ہم کیوں مسلمان ہوئے

260

پروفیسر رجاگا رودی (فرانس)
نامور سیاست دان‘ مفکر‘مصنف اور دانشور رجا گارودی 1913ء میں مارسیلز (فرانس) میں پیدا ہوئے‘ 1939ء میں جنگِ عظیم کے آغاز پر وہ فرانسیسی فوج میں بھرتی ہوئے اور فرانس کی شکست پر وہ بھی گرفتار ہوئے اور تین سال تک ایک جنگی قیدی کی حیثیت سے الجزائر کے ایک کیمپ میں مقید رہے۔ جنگ کے خاتمے پر وہ رہا ہوئے اور 1945ء کے انتخابات میں فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 1985ء تک مسلسل اس منصب پر منتخب ہوتے رہے۔ 1959ء سے 1962ء تک وہ سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ تقریباً بارہ سال تک فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین رہے اور اس دوران میں انہوں نے Probems of Maxim, The theory of Materialism اور Leninn’s Studies کے عنوان سے تین کتابیں تصنیف کیں۔ وہ پارٹی کے نظریاتی جریدے کے ڈائریکٹر بھی تھے اور انہوں نے مارکسزم کی تعلیم و تحقیق کی خاطر ایک انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا تھا مگر طویل مطالعے اور گہرے غور وخوض کے نتیجے میں وہ بتدریج اسلام کے قریب آتے چلے گئے‘ حتیٰ کہ 1982ء میں انہوں نے باقاعدہ مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور رجاگارودی کا نام اختیارکیا۔ قبولِ اسلام کے بعد موصوف محترم نے مغربی تہذیب و ثقافت کی مذمت اور اسلام کے اثبات میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں Islam the Religion of Future اورIslam Plans for the Futureخاص اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ صہیونیت کو دنیا کے لیے ناسور سمجھتے ہیں‘ جس کا اظہار انہوں نے The Case of Israel میں کیا ہے۔ یہ کتاب منظرِ عام پر آئی تو یورپ بھر میں تہلکہ مچ گیا اور یہودیوں اور یہود نواز حلقوں نے بڑا واویلا گیا اور نوبت مقدمہ بازی تک جا پہنچی۔آج کل وہ Palestine, the Land of the Prophets پر کام کر رہے ہیں۔ رجا گارودی نے سعودی عرب‘ عرب امارات اور ایران کے علاوہ مسلم تنظیموں کی دعوت پر ہندوستان کا دورہ بھی کیا ہے اور مختلف یونیورسٹیوں میں انہوں نے متعدد لیکچر بھی دیے ہیں۔
مختلف جرائد و رسائل کو انٹرویو دیتے ہوئے رجا گارودی نے اپنے قبول اسلام کی سرگزشت یوں بیان کی ہے:
’’میں سب سے پہلے اس امر کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں عقل و شعور کی وادی میں قدم رکھتے ہی کمیونسٹ ہو گیا تھا اور اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ میرے والدین کٹر دہریے تھے اور ہر قسم کے مذہب کو فریب سے تعبیر کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اس صدی کی تیسری دہائی تک پہنچتے پہنچتے امریکا سے اٹھنے والا الحاد و دہریت اور فکری انارکی کا زبردست طوفان پورے یورپ میں پھیل گیا تھا اور خصوصاً فرانس کو اس نے غیر معمولی طور پر متاثر کیا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں فرانس کے تمام ادیب‘ شاعر‘ صحافی‘ اساتذہ‘ نوبل انعام یافتہ شخصیات اور مصور و فن کار کمیونزم کے اسیر ہو گئے تھے اور میری سرگرمیوں اور جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ میں بیس برس کی عمر ہی میں (یعنی 1923ء میں) فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کونسل کا رکن بن گیا تھا۔
