عدی بستر سے اُٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا اور سمیرا کو ایک طرف ہٹا کر دروازے کی دڑاڑ سے باہر جھانکنے لگا۔ گھاس اور کھجور کے سوکھے پتوں کا گٹھا جسے دروازے سے چند قدم دور پھینک دیا گیا تھا جل رہا تھا اور آگ کے شعلے ہر لحظہ بلند ہورہے تھے۔ عدی نے کہا ’’ٹھہرو! میں باہر آرہا ہوں‘‘۔
سمیرا اُس سے چمٹ کر چلائی۔ ’’نہیں نہیں، ابا جان! آپ اِس طرح میری جان نہیں بچا سکتے‘‘۔
عدی نے کہا ’’سمیرا۔ میرے باہر نکلتے ہی تم دروازہ بند کرلینا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آگ لگانے کی جرأت نہیں کریں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ اِس کے نتائج کیا ہوں گے؟‘‘
سمیرا دوبارہ چلائی۔ ’’ابا جان! میں بھی آپ کے ساتھ مروں گی‘‘۔
’’سمیرا بیوقوف نہ بنو، مجھے چھوڑ دو۔‘‘ عدی نے اپنی ساری قوت بروئے کار لاتے ہوئے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور کنڈی کھول کر باہر نکل آیا۔ اُس کا لباس خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ حملہ آور ایک نصف دائرے میں اُس کی طرف بڑھے۔ اُن کی تلواریں آگ کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ عدی دروازے کے قریب دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ حملہ آور اب کسی بیتابی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہائی اطمینان سے تلواریں بلند کیے آگے بڑھ رہے تھے لیکن تین آدمی چند قدم پیچھے کھڑے رہے۔
منذر کے بیٹے مسعود نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تمہاری تلواروں کو عدی کا خون پسند نہیں۔ آئو ہم ایک ساتھ وار کریں گے‘‘۔
ایک آدمی نے جواب دیا۔ ’’ہم اپنی تلواروں کی پیاس بجھانے کے لیے خزرج کے جوانوں کا خون پسند کرتے ہیں۔ ہمیں ایک زخمی، ضعیف اور نہتے آدمی کے خون سے ہاتھ رنگنا پسند نہیں۔ تم جلدی سے اپنا کام ختم کرو۔ اب صبح ہورہی ہے‘‘۔
اچانک سمیرا ہاتھ میں تلوار لیے، کمرے سے باہر نکلی اور پلک جھپکتے میں اپنے باپ اور حملہ آوروں کے درمیان آکھڑی ہوئی۔
عدی چلایا۔ ’’سمیرا! تم اندر چلی جائو۔ سمیرا سمیرا! اُس کی آواز حملہ آوروں کی چیخوں اور قہقہوں میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ نڈھال ہو کر گرپڑا۔
جابر نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ’’ٹھہرو! تم ایک طرف ہٹ کر تماشا دیکھو‘‘۔
وہ رُک گئے جابر نے سمیرا پر چند وار کیے اور وہ اُلٹے پائوں پیچھے ہٹنے لگی۔ اچانک اس کا پائوں عدی کے جسم سے لگا اور وہ پیٹھ کے بل گرپڑی۔ جابر نے ایک قہقہہ لگایا اور آگے بڑھ کر تلوار کی نوک اس کی آنکھوں کے سامنے کردی۔
ایک آدمی چلایا۔ ’’جابر ہم نے عدی سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اُس کی لڑکی پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے‘‘۔
’’میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘‘ جابر نے تلوار کی نوک ذرا اور آگے کرتے ہوئے کہا۔ سمیرا نے اپنی گردن ایک طرف کرلی تو جابر نے بھی اپنی تلوار کی نوک اُسی طرف پھیر دی۔
ایک آدمی چلایا۔ ’’باہر باغ کی طرف سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دے رہی ہے کوئی آرہا ہے۔ یہاں سے بھاگو!‘‘ وہ بدحواس ہو کر پھاٹک کی طرف دیکھنے لگے۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’تم بدحواس کیوں ہوگئے؟ راستے میں ہمارے ساتھی پہرا دے رہے ہیں۔ اگر اس طرف آنے والا کوئی دشمن ہوتا تو وہ نقارہ بجا کر ہمیں خبردار کردیتے‘‘۔
جابر کی بدحواسی سے سمیرا کو اٹھنے کا موقع مل گیا اور اس نے اچانک اس پر حملہ کردیا۔ اب جابر پیچھے ہٹ رہا تھا اور وہ پے در پے اس پر وار کررہی تھی۔
مسعود چلایا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے؟ یہ عورت نہیں کوئی چڑیل ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے پہلو سے حملہ کردیا۔ سمیرا بائیں کندھے پر ایک گہرا زخم کھا کر ایک طرف ہٹی لیکن جابر نے ایک سیدھا وار کیا اور اس کی تلوار کی نوک اس کے سینے میں اُتر گئی۔ وہ آگ کے الائو کے پاس گرپڑی۔ صحن میں تھوڑی دیر کے لیے ایک سناٹا چھا گیا۔
ایک آدمی نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ’’منذر کے بیٹوں نے پہلی بار اپنی تلواروں کو آزمایا ہے۔ اور وہ بھی ایک لڑکی کے جسم پر، ورنہ اب تک اس لڑائی میں ان کی حیثیت دور کے تماشائیوں کی سی تھی‘‘۔ اور منذر کے بیٹے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
عدی اپنی جگہ سے اٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا، ڈگمگایا، گرا اور دوبارہ اٹھنے کی ایک ناکام کوشش کی بعد رینگتا ہوا سمیرا کے قریب پہنچ گیا۔
