ارسال اب کے حق نے کیا ایسا رک رسول ﷺ

192

23 اکتوبر بروز ہفتہ کراچی آرٹس کونسل کے حسینہ معین ہال میں حریمِ ادب کراچی کے تحت نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ عقیدتوں سے بھرپور، جذبات سے مزین محافلِ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ ادب و ذوق کے لیے اپنی صلاحیتوں کے ادراک کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔ مدحتِ سرورِ کونینؐ کا شرف پانے والوں کے قلوب احترام، عقیدت، محبت اور سکینت کے ملے جلے تاثرات کا خزینہ بن جایا کرتے ہیں۔ یہ خوش گوار، قیمتی ساعتیں یقینا زیست کا سرمایہ بن جاتی ہیں، کیوں کہ آپؐ کی سیرت خدائی معیار ہے دنیا و آخرت کی فلاح کا۔
دکھی انسانیت کے لیے امید کا استعارہ، اندھیروں میں بھٹکتے نفوس کے لیے روشن چراغ کی مانند، انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر حقیقی رب کی بندگی سے روشناس کروانے والے رحمۃ للعالمینؐ، جن کی سیرت و سنت آج بھی روشن شاہراہ ہے اہلِ ایمان کے لیے۔
محفل کا آغاز رب کریم کے کلام سے ہوا۔ جامعہ کراچی کی طالبہ فضہ علیم نے سورہ آل عمران کی آیات کی تلاوت کی۔ حمدِ باری تعالیٰ کی سعادت قانتہ طاہرہ نے حاصل کی۔
محترمہ عالیہ زاہد اور ثمرین احمد کی مشترکہ و برجستہ نظامت، عقیدت و ندامت سے بوجھل دل اور بھیگی پلکوں کے ساتھ ہدیہ گل ہائے عقیدت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم میں نعتیہ کلام پڑھنے والے شعرا کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔
ناظمہ کراچی محترمہ اسماء سفیر، پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرہ عذرا رسول، ڈپٹی سیکرٹری حریمِ ادب غزالہ عزیز اور ان کی ٹیم کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس محفل کی صدر منتظم، نگران حریمِ ادب کراچی محترمہ عشرت زاہد کو ابتدائی خطاب کے لیے مدعو کیا گیا، جنہوں نے آرٹس کونسل کے ارکان، ذمے داران اور اپنے معاونین کی کاوشوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اوّلین کوشش یہ ہے کہ معاشرے میں مثبت ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ سیرتِ نبویؐ کے مختلف واقعات بھی پیش کیے جائیں گے تاکہ اسوۂ حسنہ سے رہنمائی کا جذبہ دلوں میں اجاگر ہوسکے۔ سیرتِ نبویؐ سے رہنمائی لینے والوں کے کردار جرأت و استقامت، ایثار و قربانی کے پیکر بن جایا کرتے ہیں۔ وہ ذاتِ گرامی جس کی مدحت و ستائش آسمانوں میں ہوا کرتی ہے اس کا حق زمین والے بھلا کیونکر ادا کرسکیں گے! بس یہ محبت و الفت جو الفاظ کا پیرہن اوڑھ کر انسانی دل و زبان سے جاری ہوجاتی ہے، یہی بارگاہِ بلند میں قبول و مقبول ٹھیری۔ اس جذبے کے ساتھ محترمہ ادیبہ فریال انصاری کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔
بھیجو اپنے نبیؐ پر درود و سلام
حوضِ کوثر کا پانی ہو ہمارا انعام
پیارے آقاؐ کی محفل یونہی سجتی رہے
میرے آنسو کی دو بوندیں کرجائیں کام
بھیجو اپنے نبی پر درود و سلام
بلاشبہ وہ الفاظ بھی اللہ کی نعمت ہیں جو شانِ رسالت بیان کرنے کے لیے کسی کے زبان و بیان کو میسر آجائیں۔ محترمہ اسماء صدیقہ کو نعتیہ کلام پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔انہوں نے اپنا کلام سنایا:
سرکارؐ کی خاطر سب کچھ ہے، یہ بات ہے اپنا سرمایہ
وہ رافت ہیں وہ رحمت ہیں، ہر ایک پہ ان کا ہے سایہ
ناموس پہ ان کی آنچ آئے، امت کو گوارہ کیسے ہو
مر جانے کو، مٹ جانے کو ہر ایک نکل کر ہے آیا
ہر مسلمان کی یہ تمنا کہ کاش اُس دور میں موجود ہوتے جو سیرتِ طیبہ کی تاریخ کا حصہ ہے ، مدحت ِشانِ مصطفیؐ کہتے اور دلوں میں سکینت کا نزول محسوس کرتے۔ محترمہ شاہدہ اسرار کنول کو شانِ رسالت میں کلام عقیدت پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا:
