ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک مرد مار قسم کی عورت نے ایک مرد کے منہ پر زنّاٹے دار تھپڑ مارکر نسوانیت کی قوت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا، اور یہ ثابت کردیا کہ عورت کو صنف ِ نازک کہنا اور چھوئی موئی سمجھنا فرسودہ سوچ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عورت ہمارے معاشرے میں خصوصی مقام رکھتی ہے اور اُسے بڑی قدرو منزلت حاصل ہے۔ بقولِ شاعر
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
خالقِ حقیقی نے عورت کی تخلیق منفرد انداز میں کی ہے اور اُسے مخصوص اوصاف سے نوازا ہے۔ شرم و حیا اور پاکیزگی اُس کا اصل جوہر اور زیور ہے۔ نظرِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اُسے ’’مستور‘‘ کیا گیا ہے، لیکن نئی تہذیب نے اُسے ’’سبھا کی پری‘‘ بنا ڈالا ہے۔ رہی سہی کسر اشتہاری صنعت نے پوری کردی ہے، جس میں ماڈلنگ کے نام پر اُسے بری طرح استعمال کرکے اُس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ اِسے اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتی ہے۔ بے راہ روی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بعض فیشن زدہ ماڈرن کہلانے والی خواتین نے سر سے دوپٹہ بھی اتار پھینکا ہے۔ اِس پر اکبر الہٰ آبادی کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
بے پردہ جو کل آئیں نظر چند بِیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
مغرب کی نقالی میں ہماری بعض خواتین نے تو مغرب کی عورتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور یہ رجحان روز بہ روز زور پکڑ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ نقصان اِس سوچ نے پہنچایا ہے کہ ’’ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں‘‘، اور یہ کہ ’’مرد و زَن سب برابر ہیں‘‘۔ اس کے لیے ’’شانہ بشانہ‘‘ کی اصطلاح تراشی گئی ہے جسے بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے، اور اِس روِش نے بے چاری عورت کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گویا
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ
اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اِس طرزِ عمل نے عورت کو زندگی کے چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے، اور وہ حیران و پریشان سوچ رہی ہے کہ کس طرف جاؤں! ایلیٹ کلاس کا حال تو پوچھیے ہی نہیں، کہ شرم و حیا کے الفاظ اُن کی لغت میں شامل ہی نہیں، اور بے شرمی اور عریانی اُن کا کلچر قرار پایا ہے جسے وہ ’’آزادی‘‘ کا نام دے رہی ہیں۔
گستاخی معاف اِس میں ہمارے میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس میں فلموں کے علاوہ مختلف ٹی وی ڈراما سیریلز بھی شامل ہیں۔ ہمارا پرنٹ میڈیا بھی اِس میں کسی سے پیچھے نہیں، جس کے ہفتہ وار میگزین اور ڈائجسٹوں پر عورتوں کی تصویریں چھاپنا پختہ روایت بن چکی ہے۔ اور تو اور عورت کی نمائش اِس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ’’عورت مارچ‘‘ کے نام پر عورت کا استحصال کیا جارہا ہے جسے حقوقِ نسواں کی حفاظت اور برابری کا نام دیا جارہا ہے۔ گویا عورت نہ ہوئی نیلام ہونے والی شے بن گئی۔ یہ اُسی کا شاخسانہ ہے کہ آئے دن وطنِ عزیز میں ہماری کسی نہ کسی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس سیلابِ بلا کو روکنے کے لیے بلا تاخیر مؤثر اقدامات کیے جائیں اور میڈیا کو لگام دی جائے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام پر ایک مخصوص لابی ناپسندیدگی اور ناراضی کا اظہار کرے گی، جس کا شدید ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اِس ملک کے مفاد میں چار و ناچار یہ کڑوی گولی نگلنا ہی پڑے گی، تبھی ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلا سکتا ہے اور ریاست ِ مدینہ کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کیوں کہ بقول مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے