اسکول کی چھٹیاں اور ہم

157

(جماعت چہارم)
جب میرے امتحان ختم ہوء تو ایسا لگا کہ مجھے تو آزادی مل گئی۔ میں اپنی مرضی سے کھیلوں گا، میں صبح دیر تک آرام کروں گا، میں یہ باتیں اپنے آپ سے کررہا تھا کہ ایک دن میں ابو بڑے بھائی اور امی عشاء کی نماز کے بعد قرآن پڑھ رہے تھے۔ ابو نے بتایا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد بتایا ہے کہ ان دونوں کا امتحان لیا جائے کہ یہ اچھے کام کرتے ہیں یا برے کام۔ میں نے ابو سے پوچھا کہ ابو جان یہ جو ہم کھیل کود کرتے ہیں کیا ہم اپنا وقت برباد کررہے ہیں۔ ابو نے کہا: نہیں کھیلنا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے اور صحت تو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، کہ صحت کا بھی جواب دینا ہے۔ پھر ابو نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور ہم سب ہنسنے لگے۔ پھر میں ابو کی باتوں سے یہ سمجھا کہ ہمیں نماز بھی پڑھنی ہے۔ قرآن بھی پڑھنا اور امی ابو کا کہنا ماننا ہے اور کسی کو بھی تنگ نہیں کرنا اور ہم بس یہ باتیں کرکے سونے کے لیے چلے گئے اور پھر میں نے اور میرے بڑے بھائی نے سونے کی دعائیں پڑھیں اور پھر سو گئے۔ دوسرے دن ابو نے فجر کی اذان کے ساتھ ہمیں اٹھایا اور ہم پھر نماز پڑھنے گئے اور ناشتا کیا اور گیند اور بلا اٹھایا اور ہم بس کھیلنے کی تیاری پکڑ لی نہ ہمیں پڑھنا تھا نہ ہمیں ہوم ورک کرنا تھا اور بس ہم کرکٹ کھیل کی طرف روانہ ہوگئے اور ہمیں اتنا جوش تھا کہ چھکے کے چکر میں گیند ہمسایوں کے گھر چلی گئی اور بس کیا تھا میں اور میری ٹیم چھکے کا جشن منارہے تھے کہ اچانک ہمسایوں کے گھر کا دروازہ کھلا اورپھر آنٹی کی بڑبڑانے کی آواز آئی کہ ان بچوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جب میں نے ان کی آواز سنی تو میں نے ان سے معافی مانگی اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ رات ہم پھر جب قرآن پڑھنے بیٹھے تو میں نے ابو کا سارا قصہ بتایا تو میرے ابو یہ سن کر بہت خوش ہوئے پھر مجھے میرے ابو نے یہ بہت اچھی بات بتائی کہ معافی مانگنا ایک اچھی عادت ہے اور اللہ کی عبادت ہے۔

حصہ