جیسا کہ ابھی بیان کر چکا ہوں یہ دور یورپ میںفکری انارکی اور عملی انتشارکے عروج کا دور تھا۔ ہٹلر اسی زمانے میں نمودار ہوااور دیکھتے ہی دیکھتے جرمن قوم کا ہیرو بن گیا۔ ذاتی طور پر میرا یہ عالم تھا کہ ان گنت لوگوں کی طرح ساری آسائشوں اور عیش و مسرت کے ذرائع رکھنے کے باوجود ذہنی آسودگی اور روحانی سکون سے محروم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے زندگی کسی خلا میں گزر رہی ہے۔ جب بھی تنہا ہوتا غور کر تاکہ ساری مادی سہولتوں کے باوجود آخر میں مضطرب و غمگین کیوں ہوں اور یورپ کا معاشرہ ہر طرح کی نعمتوں کے باوجود سکون و اطمینان سے کیوں محروم ہے؟ چنانچہ ہفتوں اور مہینوں کے غوروفکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کائنات خود بہ خود نہیں بنی اور خدا کا سہارا روح کی بنیادی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں عیسائیت پر ایمان لے آیا اور ’’کیتھولک مسیحی نوجوانوںکی تنظیم‘‘ کا چیئرمین بن گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے بھی میرا تعلق بدستور قائم رہا اور کسی کمیونسٹ نے مسیحی تنظیم سے میرے تعلق کو ہدفِ تنقید نہ بنایا۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ کمیونزم اصل میں عیسائیت کی وہ اصطلاح ہے جو اقتصادی مسائل کے حل کے لیے وضع کی گئی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو 1939ء میں ملکی سالمیت کی خاطر فوج میں بھرتی ہوگیا اور 1940ء میں فرانس کو جرمنی کے مقابلے میں شکست ہوئی تو مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا اور ہم وطنوں کے ساتھ الجزائر کے ایک جنگی کیمپ میں منتقل کروا یا گیا۔ یہاں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے مجھے مسلمانوں اور اسلام سے سب سے پہلے متعارف کرایا اور آخر کار میری نظریاتی اور عملی زندگی کے لیے سنگِ میل بن گیا۔ ہوا یوں کہ کیمپ کمانڈر نے ایک روز برہم ہو کر مجھے گولی مارنے کا حکم دے دیا اور اس مقصد کی خاطر دو فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ دونوں فوجی مسلمان تھے۔ انہوں نے مجھے گولی مارنے سے انکار کردیا اور جان بخشی کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سب کچھ میرے سامنے ہوا۔ میں عربی زبان سے نابلد تھا اس لیے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تاہم زندہ بچ جانے کی خوشی سے زیادہ تجسس یہ تھا کہ وہ کون سے اسباب ہیںجنہوں نے اجنبی فوجیوں کے دلوں میں میرے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کر دیے۔
اس مقصد کی خاطر میں نے ایک ایسے الجزئری مسلمان کی مدد حاصل کی جو عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان سے بھی واقف تھا۔ اس نے بتایا کہ مسلمان فوجیوں نے یہ کہہ کر مجھ پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا کہ ’’اسلام نہتے انسان پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
اس واقعہ نے میرے ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ الفاظ میرے ذہن میں گونجتے رہتے اورمیں سوچتا رہتا کہ وہ کیسا مذہب ہے جس نے اپنے پیروکاروںکو اس قدر اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پابند بنا دیا ہے۔ چنانچہ جنگ ختم ہونے پر جب میں رہا ہوا تو اوّلین فرصت میں‘ میں نے اسلامی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا اور سوربورن یونیورسٹی میں دس سال تک ’’اسلامی اخلاقیات‘‘ کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔
اسی دوران مجھے دوبارہ الجزائر جانے کا موقع ملا اور میری ملاقات الجزائری علما کی تنظیم کے صدر شیخ بشیرالابراہیمی سے ہوئی اور ان کی شخصیت میں مجھے اسلام عملی شکل میں نظر آیا اور ان کی وساطت سے میں الجزائر کے قومی ہیرو جناب عبدالقادر الجزائری کے حالات سے آگاہ ہوا اور ان کے شان دار مجاہدانہ کردار نے میرے دل دماغ کو مسخر کر لیا۔ میں الجزائر پر فرانس کے استعماری قبضے کے سخت خلاف تھا اور اخبارات میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا تھا۔
1945ء میں فرانسیسی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہو گیا تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے جزوقتی طور پر تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اس زمانے میں مجھے کمیونزم‘ عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ کرنے کا بھرپور موقع میسر آیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بحیثیت ضابطۂ حیات عیسائیت میں کوئی دَم خم نہیں اور یہ اپنے پیروکاروں میں کسی نوعیت کا اخلاقی انقلاب پیدا کرنے سے عاجز ہے۔ کلاس روم میں سرمایہ داری نظام پر بھی خوب بحثیں ہوئیں اور میں اور میرے شاگرد یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوتے کہ عالمِ انسانی کے سارے بحرانوں‘ معاشرتی اور اخلاقی انتشار‘ اقتصادی ناہمواری اور روحانی خلا کا باعث سرمایہ داری نظام اور مغربی تہذیب ہے۔چنانچہ اسی دور میں ایک مرتبہ یونیسکو کے زیر اہتمام ثقافت کے حوالے سے ایک عالمی مذاکرہ ہوا۔ مجھے بھی اس میں مدعو کیا گیا اور میں نے برملا کہا کہ مغربی تہذیب و ثقافت نے انسان کو نہ صرف انسانیت سے دور کیا ہے بلکہ روح جیسی مقدس چیز کا بھی مذاق اڑایا ہے۔
جہاں تک مارکسزم کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی اونچ نیچ کے خلاف قابلِ قدر عملی اور تحقیقی خدمات انجام دیں‘ مگر بدقسمتی سے اس نظام کی ساری تگ و تاز کا مرکز و محور طبقاتی کشمکش کے سوا کچھ نہیں اور انسان کی روحانی اور اخلاقی ضرورتوں کو اس میں کلیتاً نظر انداز کیا گیا ہے چنانچہ انسانیت کے ساتھ مجموعی طور پر جو سلوک روس میں روا رکھا گیا اور روس نے نئی استعماری طاقت کی حیثیت سے جو طرزِ عمل مشرقی یورپ کے ساتھ اختیار کیا وہ اتنا بہیمانہ تھا کہ جب روس نے چیکو سلواکیہ پر فوج کشی کی تو میرے صبر کا بند ٹوٹ گیا اور میں نے برملا احتجاج کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے 1972ء میں کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا جس کا مجھے فی الحقیقت بہت صدمہ ہوا۔
میں اہل یورپ کے اس ظالمانہ رویے پر بھی بہت پریشان ہوا جو انہوں نے فلسطین کے بارے میں اختیار کیا۔ اسکولوں کے نصاب میں بائبل کی یہ تحریف شامل کر دی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارضِ فلسطین کو یہودیوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ میں نے اس رویے کے خلاف فرانس کے مشہور اخبار ’’لی موند‘‘میں مضامین لکھے جس کے نتیجے میں مجھے اور اخبار کے ناشر کو خوب ہدفِ تنقید بنایا گیا حالانکہ یہ حقیقت یورپ کے کسی اہل علم سے پوشیدہ نہیں رہی کہ صہیونیت کسی مذہبی فرقے کا نام نہیں بلکہ یہ دراصل ایک دہشت پسند‘ انسان دشمن اور مکروہ عزائم رکھنے والی تنظیم ہے جس کا بنیاد اٹھارہویں صدی میں ایک ملحد و خبیثت طالع آزما تھیوڈور ہرٹزل نے رکھی اور انسانیت کو ناقابل تلافی المیوں کے سپرد کر دیا۔ افسوس اس نے انجیلِ مقدس میں جو تحریف کی‘ یورپ کے مسیحی حلقوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
مسلسل مطالعے‘ غور و فکر اور مغربی تہذیب‘ کمیونزم اور صہیونیت اور اسلام کے تقابلی تجزیے کے بعد میں بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی وہ دینِ واحد ہے جو عقلی اور وجدانی دونوں اعتبار سے خدا کی وحدانیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ یہ وہ مکمل اور جامع ضابطۂ حیات ہے جس کی جستجو میں عیسائیت اورکمیونزم میں کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ باالفاظ دیگر میں ایسے عقیدے کی تلاش میں تھاجو نجی اور اجتماعی زندگی کے جملہ تقاضوں پر محیط ہو‘ مذہب اور سماج کو ساتھ لے کر چلتا ہو اور بندے اور خدا کے تعلق کو مضبوط بناتا ہوا ور یہ خصوصیات مجھے صرف اسلام میں نظر آئیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں باون مقامات پر غربا اور ان کے مسائل کا ذکرآیا ہے اور اسلامی تعلیمات میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ وہی شخص خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے جس کے تعلقات و معاملات اپنے ہم جنسوں سے بہتر اور عدل و توازن پر مبنی ہوں۔ اس کے برعکس بلاشبہ عیسائیت کسی حد تک انسان کے اندرون کی اصلاح کرتی ہے مگر عملی زندگی میں یہ ایک قدم بھی ساتھ نہیں چلتی۔ یہاں خدا اور بندے کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور یہ المیہ حضرت مسیح کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ہی جلد ظہور پزیر ہوگیا تھا۔ رومن دور میں حکمران طبقے کی خوشنودی کے لیے مسیحی علما نے فتویٰ دے دیا کہ جو شخص کاروبارِ حکومت سے دور رہتا ہے اور اسلحہ سے بے تعلق ہو جاتا ہے وہ خدا کا زیادہ مقرب ہے۔ چنانچہ انسانوں کی ذاتی زندگی اور سیاسی کردار میں بُعد پیدا ہوتا چلا گیا۔ چرچ نے مقتدر طبقے سے مسلسل مصالحت کا روّیہ اختیار کیے رکھا حتیٰ کہ یہ عملی زندگی سے دور ہٹتا چلا گیا۔
اس کے برخلاف اسلام ایک متحرک‘ انقلابی اور زندہ مذہب ہے۔ یہ مختلف مسائل کا عقلی اور قابلِ عمل حل پیش کرتا ہے اور ہر دور کے انسان کو زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں رہنما اصول دیتا ہے۔ قرآن کو بغور پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ یہ بہترین سوشل جسٹس کا علمبردار ہے اور اقتصادی‘ سیاسی‘ ثقافتی‘ تمدنی اور اخلاقی شعبوں میں ہر مرد و زن کی رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن کا اصل موضوع د انسان ہے چنانچہ اس کے مطالعے سے صاف نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان سے بے حد محبت ہے اور انسان کو دنیاوی اور روحانی طور پر روبہ ترقی اور خوش حال اور مطمئن دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگرصاحبانِ اقتدار قرآنی احکام کو عملاً نافذ کر دیں تو کسی شعبے میں کوئی الجھن نہ رہے اور انسانوںکے سب دکھ دلدر دور ہو جائیں۔ سارے مسائل کا واحد سبب یہ ہے کہ خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور انسان انسان کا آقا و مولیٰ بن گیا ہے ورنہ خدا تو اپنے بندوں کو دکھی اور مصیبت زدہ نہیں دیکھنا چاہتا۔
یہ تھیں وہ نظریاتی اور عملی خوبیاں جنہوں نے میرے دل و دماغ کو مسخر کر لیا اور میں حلقۂ بگوش اسلام ہو گیا اس طرح گویا میں نے اپنی کھوئی ہوئی منزل پالی اور ایک بامقصد زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔

حصہ