محترمہ عائشہ برجٹ ہنی
یہ انٹرویو مشہور انگریزی کتاب Islam Our Choice میں شائع ہوا تھا‘ ذیل میںاس کا ترجمہ دیا جارہا ہے۔
…٭…
سوال: آپ نے کب اسلام قبول کیا‘ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟
جواب: آج سے ساڑھے تین برس پہلے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی شمع میرے دل میں روشن کی‘ اس وقت میری عمر اکیس سال تھی۔
سوال: براہِ کرام تفصیل سے بتایئے کہ آپ نے اسلام کیوں اور کیسے قبول کیا؟
جواب: میں نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی اور عام انگریز گھرانوں سے مختلف نہ تھا۔ میری والدہ عیسائی مذہب کی پیروکار تھیں مگر میں نے انہیں کبھی عبادت کرتے دیکھا نہ عیسوی اصولوں کی کبھی انہوں نے پابندی کی۔ والد صاحب کی حالت اس سے بھی گئی گزری تھی۔ وہ سرے سے کسی مذہب پر اعتقاد ہی نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ہمارے گھر کی حالت مکمل طور پر بے دینی کی تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے وہاں کسی کی زبان سے کبھی خدا کا نام سنا ہو۔
بچپن میں مجھے ایک مذہبی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ وہاں وہی نصاب پڑھایا جاتا تھا جو عام چرچ اسکولوں میں رائج تھا۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جلد ہی عیسائیت کے بہت سے عقائد ذہن میں کھٹکنے لگے۔ خصوصاً تثلیث کے تصور سے تو وحشت سی ہونے لگی اور کفارہ کا تصور بے حد مضحکہ خیز نظر آنے لگا کہ حضرت یسوع (یعنی ابنِ خدا) تمام انسانوں کے گناہوں کے بدلے صلیب پر چڑھ گئے اور اب بنی نوع انسان اپنے تمام افعال میں مکمل آزاد ہے۔ میں نے ان عقائد کے بارے میں بہت دلیلیں سنیں‘ مباحثے بھی سنے‘ مگر صاف احساس ہوتا تھا کہ تصویر کا ایک رخ پیش کیا جارہا ہے۔ میں ساری تصویر دیکھنا چاہتی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ میں پڑھتی تو ایک مذہب اسکول میں تھی مگر جب اسے چھوڑا تو مکمل بے دین ہو چکی تھی۔
اسکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے فلسفہ پڑھنا شروع کیا۔ دراصل حق کو معلوم کرنے کی پیاس بڑی شدید تھی۔ چنانچہ جب میں نے پندرہ برس کی عمر میں مشہور چینی فلاسفر ٹائو کی کتاب Taothching پڑھی تو بہت متاثر ہوئی۔ پھر جب میں نے بدھ مت کے بارے میں کچھ تعارفی باتیں معلوم کیں تو ان دونوں عقیدوں کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کرنے کی خواہش بڑھ گئی۔ ایک ارادہ یہ کیا کہ چینی زبان سیکھوں اور چین جا کر ان مذاہب کا قریب سے مطالعہ کروں‘ لیکن ظاہر ہے پندرہ برس کی ایک لڑکی‘ جس کے پاس پیسے تھے نہ وسائل‘ یہ خواہش خیال خام سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ تاہم سترہ برس کی عمر میں ملازمت کے سلسلے میں کینیڈا چلی گئی اور دو سال میں اچھی خاصی رقم جمع کرلی۔ ارادہ یہ تھا کہ سیکنڈری اسکول کی ڈگری حاصل کرکے یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں اور چینی زبان سیکھ سکوں۔
کینیڈا میں میرا تعارف ہندو مذہب سے ہوا اور میں نے ان کی تقریباً ساری مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ یوں میں نے اندازہ کیا کہ ٹائو ازم‘ بدھ مت اور ہندو مذہب میں حسن بھی ہے‘ عمق بھی اور سرفرازی کا انداز بھی‘ مگر ان میں سے کسی نے بھی میرے ذہن یا وجدان کو مطمئن نہ کیا۔ اس وسیع دنیا میں جہاں لوگ ایک دوسرذے کے بہت قریب آگئے ہیں‘ یہ تینوں مذاہب روز مرہ کی زندگی میں کوئی توازن یا استحکام پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ وہ کسی نہ کسی پہلو کو کلّی طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹائو فلاسفی کا بانی صوفی بن گیا اور ہر قسم کی لذتیں ترک کرکے دنیا کے دور دراز کونوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ بدھ نے حق کی تلاش میں بیوی بچوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ہندو لٹریچر کی بنیاد گو اخلاقیات پر استوار ہے‘ مگر اس مذہب میں اجتماعی زندگی گزارنے کے سارے نظریات بے بنیاد اور فریب نظر کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتے۔ اس تجزیے نے مجھے سخت مایوس کیا اور میں ان میں سے کسی پر ایمان نہ لاسکی۔ میں اکثر سوچتی کیا حق محض اتفاق ہے؟ کیا یہ سارا کارخانہ محض حادثتی ہے؟ ذہنی تنائو اور پریشانی بڑھتی رہی حتیٰ کہ میں رات رات بھر سو نہ سکتی اور روحانی پیاس مجھے انگاروں پر لوٹاتی رہتی۔
