احمد: بابا! ہفتے کے دن میرے اسکول میں میٹنگ ہے، ماہانہ رزلٹ بھی دیا جائے گا، پچھلی مرتبہ بھی آپ اور مما دونوں نہیں چلے تھے، ٹیچر بہت ناراض ہورہی تھیں، اِس مرتبہ ٹیچر نے مجھے خاص طور پر نام لے کر کہا ہے کہ اگر آپ کے والدین نہیں آئے تو میں آپ کو میڈم کے پاس لے جائوں گی۔
بابا: ارے یار ایسے ہی کہتی رہتی ہیں، تم کہہ دینا مما کی طبیعت خراب تھی اور بابا شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ یوں کرو، میں تمہیں لیٹر لکھ کر دے رہا ہوں۔
احمد: لیکن بابا آپ تو کہیں نہیں جارہے، پھر میں جھوٹ بولوں؟
بابا: سوال جواب نہ کرو، جو کہا ہے وہ کرو… ہر مہینے میٹنگ ہے، کبھی کچھ ہے۔
احمد نے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھا جن کی واقعی طبیعت ناساز تھی، لیکن بابا…؟؟
٭…………٭
ساجد: سہیل بیٹا دیکھو کون ہے، (پھر سامنے گھر کی کیمرہ اسکرین میں دیکھ کر) ارے یہ سامنے والے ڈاکٹر صاحب ہیں، انہیں بھی فرصت ہی فرصت ہے۔ روز آنکلتے ہیں۔ یوں کرو سہیل بیٹا! ان سے کہو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔
سہیل واپس آیا تو ساجد نے پوچھا: گئے ڈاکٹر صاحب؟ کیا کہا تم نے؟
سہیل: جی ابو وہی کہا جو آپ نے کہا تھا۔ انکل نے کہا کہ میں پھر آجائوں گا۔
ساجد: سہیل! آج چھٹی کا دن ہے، صبح سے تم صرف ٹی وی کے آگے بیٹھے ہو یا تمہارے ہاتھ میں موبائل ہے۔ تمہیں اسکول کاہوم ورک وغیرہ نہیں کرنا! چلو جائو اپنی کتابیں نکالو… اور تمہاری مما بتا رہی تھیں تمہارے امتحان بھی ہونے والے ہیں۔ تیاری ہورہی ہے تمہاری؟
سہیل: جی ابو بہترین ہورہی ہے۔ ویسے آج ہوم ورک وغیرہ نہیں ملا۔ نہ یاد کرنے کا اور نہ لکھنے کا۔
سامنے میز پر ساجد کو بیٹے کی کتابیں اور اسکول بیگ نظر آیا تو یوں ہی انہوں نے ہوم ورک ڈائری پر نظر ڈالی۔ کل کی ڈائری میں نہ صرف یاد کرنے بلکہ لکھنے کا ہوم ورک بھی تھا۔ انہیں بیٹے کے جھوٹ بولنے پر غصہ آگیا۔
ساجد: (غصے سے) تم کہہ رہے ہو کوئی ہوم ورک نہیں ملا اور یہ کیا ہے؟ اب تم جھوٹ بھی بولنے لگے ہو! نہ جانے کتنی مرتبہ تم اپنی مما سے جھوٹ بولتے رہے ہوگے۔ جھوٹ بولنا گناہ ہے اور وہ بھی ماں باپ سے۔ آئندہ تم نے جھوٹ بولا تو میرے ہاتھ سے پٹ جائو گے۔
اب ساجد صاحب کو کون سمجھائے کہ سہیل میاں نے جھوٹ بولنا اپنے ابو سے ہی سیکھا ہے، وہ اکثر و بیشتر جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
٭…………٭
مہرین: بہت خوبصورت ہے بھابھی یہ ولیمے کا سوٹ، ماشاء اللہ… کتنے کا خریدا؟
زینب بھابھی: (اِتراتے ہوئے) ایک لاکھ کا ہے، ابھی سلائی کے لیے الگ پیسے دینے ہیں۔
مہرین: ماشاء اللہ، اللہ نصیب کرے آپ کی بہو کو۔ اور بھابھی ولیمے کے لیے کھانے کا آرڈر، ہال وغیرہ… سب کا انتظام ہوگیا؟ اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں۔
زینب بھابھی: شکریہ… ہال تو بک ہوگیا ہے، اور دعوتِ ولیمہ… اتنی مہنگائی ہے، توبہ۔ اب دیکھو نا، ہال کی بکنگ اور پھر کیٹرنگ کا بل… فی بندہ دو ہزار کیٹرنگ (باورچی) والے نے کہے ہیں۔
آج زینب کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ دلہن نے جو سوٹ پہنا تھا بہت اچھا تھا، لیکن میرے اندازے کے مطابق 30، 35 ہزار سے زیادہ نہ تھا۔ (میرے برابر میں زینب کی بہن بیٹھی ہوئی تھی) مہرین نے سوٹ کی تعریف کی تو کہنے لگی ’’جی باجی پورے پچیس ہزار کا سوٹ ہے، ماشاء اللہ، ہم دونوں بہنوں نے مل کر تمام خریداری کی تھی۔
زینب کی بہن کی بات سن کر مہرین بڑی حیران ہوئی کہ زینب نے جھوٹ کیوں بولا؟
٭…………٭
یہ چند واقعات ہیں جو میرے سامنے ہوئے۔ ان میں مذکور اکثر افراد کے جھوٹ سے کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ صرف عادت کی بنا پر، یا نمودو نمائش کی نیت سے انہوں نے جھوٹ بولا۔ لیکن کچھ لوگ سامنے والے کو نیچا دکھانے، بدگمانی یا فساد وغیرہ پھیلانے کے لیے بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ خصوصاً رشتوں میں دوری پیدا کرنے اور دراڑیں ڈالنے کے لیے رشتے دار چھوٹی سی بات کو مرچ مسالہ لگاکر آگے پہنچاتے ہیں جس سے بدگمانی پھیلتی ہے۔ اس طرح دورانِ ملازمت بھی لوگ دوسروں کی کارکردگی کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ یہ جھوٹ ہمیں ہمارے رب کی رضا سے دور کردیتا ہے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو ہمیں چھوٹا گناہ ہو یا بڑا، اس سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ ویسے بھی ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے انسان مزید جھوٹ بولتا جاتا ہے۔ جھوٹ تو ویسے ہی جھوٹ ہے، لیکن وہ جھوٹ جس سے سامنے والے کو تکلیف یا نقصان پہنچے، یہ حقوق العباد کے لحاظ سے انتہائی خطرناک و بُرا فعل ہے۔ اسی لیے اللہ اور رسولؐ نے اس ’’فعل‘‘ سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ بہت بڑی خیانت کی بات یہ ہے کہ تُو اپنے (مسلمان) بھائی کو کوئی ایسی بات کہے جس میں وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو، اور تُو اس میں جھوٹ بول رہا ہو۔ (ابودائود)
آج اکثر و بیشتر ایسے لوگ نظروں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ خصوصاً مال بیچنے کے لیے مال کے نقص کو چھپانے کے لیے لوگ ایسے ’’سفید جھوٹ‘‘ کا سہارا لیتے ہیں کہ بندہ اُن کے جال میں آہی جاتا ہے، یہ تو اُسے بعد میں ہی پتا چلتا ہے کہ سامنے والے نے اسے کس طرح بیوقوف بناکر مال بیچا، پھر سوائے ہاتھ مَلنے کے بندہ کچھ نہیں کرپاتا۔ اسی طرح آج ہمارے معاشرے میں غیبت و بہتان لگانا بہت عام ہوگیا ہے جس سے فساد و نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ محبتیں نفرتوں میں اور قربتیں دوریوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ خوب جانتے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’(سنو!) غیبت یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ وہ اگر سن پائے تو اس کو ناگوار گزرے‘‘۔ کہا گیا کہ ’’اگر وہ بات (عیب یا بدی) اس میں ہو تو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر وہ بات اس میں ہو تو تم نے اس کی غیبت کی، اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو پھر تم نے اس پر بہتان باندھا۔‘‘ (مسلم شریف)
میرا دین کتنا خوبصورت ہے کہ وہ اس بات کو بھی لوگوں میں بیان کرنے سے روک رہا ہے جو متعلقہ شخص کے متعلق سچی ہے (مثلاً اس کی کوئی بُرائی وغیرہ)، پھر جھوٹ اور الزام و بہتان (جو اس میں موجود نہیں) کس طرح ممکن ہے! اگر غور کریں تو اس جھوٹ کی وجہ سے نہ صرف دوسرے متاثر ہوتے ہیں، انہیں تکلیف و دکھ پہنچ سکتا ہے، بلکہ جھوٹا شخص خود بھی قابلِ اعتبار نہیں رہتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بہت سی برائیوں سے بچنا ہو تو پہلے جھوٹ بولنے سے بچیں۔
بچپن میں ایک واقعہ اپنے بزرگوں سے سنا کہ آپؐ کے پاس ایک چور آیا اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے، پوچھا کہ کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا: تُو صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ اگلی مرتبہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس سے سوال کیا گیا کہ تُو نے چوری کی؟ کیونکہ وہ جھوٹ چھوڑنے کا وعدہ کرچکا تھا لہٰذا اسے مجبوراً سچ بولنا پڑا۔ اس طرح اُس کا گناہ سب کے سامنے آگیا، شرمندگی الگ اٹھانی پڑی۔ اس طرح وہ چور سدھر گیا۔
اگر دیکھا جائے تو آج معاشرے میں پھیلی ہوئی بڑی بڑی برائیوں کے پیچھے جھوٹ کا بڑا ہاتھ ہے۔ بڑے بڑے مجرم جھوٹ اور جھوٹی گواہیوں کی بنا پر آزاد گھوم رہے ہیں۔ ایک چھت تلے رہنے والے ایک دوسرے کے اوپر جھوٹے الزامات لگاکر ان کی زندگی اجیرن بنادیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سے صرف جھوٹ کو نکال دیا جائے تو یہ معاشرہ بہت حد تک سدھر سکتا ہے اور سب کے لیے سکون و آسانیاں بھی مہیا ہوسکتی ہیں۔ میں بار بار اس حقیقت کو بیان کرتی ہوں کہ میرا اسلام ضابطۂ حیات ہے جس نے خصوصی طور پر ہمیں انسانیت کا درس دیا ہے، حُسنِ معاشرت کی اخلاقی خوبیوں پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے تا کہ ہماری یہ دنیا و آخرت سنور سکے۔ اور ان ہی اخلاقی خوبیوں میں ایک عمدہ خوبی سچ بولنا بھی ہے۔ خصوصاً بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ماں باپ خود بھی ان اخلاقی برائیوں سے بچیں تا کہ اولاد بھی ان برائیوں سے دور رہے۔ اکثر ایسی ہی اخلاقی برائیاں جنہیں ہم معمولی نوعیت کا سمجھتے ہیں، بچوں کے سامنے کرتے رہتے ہیں۔ اور بچے یہ اخلاقی برائیاں اپناتے جاتے ہیں۔ رب العالمین ہمیں کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