خیر الانام، شاہِ امم اور ذی ہشام
امت کے ہر گھڑی ہیں نگہبان مصطفیؐ
اللہ کے حبیب کا ہونے لگا اثر
عالم تمام اب ہے ثنا خوانِ مصطفیؐ
زینت کوثر لاکھانی صاحبہ نے اپنے منفرد انداز میں معراجِ نبی کے عظیم واقعے پر اپنا کلام پڑھ کر پیارے آقاؐ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کیا:
تعریف کیا بیاں ہو خدائے شکور کی
کس کو خبر ہے اس کے یوں غیبی امور کی
تھے منتظر یوں دید کے بیتاب سب ملک
جب آسماں پہ پہنچی سواری حضورؐ کی
سفرِ معراج کے ایک پُرکیف تصور سے آشنا ہونے کے بعد محترمہ ارم شفیق نے اپنا انعام یافتہ کلام پیش کیا:
گلشن میں پھول، پھول کی مہکار آپؐ ہیں
باغِ ارم کے مالک و مختار آپؐ ہیں
ہم کو نہیں ہے خوف کسی بات کا حضورؐ
جب حشر میں ہمارے طرف دار آپؐ ہیں
اس کے بعد محترمہ سمیرا غزل نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا:
نعت کہنے کا مجھے جب سے سلیقہ آیا
بس اسی وقت سے جینے کا طریقہ آیا
آج پھر نامِ محمدؐ تھا لبوں پر میرے
آج پھر چشمِ تصور میں مدینہ آیا
پروڈیوسر، اینکر پرسن محترمہ فرحانہ اویس نے حاضرین سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ہمارے لیے باعثِ فخر اور باعثِ نجات ہے۔ ہمیں سیرتِ نبویؐ کو منانے سے زیادہ اپنانے کی ضرورت ہے، یہی بعثتِ نبوی کا اصل مقصد ہے۔
محترمہ ناہید عزمی صاحبہ اپنے منفرد اندازِ کلام کے ساتھ محفل کو آگے بڑھاتی ہیں:
سبھی خیال و خواب میں ، زمین و آسمان میں
نظر کی بارگاہ میں ، دل و جگر و روح میں
صبا کے دستِ لمس پر ، حسین صبح و شام پر
لکھا ہوا جو نام ہے ، وہی جہانِ نور ہے
سکون اور شعور ہے
محترمہ پروین حیدر نے بعد از سلام اپنا کلام عقیدت پیش کیا :
میری فکرِ رسا بھی باوضو ہے
محمد مصطفی ؐکی گفتگو ہے
لکھا جس دن سے اس نے اسم احمد
میری نوکِ قلم بھی سرخ رو ہے
اینکر پرسن، جرنلسٹ محترمہ نصرت حارث نے سامعینِ محفل سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں حقوق العباد کو بہت اہمیت دی گئی اور تفصیل سے بیان کیا گیا۔ ہمارے نبیؐ کی مکمل سیرت انسانوں پر شفقت و نرمی سے عبارت ہے۔ آپؐ نے ہر مرد و عورت کو زندگی میں ایک دوسرے کو گنجائش دینے کی تاکید کی۔
ان کے خطاب کے بعد محترمہ آمنہ رومیصہ زاہدی کو کلام مدحتِ رسولؐ پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ان کے مترنم اندازِ بحر نے سماں باندھ دیا:
دعا یہ رنگ ایسے لا رہی ہے
گھٹا رحمت کی دیکھو چھا رہی ہے
یدِ بیضا نہ موسیٰ کا عصا اب
نہ روح اللہ کا دستِ شفا اب
ان کے بعدمحترمہ عزیزہ انجم صاحبہ نے اپنا کلام پیش کیا:۔
نعت کہنے کی سعادت پائی ، رب کی حد درجہ عنایت پائی
اپنے پرکھوں میں روایت پائی ، نعت اسباب شفاعت پائی
محترمہ نزہت عباسی سینئر شاعرہ کا نعتیہ کلام محفلِ رنگ و نور کی رونق بڑھا گیا:
باغ اور طرح کا ہے، صبا اور طرح کی
طیبہ کی فضا میں ہے، فضا اور طرح کی
کرنے کے لیے میری رگِ جاں کو معطر
آتی ہے مدینے سے ہوا اور طرح کی
اختتامی خطاب میں نگرانِ اعلیٰ حریم ادب اسماء سفیر نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت اور آپؐ کے دنیا سے جانے کے بعد کے حالات پوری دنیا کے لیے رہنمائی اور راہِ ہدایت کا اوّلین ذریعہ ہیں۔ آپؐ کا پیش کردہ نظام فلاحِ انسانیت پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے نفاذ کی ہر ممکن کوشش ہی امتِ مسلمہ کے ہر فرد کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ حق و باطل کی کشمکش اور اہلِ حق کی کامیابیوں پر مشتمل ہے۔
لبوں پر درود و سلام اور دلوں میں عمل کی جستجو جگاتی یہ محفل بارگاہِ رسالت میں قبولیت کی دعا کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔

حصہ