شائستہ:’’یہ لیجیے امی، آپ کا قہوہ… میں نے اِس میں شہد ڈال دیا ہے۔‘‘
پھر وہ سسر اور اپنی بھی چائے بناکر لائونج میں آگئی۔
ہم سب اکٹھے لائونج میں شام کی چائے پیتے ہیں۔ شائستہ نے ٹی وی آن کیا، ایک ڈرامہ چل رہا تھا۔
شائستہ:’’امی یہ ڈرامہ آپ دیکھ رہی ہیں، کس قدر عیار اور چال باز عورت دکھائی ہے جو پورے خاندان کو اپنی چال بازیوں سے فساد میں مبتلا کررہی ہے۔ کیا کوئی عورت اس قدر عیار ہوسکتی ہے؟ اس طرح ڈراموں میں دکھانا صحیح ہے؟‘‘
ساس: ’’جی بیٹا، انسان چاہے عورت ہو یا مرد… جس کے دل میں خوفِ خدا نہ ہو وہی اس قدر گر سکتا ہے۔ آپ کی یہ بات کہ یہ چال بازیاں اس طرح ڈراموں میں دکھانا صحیح ہے یا نہیں… میں یہ کہوں گی کہ صحیح نہیں ہے۔ بے شک معاشرے میں یہ برائیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ دس، گیارہ فیصد خواتین اس نوعیت کی ہوں گی، لیکن اس طرح ان کی تشہیر کرنے سے یہ برائیاں مزید بڑھ رہی ہیں، جیسے پچھلے دنوں ایک خبر نظروں کے سامنے سے گزری کہ قاتل اور زیادتی کرنے والے شخص نے تفتیش کے دوران کہا کہ ’’یہ انداز اور طریقہ واردات میں نے ٹی وی کے ایک ڈرامے سے سیکھا‘‘۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ جرائم کے اور معاشرے میں فساد و نفرتیں پیدا کرنے کے جو طریقے ان ڈراموں کے ذریعے عوام الناس تک پہنچائے جارہے ہیں، اس کے منفی اثرات خصوصاً نئی نسل کو ضرور متاثر کررہے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے اور آپ میں سے اکثریت میری اس بات سے متفق بھی ہوگی۔ میں نے اپنے آس پاس دو تین ایسے واقعات دیکھے تو بڑی حیرانی ہوئی کہ کس طرح ان پروگراموں اور ڈراموں کے اثرات لوگوں پر مسلط ہوتے جارہے ہیں۔
ثانیہ متوسط طبقے کی ایک معمولی شکل کی پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ اس کی شادی ایک دور پرے کے رشتے دار لیکن پڑھے لکھے لڑکے سے ہوئی۔ ثانیہ کا سسرال بھی اگرچہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن ایک چھت تلے سب اتفاق و محبت سے رہتے تھے۔ بڑی بہو ایک سلیقہ مند مگر کم پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ مختصر یہ کہ یہ ایک پُرسکون گھرانہ تھا۔ ثانیہ نے اس گھر میں قدم رکھا تو اسے سارے گھر والے اپنے سے کم تر نظر آئے۔ بے شک وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ضرور تھی لیکن اعلیٰ تربیت سے محروم تھی۔ خصوصاً ساس جب بڑی بہو کے کسی کام کی تعریف کرتی تو اس سے برداشت نہ ہوتا کہ ایک معمولی پڑھی لکھی لڑکی اس پر سبقت لے جائے۔ اس نے پہلے تو کوشش کی کہ کسی طرح بڑی بہو کی عزت ساس کی نظروں میں گرا دے، لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ ساس سیدھی سادی خاتون تھی، وہ اس کے راستے کا کانٹا نہیں تھی، لیکن اسے پھر بھی منظور نہ تھا کہ وہ اس مشترکہ خاندان کا حصہ بن کر ان کی ماتحت یا فرماں بردار ہوکر زندگی گزارے۔ آخرکار اس نے شوہر کو جیٹھ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ دونوں بھائیوں میں نااتفاقی سامنے آئی تو دونوں دیورانیاں بھی کھل کر ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگیں۔ ثانیہ کے لیے یہ سنہری موقع تھا۔ لہٰذا اس نے شوہر کو راضی کیا کہ اِس لڑائی جھگڑے سے بہتر ہے ہم اپنا الگ گھر بنائیں۔ اس طرح وہ اس خاندان سے الگ ہوگئی اور ماں بے چاری منہ دیکھتی رہ گئی۔
…٭…
نورجہاں: (ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتے ہوئے) دیکھا نورین! کتنی چالاک ہے یہ لڑکی، اس نے لڑکے کو پٹانے کے لیے پہلے اس کی ماں کو پٹایا۔
نورین: (اپنی دوست کی بات پر چونکی) ہاں یار کل بھی ایک ڈرامے میں ایسا ہی دکھا رہے تھے، کیا ایسا ممکن ہے؟
نورین رات کو سونے کے لیے پلنگ پر لیٹی تو اسے شام کو دیکھے ہوئے ڈرامے کے سین یاد آگئے۔ وہ مسکرائی اور سوچنے لگی کیا ایسا ممکن ہے؟
اگلے دن اماں سے اُس نے سنا کہ پڑوس میں رہنے والی رضیہ خالہ کی طبیعت خراب ہے۔ خالہ رضیہ کے تین بیٹے تھے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی میں رہتی تھی۔
نورین: (کچھ سوچتے ہوئے) اماں میں بھی چلوں آپ کے ساتھ خالہ رضیہ کے گھر اُن کی طبیعت پوچھنے…؟ آپ جارہی ہیں نا…!
