میٹر کی بلندی تک گئیں۔ اس بلندی پر اس کے مشاہدات حیرت انگیز ثابت ہوئے۔ سطح زمین سے چند سو میٹر کی بلندی تک تو تابکاری کی شرح میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی لیکن سطح زمین سے ایک کلو میٹر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد جیسے جیسے بلندی بڑھتی گئی ویسے ویسے تابکاری کی شرح بھی بڑھنے لگی۔ پانچ کلو میٹر کی بلندی پر تابکاری کی شرح سطح زمین پر تابکاری کی شرح سے کئی گنا زیادہ تھی یعنی یہ شعاعیں زمین سے خارج نہیںہو رہی تھیں بلکہ اسپیس سے آ رہی تھیں۔ یہ کاسمک ریز تھیں جنہیں وکٹر ہیس نے دریافت کیا۔
اب ہم جانتے ہیں کہ کاسمک ریز شعاعیں (یعنی ریز) نہیں بلکہ چارجڈ پارٹیکلز ہیں جن میں 90 فیصد پروٹانز ہوتے ہیں، 9 فیصد ہیلیم کے مرکزے (یعنی الفا پارٹیکلز) اور باقی ایک فیصد بڑے اور بھاری مرکزے ہوتے ہیں تاہم تاریخی وجوہات کی بنا پر اُنہیں کاسمک پارٹیکلز کے بجائے کاسمک ریز ہی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ پارٹیکلز تو سورج سے خارج ہوتے ہیں لیکن ان کی توانائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ زیادہ توانائی کی حامل کاسمک ریز‘ جن کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب قریب ہوتی ہے‘ سپر نووا یعنی ستاروں کے پھٹنے کے عمل میں خارج ہوتی ہیں۔ یہ سپر نووا ہماری کہکشاں میں بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ زیادہ تر کاسمک ریز دوسری کہکشاؤں میں ہونے والے سپر نووا دھماکوں میں پیدا ہوتی ہیں لیکن سب سے زیادہ توانائی کے حامل پارٹیکلز بلیک ہولز کے نواح سے خارج ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر پارٹیکلز کہکشاؤں کے مرکز میں موجود massive super بلیک ہولز کے نواح سے خارج ہوتے ہیں۔ لیکن کاسمک ریز میں موجود چارجڈ پارٹیکلز میں سے کسی بھی پارٹیکل کے بارے میں اس بات کا تعین بہت مشکل ہے کہ وہ پارٹیکل کہاں سے آ رہا ہے۔ چوں کہ کاسمک ریز چارجڈ پارٹیکلز پر مشتمل ہوتی ہیں اس لیے یہ پارٹیکلز اسپیس میں موجود مقناطیسی فیلڈ کی موجودگی میں ڈیفلیکٹ ہو جاتے ہیں یعنی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ پارٹیکلز ہم تک پہنچنے سے پہلے اربوں سال تک کائنات میں اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے رہے ہیں۔
کلاؤڈ چیمبر:
ہم تک یہ چارجڈ پارٹیکلز کتنی تعداد میں پہنچتے ہیں؟ 1911 میں چارلس ولسن نے کلاؤڈ چیمبر کو ایجاد کر کے ہمارے ارد گرد موجود کاسمک ریز کو دیکھنا ممکن بنا دیا۔ کلاؤڈ چیمبر شیشے کا ایک سر بمہر چیمبر ہوتا ہے جس میں الکوحل کے بخارات بھرے ہوتے ہیں‘ جب اس چیمبر میں سے کاسمک رے کا کوئی پارٹیکل گزرتا ہے تو اس چیمبر میں موجود گیس ions میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور تکثیف کے عمل سے جہاں جہاں یہ پارٹیکلز گزریں‘ وہاں وہاں دھویں کی لکیر سی بن جاتی ہے جس سے پارٹیکل کے گزرنے کا راستہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کلاؤڈ چیمبر میں ان پارٹیکلز کو دیکھنا تو ممکن نہیں ہوتا لیکن ان پارٹیکلز سے بنے ٹریکس کو دیکھ کر ان پارٹیکلز کے بارے میں اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ الفا پارٹیکلز یعنی ہیلیئم کے مرکزے نسبتاً چھوٹے لیکن موٹے ٹریک بناتے ہیں۔ اس کے برعکس بیٹا پارٹیکلز یعنی الیکٹرانز پتلے لیکن لمبے ٹریک بناتے ہیں۔ یہی وہ ذرات ہیں جو کمپیوٹر کی چپس میں ڈیٹا کو خراب کرتے ہیں۔
کمپیوٹر چپس اور Code Correcting Error:
آج کل کمپیوٹر چپس کو اس انداز سے بنایا جاتا ہے کہ اگر ایک یا دو بٹس (bits) تبدیل ہو جائیں تو اس تبدیلی کو ڈیٹیکٹ کر کے درست کیا جا سکتا ہے۔ اس تکینک کو Code Correcting Errorیا ECC کہا جاتا ہے- لیکن اگر بہت سے بٹس بیک وقت تبدیل ہو جائیں تو انہیں درست نہیں کیا جا سکتا۔
1996 میں آئی بی ایم (IBM) کمپنی کے انجینئرز نے اندازہ لگایا کہ 256 میگا بٹ کی میموری چپ میں اوسطاً ہر ماہ ایک بٹ کاسمک ریز کی وجہ سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ کاسمک ریز کی وجہ سے پیدا ہونے والے نیوٹرانز ہیں۔
کاسمک ریز اور سپیس سٹیشن:
طاقتور کاسمک ریز جب کرہ ہوائی کے بالائی حصے سے ٹکراتی ہیں تو بعض اوقات ان کے نتائج کو بغیر کسی آلے کے دیکھا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے خلا بازوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی جب ہم سونے کے لیے آنکھیں بند کرتے ہیں تو ہمیں اچانک روشنی کا جھماکہ یعنی فلیش نظر آتا ہے اس کی وجہ غالباً کاسمک ریز میں موجود بھاری پارٹیکلز ہیں جو یا تو ہماری آنکھ میں سے گزر رہے ہوتے ہیں یا پھر براہِ راست آپٹک نروو (یعنی آنکھ کے سگنلز دماغ تک پہنچے والے اعصاب) سے ٹکراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان نروز میں ایک برقی سگنل پیدا ہوتا ہے جب یہ سگنل دماغ تک پہنچتا ہے تو ہمارا شعوری ذہن اسے روشنی کے فلیش کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسپیس اسٹیشن پر نہ صرف سورج سے خارج ہونے والی کاسمک ریز خلا بازوں تک پہنچ رہی ہوتی ہیں بلکہ وہ کائنات کے کھربوں ستاروں سے خارج ہونے والے چارج پارٹیکلز کی زد میں بھی ہوتے ہیں۔
حیاتیاتی ارتقا میں کاسمک ریز کا کردار:
زمین کی تاریخ میں کاسمک ریز کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ جس طرح کاسمک ریز کمپیوٹر کی میموری میں بٹس کو تبدیل کر سکتی ہیں اسی طرح یہ چارجڈ پارٹیکلز حیاتیاتی انواع کے ڈی این اے کے حروف بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ اس طرح جینز میں وہ میوٹیشنز ہوتی ہیں جنہیں فطری چناؤ یا تو رد کر دیتا ہے یا کامیابی کے لیے چن لیتا ہے اور ارتقا کا عمل آگے بڑھتا ہے۔

حصہ