انہی حالات میں‘ میں نے سیکنڈری اسکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد لندن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور چینی زبان بھی سیکھنے لگی مگر یہ سب کچھ تضیعِ اوقات نظر آتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ خدا میری تلاشِ حق کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور یونیورسٹی میں داخلہ ہی میری زندگی کے روشن انقلاب کا سبب بن جائے گا۔
یونیورسٹی میں میرا تعارف کچھ مسلمان طالب علموں سے ہوا۔ اس سے قبل میں نے اسلام کے بارے میں کچھ سنا تھا نہ پڑھا تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ تمام یورپین لوگوں کی طرح میں اس کے بارے میں تعصب اور غلط فہمیوں کی شکار چلی آرہی تھی۔ مگر یونیورسٹی میں مسلمان طلبہ نے تحمل اور پوری ہمدردی کے ساتھ اپنے بنیادی عقائد کی وضاحت کی۔ میں نے جو اعتراض بھی کیا اس کا جواب انہوں نے بڑے حوصلے اور شائستگی کے ساتھ دیا اور پڑھنے کو کتابیں بھی دیں۔ ابتدا میں‘ میں نے ان کتابوں کی محض ورق گردانی کی اور چھوڑ دیا۔ میرا خیال یہ تھا کہ ان میں مضحکہ خیز کہانیوں اور ذہنی عیاشیوں کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ مگر جب میں نے واقعی سنجیدگی کے ساتھ ان کے کچھ حصوں کو پڑھا تو پتا چلا کہ یہ کتابیں دوسرے مذاہب کی کتابوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام کے بارے میں میری غلط فہمیاں آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگیں۔
اب میں نے ان کتابوں کا مطالعہ بڑی احتیاط اور توجہ سے شروع کیا۔ ان کے اسلوبِ بیان اور طرزِ وضاحت کی ندرت اور تازگی اور تشریح کے انداز نے مجھے حیران کر دیا۔ خالقِ کائنات‘ مخلوقات اور حیات بعد الموت کے عقائد کو جن منطقی اور سائنسی دلیلوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا‘ اس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کے بعد ان مسلمان طلبہ نے مجھے قرآن کا ایک انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہ میں کتنی کوشش کروں اس تاثر کے تناسب کو بیان نہیں کرسکتی جو قرآن نے میرے دل میں نقش کیا تھا۔ چنانچہ بحمدللہ تعالیٰ میں اس وقت سے مسلمان چلی آرہی ہوں‘ اسلام سے تعارف ہوئے بمشکل تین مہینے ہوئے تھے کہ میں اس کی پناہ میں آگئی۔ ابھی میں اس کے بنیادی عقائد سے ہٹ کر اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس کے مختلف شعبوں کی تفصیلات جاننے کا مرحلہ بعد میں آیا اور میں نے ایک معاملے میں اپنے مسلمان بھائیوں سے رہنمائی حاصل کی جس میں مجھے کسی مایوسی یا شک کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ میرے اسلام قبول کرنے کی بڑی وجوہات کیا تھیں۔ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی مثال جیومیٹری کے ایک ایسے نقشے کی ہے جس کا ہر جزو دوسرے جزو کی تکمیل کرتا ہے اور نقشے کا اصل حسن تمام اجزاء کے تناسب اور ربط و تعلق میں ہوتا ہے۔ اسلام کی یہی وہ خصوصیگت ہے جو انسانوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ذرا فاصلے سے دیکھیں تو انسانی ارادوں‘ مقاصد‘ اعمال اور عام اشیا کی عمومیت میں اسلام گہری بصیرت کا ثبوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے سیاسی اور حکومتی نظام کا مطالعہ کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اگر سماجی و انفرادی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ سچی اخلاقیات کی مشعل لیے ایک ایک پہلو میں زندگی کی صاف اور سیدھی شاہراہ کی طرف رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان معاملات میں دنیا کا کوئی اور مذہب یا نظام اس سے لگا نہیں کھاتا۔ مسلمان جب بھی کوئی کام کرتا ہے اللہ کا نام لیتا ہے۔ جب اللہ کا نام لیتا ہے تو اس حوالے سے اپنا احتساب بھی کرتا ہے اور یوں وہ بہت اونچے معیار کو پا لیتا ہے۔ اس طرح روز مرہ زندگی اور مذہبی تقاضوں میں کوئی بُعد باقی نہیں رہتا بلکہ دونوں میں ایک متناسب سا تعلق قائم ہو جاتا ہے جو متوازن بھی ہوتا ہے اور دونوں کے لیے بے حد ضروری بھی۔