اماں: ابھی تو نہیں، شام کو جانا چاہتی تھی۔ خیر یوں کرتے ہیں ابھی چلتے ہیں۔
نورین اور اماں، رضیہ خالہ کے گھر پہنچیں تو واقعی اُن کی طبیعت بہت خراب تھی۔ سارا گھر بکھرا ہوا تھا۔ بچے تینوں دفتر جاچکے تھے، شوہر بے چارہ کچن میں بیوی کے لیے چائے بنا رہا تھا۔
نورین: چاچا جی یہ آپ کیا کررہے ہیں! لائیں میں چائے بنا دیتی ہوں۔
چائے بنا کر اس نے بکھری ہوئی ساری چیزوں کو سمیٹا اور قرینے سے ان کی مخصوص جگہوں پر رکھا۔ اماں نورین کا سلیقہ دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ گھر میں تو دس مرتبہ اماں اُسے آوازیں دیتیں تب جاکر وہ بمشکل کوئی کام کرتی۔
اس طرح پورا ہفتہ وہ لگاتار خالہ رضیہ کی نہ صرف تیمارداری کرنے جاتی رہی بلکہ کچن بھی سنبھالتی۔ خالہ رضیہ اور ان کے شوہر نورین سے بڑے متاثر ہوئے۔ بڑے بیٹے کی منگنی تو رضیہ خالہ اپنی بھانجی سے کرچکی تھیں، عنقریب شادی بھی ہونے والی تھی۔ لہٰذا انہوں نے سوچا کہ دوسرے بیٹے کے لیے نورین مناسب رہے گی۔
بیٹے نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن رضیہ خالہ کی بیٹی نے ماں سے اتنا ضرور کہا کہ نورین کی ماں بہنیں بہت تیز طرار ہیں، اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے گا۔
یہ حقیقت تھی کہ نورین کی دونوں بڑی بہنیں اپنے اپنے سسرال میں صرف چند ماہ ہی گزار سکیں۔ آخر الگ الگ گھر بسا لیے۔ لیکن رضیہ خالہ کو نورین نے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اس طرح مٹھی میں لیا ہوا تھا کہ انہوں نے بیٹی سے کہا: بے شک اس کی بہنیں تیز طرار ہیں لیکن نورین ان سے مختلف ہے۔ لہٰذا رضیہ خالہ کی مرضی سے نورین دانیال کی دلہن بن کر اس گھر میں داخل ہوگئی۔ دونوں بیٹوں کو بیاہ کر رضیہ خالہ خوش ہوگئیں کہ اب گھر کی ذمہ داریاں کچھ کم ہوجائیں گی۔
نورین نے یہاں بھی چالاکی سے کام لیا، اس نے نہ صرف ساس کو جیٹھانی سے بدظن کیا بلکہ شوہر کو دوسرے شہر میں ملازمت کے لیے زور دینے لگی۔ اس طرح وہ شوہر کے ساتھ دوسرے شہر (لاہور) منتقل ہوگئی۔ بوڑھی ساس کی خدمت اور گھر کی تمام ذمہ داری جیٹھانی کے سر آگئی اور ساس منہ دیکھتی رہ گئی۔
بے شک اس نوعیت کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے، لیکن آج کل ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کہ تشویش ناک بات ہے، بلکہ بعض اوقات تو یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی عورت اس حد تک گر سکتی ہے! مثلاً ایک محفل میں ایک خاتون نے دوسری خاتون کا ذکر کیا کہ وہ حاملہ تھی، اُسے اُس کی ساس نے جان بوجھ کر دھکا دے کر گرایا تاکہ اُس کا حمل ضائع ہوجائے، لیکن ’جسے خدا رکھے اسے کون چکھے‘ کے مثل اُس عورت کا بچہ صحیح سلامت رہا۔ اس خاتون کا واقعہ سن کر میں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی ماں اپنی اولاد کی خوشیوں کو یوں برباد کردے۔ یا تو وہ خاتون ساس پر ’’الزام‘‘ لگارہی ہے، یا اس واقعے میں کوئی حقیقت نہیں۔
غرضیکہ اس نوعیت کے سازشی ڈرامے یا اسلامی تہذیب سے ہٹ کر جو پروگرام پیش کیے جارہے ہیں انہوں نے ہماری معاشرتی زندگی پر کہیں نہ کہیں ضرور اثرات چھوڑے ہیں، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہاں ایک بات کہوں گی جس کی لوگ تائید کریں گے کہ اگر گھر والوںکی طرف سے بچوں کی تربیت خصوصی طور پر اسلامی احکامات کو مدنظر رکھ کر کی جائے اور پھر انہیں اچھا ماحول اور اچھی صحبت میسر ہو تو وہ ایسے سازشی طریقوں کو اپنانے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