مسلم معاشروں کی سماجیات کا تحفظ کیسے کیا جائے؟

528

اگرچہ 1857ء کی جنگ آزادی میں ہندو بھی شامل تھے لیکن یہ جنگ اپنی اصل میں مسلمانوں کی جنگ تھی۔ اس جنگ کی علامتی اہمیت غیر معمولی تھی۔ لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو بہرحال شکست ہوگئی۔ تاہم 1857ء کی جنگِ آزادی کی شکست صرف ’’عسکری شکست‘‘ تھی، اور یہ صرف برصغیر کا معاملہ نہیں تھا، مسلم دنیا میں یورپی طاقتوں کا تسلط ابتدائی مرحلے میں صرف ایک عسکری غلبہ تھا۔ اسی غلبے نے مسلم دنیا میں ردعمل کی دو صورتیں پیدا کیں۔ پہلی صورت یہ پیدا ہوئی کہ مذہبی طبقے نے مغرب کو یکسر مسترد کردیا اور وہ اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا۔ ردعمل کی دوسری صورت یہ پیدا ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا جو مغرب سے بری طرح مرعوب تھا۔ مسلم دنیا میں اس طبقے کی سب سے بڑی علامت سرسید تھے۔ سرسید کے فکر و عمل نے مغرب کے عسکری غلبے کو تہذیبی غلبے میں تبدیل کردیا۔ مسلم دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی مغرب سے مرعوب طبقے نے یہی کیا۔ اس کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں مغرب ایک تہذیبی سیلاب بن کر ابھرا، اور اس سیلاب نے مسلم معاشروں کی سماجیات کے تحفظ کے مسئلے کو سب سے بڑا مسئلہ بنادیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن… مسلم دنیا اس مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ’’سیاسی آزادی‘‘ تہذیبی اور سماجی آزادی میں تبدیل نہ ہوسکی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی آزادی حقیقی سیاسی آزادی بھی ثابت نہ ہوسکی۔ یورپی طاقتیں مسلم معاشروں سے چلی گئیں مگر ہر جگہ مقامی غلاموں کے طبقے کو اپنے آلۂ کار کے طور پر چھوڑ گئیں، اور یہی طبقہ گزشتہ ساٹھ سال سے مسلم دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔ اس طبقے کی حکمرانی اور مغرب کی عالمگیر بالادستی نے مسلم معاشروں میں سماجیات کا ایک بڑا بحران پیدا کیا ہوا ہے۔ مسلم معاشروں میں انسانی رشتے مادی اور معاشی رشتوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ خاندان کا ادارہ کمزور پڑرہا ہے۔ طلاق کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ تعلق کی جگہ تعلقات لے رہے ہیں۔ اسلامی علوم و فنون میں اضمحلال کی کیفیت ہے۔ مسلم معاشروں کی زبانیں کمزور پڑرہی ہیں اور ان کا علم اور استعداد سکڑ رہی ہے۔ مغربی زبانیں سائنس اور ٹیکنالوجی اور کاروبار کی زبانیں بن کر مسلم معاشروں میں وہ مقام حاصل کررہی ہیں جو صرف ان زبانوں کا حق ہے جن میں اسلامی علوم و فنون کا بے مثال سرمایہ موجود ہے۔ مسلم معاشروں کی درویشی، ثقافتی اوزاع دم توڑ رہی ہیں اور مغربی ثقافت کی اوزاع مسلم معاشروں میں توانا ہوتی جارہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں سوال یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں سماجیات کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ اور اس کوکیسے تقویت فراہم کرکے مسلم معاشروں میں مطلوب، مقصود اور مرغوب بنایا جائے؟ اس سلسلے میں اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل ایک اہم بات کہی تھی۔ اقبال نے کہا تھا ؎
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
اقبال کے اس شعر کا تاریخی تناظر میں یہ مفہوم ہے کہ مسلم دنیا نیم بیدار اور نیم خوابیدہ تھی۔ اس کی مجموعی قوت ِحیات کم ہوگئی تھی اور اسے ایک نئے تحرک کے لیے خارجی دشمن کی ضرورت تھی۔ مغربی اقوام نوآبادیاتی طاقتیں بن کر مسلم معاشروں میں آئیں تو مسلم شعور بیدار اور متحرک ہوا۔ اس بیداری اور تحرک کا نقطۂ عروج برصغیر میں دیکھنے میں آیا جہاں دشمن کے تصور نے 1857ء کی جنگِ آزادی برپا کی، دشمن کے تصور نے اکبرالہ آبادی کی شاعری تخلیق کی، اقبال کی شاعری کو جنم دیا، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علمِ کلام کو تخلیق کیا، دیوبند قائم کرایا، ندوۃ العماء کی بنیاد رکھی، افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا کے خلاف جہاد کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو دشمن کا یہ تصور ہماری تہذیب میں تقریباً اپنے امکانات پورے کرچکا۔ البتہ دشمن کے اس تصور کو اگر ہم مغرب کے بجائے باطل کی اصطلاح میں ڈھال لیں اور اس کا اطلاق صرف مغرب پر کرنے کے بجائے پوری دنیا کے فکری سرمائے پر کریں تو یہ تصور آج اور آنے والے کل میں ہمارے لیے کارآمد ہوسکتا ہے اور ہم اپنی تہذیب اور سماجیات کے تحفظ اور فروغ میں اس سے مزید کام لے سکتے ہیں۔ لیکن امتِ مسلمہ کی ضرورت صرف دشمن کا تصور نہیں ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خدا اور انسانوں کے ساتھ اپنے تعلق کو ’’ضرورت‘‘ کے بجائے ’’محبت‘‘ پر استوار کریں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری سماجیات خدا اور انسان کے ساتھ ہمارے تعلق کا حاصل ہے۔ لیکن اس اجمال کی تفصیل کیا ہے؟
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں خدا اور انسان کا تعلق ایک زندہ تعلق ہے مگر اس تعلق میں ’’محبت‘‘ کم ہے ’’ضرورت‘‘ زیادہ ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق کا اظہار عبودیت کے جذبے میں ہوتا ہے اور اسلامی تہذیب میں عبودیت کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے۔ مگر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کی اکثریت یا تو ’’عادتاً‘‘ نماز پڑھتی ہے یا پھر اُسے جنت اور دنیا درکار ہوتی ہے اور وہ دوزخ سے نجات چاہتی ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق کی اس صورت میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جنت کی طلب اور جہنم سے نجات کی تلقین کی ہے اور بندہ جوتے کا تسمہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا پابند ہے۔ لیکن عبودیت کی اصل روح اور اس کا بلند ترین معیار یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس لیے کی جائے کہ وہ ہے ہی عبادت کے لائق۔ چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت اگر جنت اور دنیا کے حصول اور دوزخ سے نجات کے لیے عبادت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں، مگر ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوںکی آبادی میں دس بیس کروڑ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو خدا کی عبادت صرف اس لیے کریں کہ وہ ہے ہی عبادت کے لائق۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کا تصور یہ ہے کہ مساجد دراصل مسلمانوں کے روحانی مے خانے ہیں جہاں مسلمان چوبیس گھنٹے میں پانچ بار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے جامِ محبت پینے کے لیے جاتے ہیں۔ ایک اور تناظر میں دیکھا جائے تو مساجد مسلمانوں کے روحانی، نفسیاتی اور جذباتی ’’بیوٹی پارلر‘‘ ہیں جہاں مسلمان رات دن میں پانچ بار اپنی روح، اپنے جذبات، اپنے احساسات کی تزئین و آرائش کے لیے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مسلمان مساجد اور نماز کو اس نظریے سے دیکھتے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے ’’خدا مرکز‘‘ معاشرے تو ہیں مگر حقیقی معنوں میں ’’خدا پرست‘‘ معاشرے نہیں ہیں، اور جب تک مسلم معاشرے حقیقی معنوں میں خدا پرست معاشرے نہیں بنیں گے اُس وقت تک نہ ہم حقیقی اسلامی سماجیات پیدا کرسکیں گے نہ پہلے سے موجود مسلم سماجیات کے تحفظ اور اس کو فروغ دینے کے قابل ہوسکیں گے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم معاشرے میں یہ شعور عام تھا کہ ہماری سماجیات ہماری مابعدالطبیعات یا Meta Physics سے براہ/ راست متعلق ہے۔ مثال کے طور پر خاندان کا ادارہ توحید کا سماجی مظہر ہے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کا تعلق محض دو افراد کا تعلق نہیں بلکہ یہ بہت بڑے کائناتی حقائق کی علامت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا کے سوا کسی کے لیے سجدہ واجب نہیں ہے لیکن اگر ہوتا تو بیوی شوہر کو سجدہ کرتی۔ بہت لوگ اس حدیث شریف کو سماجی یا نفسیاتی زاویے سے دیکھتے ہیں` حالانکہ اس حدیث کا تعلق الٰہیاتی حقائق سے ہے۔
خاندان کا ادارہ مسلم سماج کی ایک بہت بڑی قوت ہے، اور یہ قوت اسے اسلام سے فراہم ہوئی ہے۔ لیکن 20 ویں صدی میں سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظاموں نے انسانی تعلق کو معاشیات کے رنگ میں رنگ دیا ہے اور انہوں نے انسانی فطرت کے بارے میں اس خیال کو عام کیا ہے کہ انسان بنیادی طور پر خودغرض اور مفاد پرست ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی میں مسلم معاشروں میں بھی خاندان کے ادارے پر معاشیات کا گہرا اثر ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اب بہت سے انسانی تعلقات کی بنیاد محبت کے بجائے ’’معاشی یا سماجی افادے‘‘ پر استوار نظر آتی ہے اور مسلم معاشروں میں بھی محبت ایک ایسی شے یا Commodity بنتی جارہی ہے جس کا کوئی ’’خریدار‘‘ نہیں ہے۔ مذہبی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں کے زیراثر چلی گئی ہے اور آج کل کی فلموں، ڈراموں میں ’’رومانس‘‘ کے سوا کیا ہوتا ہے! مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے یہاں ’’رومانس کی شادیوں‘‘ پر بھی معاشیات کا غلبہ ہوتا ہے اور ہمارے نوجوان کافی ’’دیکھ بھال‘‘ کر رومانس کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ ’’رومانس‘‘ بھی ’’معاشی‘‘ ہوگیا ہے، اور اب رومانس کرنے والے بھی ’’انسان‘‘ سے زیادہ انسان کے ’’معاشی پس منظر‘‘ کو اہمیت دیتے ہیں۔ ماں باپ کا تعلق بہت گہرا اور قریبی ہوتا ہے لیکن اب ’’بہت‘‘ نہیں تو ’’کافی‘‘ ایسا ہوتا ہے کہ اگر باپ کے مرنے سے گھر کی معیشت متاثر نہ ہو تو باپ کے مرنے کا غم کم ہوجاتا ہے۔ عام تجربہ ہے کہ معاشی فرق بہنوں اور بھائیوں کے تعلق پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ معاشی کمزوری ’’تعلق‘‘ کی کمزوری بن جاتی ہے۔ حالانکہ محبت کا مطلب یہ ہے کہ فرد صرف انسان یا رشتے کی بنیاد پر اہم ہو، یا اگر کسی کو معاشرے میں فضیلت حاصل ہو تو تقوے اور علم کی بنیاد پر حاصل ہو، کیونکہ اسلام صرف انہی دو فضیلتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسانی تعلقات کو محبت کی بنیاد پر استوار کیے بغیر ہم اپنی سماجیات کا نہ تحفظ کرسکتے ہیں، نہ اسے فروغ دے سکتے ہیں۔ لیکن محبت کوئی مجرد تصور یا محض دعویٰ نہیں۔ محبت کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ محبت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ محبت کرنے والا معاف کرنے والا ہو۔ جو محبت معاف کرنا نہیں سکھاتی وہ محبت کا دھوکا ہوتی ہے۔ محبت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انسان زیادہ دینے والا اور کم لینے والا ہو۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہم محبت کا دعویٰ تو بہت کرتے ہیں مگر ہم اپنے ہر تعلق میں زیادہ ’’لینے والے‘‘ بن گئے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم ’’لینا‘‘ کبھی نہیں بھولتے البتہ ’’دینا‘‘ اکثر بھول جاتے ہیں۔
اس سے ثابت ہے کہ ہمارے محبت کے اکثر دعوے جھوٹے اور خودفریبی اور خود پرستی کے مظاہر کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنی سماجیات کو بچانا ہے تو معاشی معنوں میں ہی نہیں نفسیاتی اور جذباتی معنوں میں بھی دینے والا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہے، جو لیتا بہت کم ہے اور دیتا بہت زیادہ ہے۔
مسلم دنیا کے مذہبی طبقات اس بات پر اکثر چراغ پا رہتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں ’’غیر اسلامی‘‘ ثقافتوں کی یلغار بڑھ گئی ہے اور ہماری اخلاقیات اور سماجیات اس سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ لیکن ان طبقات کو اس امر کو جاننے کی توفیق کبھی نہیں ہوتی کہ یہ ثقافتی یلغار مسلم معاشروں کے ثقافی خلا کی وجہ سے بڑھی بھی ہے اور مؤثر بھی ہوئی ہے، اور مسلم معاشروں کے ثقافتی خلا کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اسلام کو ثقافتی قوت میں ڈھالنے یا Culturalize کرنے کی اہلیت سے تقریباً محروم ہوچکے ہیں۔ ہم مغرب کو بہت برا بھلا کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ مغرب نے اپنے عقائد و نظریات کو اس طرح کلچر میں ڈھالا ہے کہ ایک پوری ’’ثقافتی کائنات‘‘ وجود میں آگئی ہے، اور مغرب کا ہر ’’معلوم‘‘ کسی نہ کسی درجے میں ’’محسوس‘‘ بن گیا ہے۔ مغربی تہذیب اور اس کی ثقافتی اوزاع کی اثرپذیری کے کئی رازوں میں سے ایک راز یہی ہے، یعنی اپنے ’’معلوم‘‘ کو ’’محسوس‘‘ بنانے میں کامیابی حاصل کرلینا۔
اسلامی تہذیب قصص الانبیاء، عربی، فارسی اور اردو کی عظیم شاعری، داستانوں کی بے مثال روایت، شاندار فنِ تعمیر، لاجواب نقاشی اور خطاطی کی امین ہے۔ یہ پورا ثقافتی ورثہ ہمارے ’’معلوم‘‘ کو ’’محسوس‘‘ بنانے ہی کی ایک صورت ہے، مگر ہم بحیثیت ایک امت کے اپنے ثقافتی ورثے سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ اگر ہم اپنے اس ثقافتی ورثے سے ایک بار پھر زندہ تعلق استوار کرلیں اور مسلم معاشروں میں ایک بار پھر مذہبیات کے ساتھ ساتھ قصص الانبیاء، شاعری اور داستانوں کا چرچا ہوجائے تو ہم نہ صرف یہ کہ اپنی ثقافت کی عظیم الشان روایت میں اضافہ کریں گے بلکہ بیرونی ثقافتی یلغار سے بھی محفوظ ہوجائیں گے، اور روایتی سماجیات کا شاندار دفاع کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ کسی تہذیب اور کسی ثقافت سے نہیں ڈرے، اور انہوں نے دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کے باطل سے محفوظ اجزاء کو ہمیشہ اپنی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بنایا۔ یہ صورتِ حال اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت کے عین مطابق تھی۔ جس زمانے میں مسلمانوں کی تہذیبی قوت پوری طرح فعال تھی مسلمانوں کے تخلیقی شعور کا معاملہ بطخ کی چونچ کی طرح تھا۔ بطخ غذا حاصل کرنے کے لیے پانی میں چونچ مارتی ہے تو غذا کے ساتھ اور بہت سی چیزیں اس کی چونچ میں آجاتی ہیں۔ لیکن وہ ایک لمحے میں ہی غذا کے سوا ہر چیز کو چونچ سے نکال دیتی ہے اور صرف غذا کو جزوِ بدن بناتی ہے۔ مسلمانوں نے بھی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ اپنے تعلق میں یہی کیا ہے، اور ہمیں اس وقت بھی مغربی تہذیب سمیت تمام تہذیبوں کے ساتھ یہی روش اختیار کرنی چاہیے۔ مسلمانوں میں دوسری تہذیب کی چیزوں پر اپنا ’’لیبل‘‘ لگانے کا رجحان عام ہے۔ یہ طریقہ غلط بھی ہے اور مصنوعی بھی۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ دوسری تہذیب کے صحت مند اجزاء کو تخلیقی عمل کے ذریعے منقلب کرکے ’’اپنا‘‘ بنایا جائے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی تہذیب کی آفاقیت اور عالمگیریت بھی نمایاں ہوگی اور ہماری سماجیات کی معنویت اور حسن و جمال میں بھی اضافہ ہوگا۔

حصہ