شعرو شاعری

444

خطاب بہ جوانان اسلام/علامہ اقبال

کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا
سماں ’الفقر فخري‘ کا رہا شان امارت ميں
’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را‘‘
گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا
غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے
جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں
مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا
گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کيا رونا کہ وہ اک عارضي شے تھي
نہيں دنيا کے آئين مسلم سے کوئي چارا
مگر وہ علم کے موتي ، کتابيں اپنے آبا کي
جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارا
’’غني! روز سياہ پير کنعاں را تماشا کن
کہ نور ديدہ اش روشن کند چشم زليخا را‘‘
…٭…
میر تقی میر
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں
عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا
اس مشتِ خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں
صورت پذیر ہم بن ہرگز نہیں وے مانے
اہلِ نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں
عشق ان کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے
ناچیز جانتے ہیں نا بود جانتے ہیں
اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے
اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں
یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہِ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں
یہ ظلمِ بے نہایت دشوار تر کہ خوباں
بد وضعیوں کو اپنی محمود جانتے ہیں
کیا جانے داب صحبت از خویش رفتگاں کا
مجلس میں شیخ صاحب کچھ کود جانتے ہیں
مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہے وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں
…٭…
ابوالکلام آزاد
جوشِ وحشت میں مسلّم ہو گیا اسلامِ عشق
کوچہ گردی سے مری پورا ہوا احرامِ عشق
میرے مرنے سے کھلا حالِ محبت خلق پر
سنگِ مرقد بن گیا آئینہِ انجامِ عشق
یہ صلہ پایا وفا کا حسن کی سرکار سے
چہرۂ عاشق کی زردی ہے زرِ انعامِ عشق
پہلے تھا رخ کا تصور اب ہے گیسو کا خیال
وو تھی صبحِ عشق گویا اور یہ ہے شامِ عشق
آستان یار پر ہر وقت سجدہ کیجیے
ہے یہی بس دینِ عشق ایمانِ عشق اسلامِ عشق
ہوں اسیرِ زلف ظاہر ہے خط تقدیر سے
دائرے حرفوں کے مل کر بن گئے ہیں دامِ عشق
عرشِ اعظم سے بھی اونچی ہو گئی میری فغاں
آج تک پایا نہ اے آزادؔ اوج بامِ عشق
…٭…
عبید اللہ علیم
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اک شخص
میں کس ہوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اک شخص
پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اک شخص
محبتیں بھی عجب اس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک شخص
محبتوں نے کسی کی بھلا رکھا تھا اسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آ گیا اک شخص
کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص
واصف علی واصف
جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے
تو خون کا طالب تھا تری پیاس بجھی ہے؟
میں پاتا رہا نشوونما آب و ہوا سے
مجھ کو تو مرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دنیا سے گلہ کوئی نہ شکوہ ہے خدا سے
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے
دم بھر میں وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے واصف
تعمیر نکل جاتی ہے جو اپنی بِنا سے
…٭…
فیضان عارف
نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا
پرانے شہر بھی آباد رکھنا
پڑی ہو پاؤں میں زنجیر پھر بھی
ہمیشہ ذہن کو آزاد رکھنا
کسی کی یاد جب شدت سے آئے
بہت مشکل ہے خود کو یاد رکھنا
دکھوں نے جڑ پکڑ لی میرے اندر
ضروری تھا کوئی ہم زاد رکھنا
خدایا شاخ پر کلیاں کھلانا
کوئی پودا نہ بے اولاد رکھنا
پڑھاؤ ڈالنے والو ہمیشہ
گزشتہ ہجرتوں کو یاد رکھنا
کہیں بھی گھر بسا لینا جہاں میں
مگر اپنے وطن کو یاد رکھنا
…٭…
منتخب اشعار
کہنے کے لیے ہم بھی زباں رکھتے ہیں لیکن
یہ ظرف ہمارا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے
صدیق فتح پوری
…٭…
یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں
جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے
قتیل شفائی
…٭…
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
شکیل اعظمی
…٭…
آج بھی نقش ہیں دل پر تری آہٹ کے نشاں
ہم نے اس راہ سے اوروں کو گزرنے نہ دیا
اشہد بلال ابن چمن
…٭…

امیر مینائی
وہ بزم خاص جو دربارِ عام ہو جائے
امید ہے کہ ہمارا سلام ہو جائے
مدینہ جاؤں پھر آؤں دوبارہ پھر جاؤں
تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے
…٭…

فیضان عارف
ظلم کی راہ میں دیوار ہوا کرتے تھے
ہم کبھی عزم کے کہسار ہوا کرتے تھے
شہر سنسان ہے ان چاند سے چہروں کے بغیر
جو دریچوں سے نمودار ہوا کرتے تھے
مجھ سے مل کر ہیں عجب عالم حیرانی میں
جو مرے فن کے پرستار ہوا کرتے تھے
زندگی کس قدر آسان ہوا کرتی تھی
لوگ جب صاحب کردار ہوا کرتے تھے
اس کی زلفوں میں چمکتے تھے ستارے ہر پل
ہر گھڑی رات کے آثار ہوا کرتے تھے
اب وہاں فصل عمارات کی اگ آئی ہے
جب جگہ پر گھنے اشجار ہوا کرتے تھے
تیری پلکوں کے اشارے کو سمجھ جاتے تھے
ہم کبھی اتنے سمجھ دار ہوا کرتے تھے
تیری تصویر نگاہوں میں سجی رہتی تھی
ہم تو سوتے میں بھی بیدار ہوا کرتے تھے
تجھ کو اب یاد نہیں ہے کہ تری خاطر ہم
کیسے رسوا سر بازار ہوا کرتے تھے
جانے کس حال میں ہوگی وہ مری جان حیات
جس کی خاطر مرے اشعار ہوا کرتے تھے
جا چکے اب وہ زمانے کہ مر…
…٭…

حصہ