سوال: آپ کے قبولِ اسلام پر آپ کے خاندان اور اعزا کا ردِعمل کیا تھا؟
جواب: جہاں تک والدین کا تعلق ہے‘ انہوں نے میرے قبولِ اسلام پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے سوچا کہ چینی زبان سیکھنے کی طرح یہ بھی میرا شوقِ فضول ہے جووقت کے ساتھ اپنا ابال کھو دے گا۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ میرے عقائد نے آگے بڑھ کر میری زندگی کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے اور میری عادتیں اور طرز معاشرت میں انقلاب آگیا ہے تو وہ بہت گھبرائے اور پچھتائے بھی۔ میں نے شراب اور سور کا گوشت چھوڑا تو وہ خاصے برہم ہوئے۔ انہیں بالکل پسند نہیں تھا کہ میں ایک چادر میں ملفوف رہوں اور سر پر ہر وقت دوپٹہ لیے رہوں۔ دراصل انہیں فکر لوگوں کی چہ میگوئیوں کی تھی ورنہ میرے عقیدے یا ایمان سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس کے برعکس میرے واقف کار انگریزوں کا رویہ خاصا مختلف تھا۔ وہ مدلل گفتگو اور بحث و مباحث سے نہیں بدکتے تھے اور عقلی طور پر انہیں کوئی بات بھی سمجھائی جاتی وہ اسے قبول کرنے پر تیار تھے۔ چنانچہ جب میں اسلامی عقائد اور اس کے سماجی نظریات پر گفتگو کرتی تو وہ اسلام کی حکمتوں کو تسلیم کرتے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ تعددِ ازدواج کے بارے میں اسلامی نظریے پر بات ہوئی اور میں نے اس کا مقابلہ موجودہ مغربی تہذیب کے انہی پہلوئوں سے یا تو میرے احباب نے تسلیم کیا کہ عائلی زندگی کے مسائل کا بہترین حل یہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔
سوال: کیا آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی مشکل یا الجھن محسوس کی؟
جواب: بات یہ ہے کہ انگلستان کے وہ لوگ جو سوچ سمجھ سے عاری ہیں‘ اسلام کے بارے میں سخت متصعبانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور مسلمانوں کا عموماً مذاق اڑاتذے ہیں۔ یہ حرکت وہ منہ پر نہ کرتے ہوں مگر پیٹھ پیچھے اہلِا سلام کا مضحکہ اڑانا ان کا دل پسند مشغلہ ہے۔ اس کے برعکس وہ ان لوگوں کو کچھ نہیں کہتے ہیں جو لامذہب اور بے دین ہیں۔ بلکہ ان کی ’’آزاد روی‘‘ کی وہ جی بھر کے تعریف کرتے ہیں۔ میرے ہم وطنوں کی اس عمومی روش کے باوجود کم از کم میرے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یونیورسٹی میں اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز کی طالبہ تھی اور جن لوگوں سے نیا نیا تعارف ہوتا تھا وہ عموماً مذہب اور عقائد سے آگاہ ہوتے تھے۔ تاہم میں بخوبی جانتی ہوں کہ دوسرے مسلمانوں کو کس قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
سوال: آپ کا کیا خیال ہے‘ آیا اسلام کسی طریقے سے موجودہ تہذیب پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو کیسے؟
جواب: آج کا یورپ تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے۔ یہاں روشنیوں کی کوئی ننھی سی کرن بھی نہیں جوروح اور ذات کی ان تاریکیوں میں رہنمائی کرسکے۔ ہر وہ شخص جو یورپ کی صحیح صورتِ حال کو تھوڑا سا بھی سجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ترقی کی جھوٹی چمک دمک اور مادّیت کی مصنوعی شان و شوکت کے پیچھے دراصل ہمہ گیر قسم کے رنج و آلام اور شدید پریشانی پھنکار رہی ہے۔ لوگ ان مشکلات سے نجات کا کوئی راستہ چاہتے ہیں مگر انہیں کوئی ایسا ذریعہ نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں ان کی ساری جستجو بے کار جارہی ہے۔ اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اوروہ سیدھا تباہی و بربادی کے جہنم کی طرف جاتا ہے۔ اسلام جسم کے تقاضوں اور روح کی ضرورتوں کے درمیان جو حسین تناسب پیدا کرتا ہے‘ یورپ میں آج اس کے لیے زبردست کشش پائی جاتی ہے۔ اسلام مغربی تہذیب کی سچی کامیابی اور صحیح نجات کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ مغرب کے انسان کو زندگی کے حقیقی مقصد کا شعور دے سکتا ہے اور اسے صرف اللہ کی رضا کے لیے تگ و دو کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے جو اس کی دنیوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اَخروی نجات کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی عطا فرمائے۔
سوال: آپ کے خیال میں اشاعت و تبلیغِ اسلام کے لیے کون سا طریقہ موزوں ہے؟
جواب: اغیار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت سے پہلے ہمیں اپنی زندگی اور اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ان معیارات کو حاصل کرنا بے حد ضروری ہے جو اسلام نے متعین کیے ہیں۔ دراصل یہ ذمہ داری بہت ہی نازک اور اہم ہے۔ اسلام کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے کے بعد ہی ہم اچھے مبلغ بن سکیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سلسلے میں مختلف کتابوں کی بھی خاصی اہمیت ہے اور ایک غیر مسلم زبانی بات چیت کے مقابلے میں کتاب پر زیادہ توجہ دے سکتا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے انگریزی میں اسلام پر اچھی کتابیں بہت کم ہیں۔ تاہم میں پھر کہوںگی کہ ایک جیتی جاگتی زندہ مثال ہی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مفید رہے گی۔ اگر ہم اپنی زندگیوںکو لازماً اسی سانچے میں ڈھالیں جس کا تقاضا قرآن کرتا ہے تو اسلام کو پھیلنے سے کوئی قوت نہیں روک سکے گی۔
سوال: برطانوی مسلمانوں کو سماجی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
جواب: جہاں پورے کا پورا خاندان اسلام کی آغوش میں آجاتا ہے‘ وہاں کوئی مشکل پیش نہیں آتی‘ وہ لوگ اسلامی اقدار کو اختیار کر لیتے ہیں اور امن و راحت کی زندگی گزارتے ہیں‘ لیکن جب کوئی غیر شادی شدہ لڑکا یا لڑکی یا شادی شدہ مرد یا عورت اکیلے اسلام قبول کرتی ہے تو مشکلات کا ہجوم اس کے استقبال کے لیے موجود ہوتا ہے۔ انہیں ہر وقت یہ احساس تنگ کرتا ہے کہ یہ معاشرہ اور یہ ماحول ان کا اپنا نہیں ہے۔ انہیں نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے میں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خدا کا شکر ہے مسلم گھرانے اس سلسلے میں اپنے ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں۔
برطانیہ میں ہمیں ایسے مدرس درکار ہیں جو اسلامی تہذیب کا نمونہ بھی ہوں اور نو مسلموں کو قرآن اور اسلام کی تعلیم بھی دے سکیں۔ بہت سے نو مسلم قرآن سمجھنا چاہتے ہیں مگر وہ ایسی سہولت نہیں پاتے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ لندن کا اسلامک کلچرل سینٹر اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہا۔ مسلمان طلبہ یہ فرض نبھا سکتے ہیں‘ مگر ایک تو انہیں اپنی نصابی سرگرمیوں سے فرصت نہیں ملتی‘ دوسرے وہ کماحقہ‘ انے فرض کی عظمت کا احساس نہیں رکھتے۔ دراصل وہ یورپ کی جھوٹی اور مصنوعی چمک دمک سے مرعوب ہیں۔ ان کی آنکھیں ان بناوٹی روشنیوں سے چندھیا گئی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ مداری کا کھیل ہے۔
آخر میں‘ میں اسلامی ملکوں کے مضبوط خاندانی نظام اور صاف ستھری سماجی زندگی کو خراجِ تحسین ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر ہم اس کا مقابلہ یورپ کی معاشرتی اور خاندانی قباحتوں سے کریں تو پتا چلتا ہے کہ مسلمان عظمت کی کن بلندیوں پر فائز ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر فی الواقع اسلام کا سماجی نظام برسر عمل آجائے تو رحمت و برکت کا کیا عالم ہوگا۔