کہتے ہیں: بیٹیاں ماؤں جیسی ہوتی ہیں۔ پتا نہیں، لیکن آج کل کے بچے نہیں ہوتے اپنے ماں باپ جیسے۔ ہم نے تو اپنے ماں باپ کو کبھی تنگ نہ کیا۔ اپنی مرضی کی بات تو کہیں آتی ہی نہیں تھی، جو بڑوں نے کہہ دیا بس وہی کرنا ہوتا تھا، مگر آج کل کے بچے ہر چیز میں اپنی مرضی چلاتے ہیں، کسی کی بات سنتے ہی نہیں۔
’’مما! مجھے نہیں پتا، میں پبلک بس سے کوچنگ نہیں جا سکتی، مجھے متلی ہوتی ہے اور چکر آتے ہیں، پھر کیا خاک پڑھائی ہوسکے گی!‘‘ میری بیٹی منہ بناکر بیٹھی تھی۔ دراصل بات یہ تھی کہ ان محترمہ نے اچھے کوچنگ سینٹر کی تلاش میں اِدھر اُدھر کئی چکر لگائے، مگر جو کوچنگ سینٹر اس کی سمجھ میں آیا وہ گھر سے بہت دور ہے۔ غلطی تو میری ہی تھی، میں نے ڈیمو وہاں کیوں دلوایا؟ اب وہاں کے ٹیچرز کا پڑھانے کا انداز اُسے بھا گیا۔ دراصل وہ بہت زیادہ رش میں پڑھ نہیں سکتی، کیوں کہ شروع سے ہی میں نے خود پڑھایا ہے، تو اب اسے کوچنگ سینٹر بھی ایسا ہی چاہیے تھا جہاں بچوں کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو۔
بہرحال داخلہ کروا کر ہم گھر آگئے۔ بیٹی خوش بھی بہت تھی، لیکن مختلف عذر کے باعث نہ کوئی وین والا راضی ہوا، نہ ہی رکشہ جانے کو تیار تھا۔ ویسے بھی آئے روز خواتین کو ہراساں کرنے اور اغوا کے واقعات سننے کے بعد اتنی ہمت میرے اندر نہ تھی کہ اکیلے رکشے پر بیٹی کو بھیج دوں۔ اصل پریشانی تو اُس وقت اٹھانی پڑی جب مجھ جیسی خالص گھریلو خاتون کو روزانہ لانے اور لے جانے کی خدمت فراہم کرنا پڑی۔ آخر کو بیٹی کے مستقبل کا سوال تھا، سو گھر سے نکل کر روزانہ رکشے کا سفر میرے لیے بھی پریشان کن تھا۔ میری پریشانی کی تفصیل تو بہت لمبی ہے، بہرحال بات ہورہی تھی میری بیٹی کی، اب وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی کہ اگر وین کا بندوبست نہیں ہورہا تو میں کم از کم ’’بس‘‘ میں نہیں جاؤں گی، اور میں مُصر تھی کہ کسی قریبی کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینے میں کیا حرج ہے! پڑھائی تو ہر جگہ ہی اچھی ہوتی ہے، بس خود پڑھنے والا ہونا چاہیے۔ اب جب اپنے شوق سے داخلہ لیا ہے تو پھر یہ سب تو برداشت کرنا ہوگا، اور ہم بھی تو آخر پبلک بس میں ہی جاتے تھے… کہ اچانک اس نے مجھ سے سوال کیا ’’مما! آپ کالج کیسے جاتی تھیں؟‘‘
میں نے عادت کے مطابق تفصیل سے بتانا شروع کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم نہ صرف بس بلکہ پیدل چلنے کی مشقت بھی اٹھاتے تھے، جس پر بیٹی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
’’مما! دو بسیں اور پیدل…! آپ کیسے جاتی تھیں؟ تھکتی نہیں تھیں آپ؟‘‘
’’ہاں بھئی! تھک تو بہت جاتی تھی لیکن کیا کرتی، کہتی کس سے؟ آخر اپنی مرضی سے داخلہ لیا تھا۔ گھر والوں نے تو بہت چاہا کہ کسی قریبی کالج میں داخلہ لے لوں لیکن میرے سر پر تو اُس وقت بھوت سوار تھا میرٹ کے مطابق شہر کے بہترین کالج میں داخلہ لینے کا، تو کیوں نہ لیتی؟ گھر والوں نے بھی کوئی خاص منع نہ کیا اور میری خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے داخلہ دلوا دیا۔ وہ تو جب دو بسوں کا چکر ہوا تب پتا چلا۔ مگر کہتے کس سے؟ کیوں کہ ’’داخلہ تو اپنی مرضی سے لیا تھا… کچھ باتیں واقعی وقت کے ساتھ سمجھ آتی ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے سبزی کاٹتے کاٹتے، نظر اٹھا کر اپنی بیٹی کی طرف دیکھا، وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔ ہم دونوں ہی سمجھ گئے اور اگلے ہی لمحے ہمارا قہقہہ پورے کمرے میں گونج رہا تھا۔