’’سمیرا! سمیرا! میری مظلوم بیٹی‘‘۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہا تھا… اسے اپنے سینے سے لگا کر بھینچ رہا تھا۔ پھر اس نے آگ کی روشنی میں سمیرا کے خون سے بھیگا ہوا ہاتھ اٹھا کر دیکھا اور پوری قوت کے ساتھ چلایا۔ ’’وحشیو! درندو! اب تم کس بات کا انتظار کررہے ہو؟ مجھے قتل کیوں نہیں کرتے۔ تم سمیرا سے کوقتل کر چکے لیکن اب وہ میری حفاظت کے لیے تلوار نہیں اٹھائے گی‘‘۔
مسعود چلایا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے ہو اسے ختم کرو‘‘۔ لیکن اُس کے ساتھی اُس کے حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے تذبذب اور پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ جو تھوڑی دیر قبل عدی کے خون کے پیاسے تھے، اپنے سامنے ایک لڑکی کی لاش دیکھ کر خوف زدہ نظر آتے تھے۔ بدوی قبائل کی لڑائیوں میں اس قسم کے واقعات ایک عام بات تھی لیکن یثرب کے نسبتاً مہذب لوگوں کے نزدیک ایک لڑکی کا قتل ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی ٹاپ اب بہت قریب سنائی دے رہی تھی اور وہ عدی سے زیادہ دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’جابر، مسعود! تم اطمینان سے ان لاشوں پر تیغ زنی کی مشق کرسکتے ہو۔ یہ سوار تنہا ہے اور اگر وہ دشمن ہوا تو بھی تمہارے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ ہم خطرے کے وقت تمہاری حفاظت کرسکیں گے۔ منات کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارا مقصد ایک لڑکی کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے تو میں تمہارا ساتھ نہ دیتا۔ اب نہ معلوم یثرب میں کتنی مائیں اور بہنیں قتل کی جائیں گی‘‘۔
سریٹ سوار صحن میں داخل ہوا اور اُن کے قریب پہنچ کر گھوڑے سے کود پڑا۔ یہ عاصم تھا۔
سالم نے آگے بڑھ کر اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’اخی! ہم ان سے انتقام لے چکے ہیں۔ یہ عدی ہے اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں بھی صحن میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ وہ لڑکی ہے جس نے جابر پر حملہ کیا تھا۔ آپ کہاں تھے؟‘‘ عاصم نے آگے بڑھ کر الائو کے قریب ایک دلخراش منظر دیکھا اور چند ثانیے سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر وہ اُس کی لاش کے قریب بیٹھ گیا اور اُس کا سر اپنی گود میں لے کر چلایا۔ ’’سمیرا! سمیرا! میری طرف دیکھو، مجھ سے بات کرو، میں تمہارا عاصم ہوں‘‘۔ لیکن سمیرا کے پاس اس کی التجائوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ اور عاصم کی آواز سسکیوں میں تبدیل ہورہی تھی۔
عدی نے درد سے کراہتے ہوئے اپنی گردن اٹھائی اور کہا ’’عاصم! تم بہت دیر سے آئے، سمیرا اب تمہاری طرف نہیں دیکھے گی، اسے عمیر اور عتبہ نے اپنے پاس بلالیا ہے‘‘۔
جابر نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’عمیر اور عتبہ تمہیں بھی اپنے پاس بلارہے ہیں۔ کاش وہ تمہارے قبیلے کے ہر آدمی کو اپنے پاس بلاتے رہیں‘‘۔
عاصم اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور اُس نے پوری قوت سے جابر کو دھکا دے کر ایک طرف گرادیا اور پھر چشم زدن میں اپنی تلوار نیام سے نکال لی۔
مسعود چلایا۔ ’’اسے پکڑلو۔ اسے مار ڈالو۔ یہ غدار ہے‘‘ اور یہ کہتے ہی اس نے عاصم پر حملہ کردیا۔ عاصم نے اس کا وار اپنی تلوار پر روکا اور پھر ایک زخمی شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑا۔ مسعود کو چند قدم پیچھے دھکیلنے کے بعد اس نے پوری قوت کے ساتھ ایک وار کیا اور مسعود کی لاش زمین پر تڑپنے لگی۔ جابر نے اٹھ کر عقب سے وار کرنے کی کوشش کی لیکن عدی چلایا۔ عاصم پیچھے دیکھو!‘‘ عاصم نے مڑکر دیکھا تو وہ جابر کی تلوار کی زد میں آچکا تھا۔ اُس نے اچانک ایک طرف جست لگادی۔ جابر کی تلوار کی نوک زمین پر جالگی، اس کے ساتھ ہی عاصم نے ایک بھرپور ہاتھ مارا اور جابر کی تلوار عاصم کی تلوار سے ٹکرانے کے بعد اس کے ہاتھ سے نکل کر چند قدم دور جاگری۔ اب عاصم کی تلوار کی نوک اس کے سینے پر تھی۔ جابر الٹے پائوں پیچھے ہٹتے ہوئے دیوار سے جالگا۔
سالم نے بھاگ کر عاصم کا بایاں بازو پکرتے ہوئے کہا۔ ’’اخی! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ میرے ماموں کا بیٹا ہے۔ یہ جابر ہے آپ مسعود کو قتل کرچکے ہیں۔ اخی! اخی! ہوش میں آئیے‘‘۔
لیکن عاصم نے اپنی تلوار کی نوک جابر کے سینے سے ہٹائے بغیر اپنے بائیں ہاتھ کو جھٹکا دیا اور کمسن لڑکا زمین پر گر پڑا۔
عاصم نے مڑ کر اُن آدمیوں کی طرف دیکھا جو سراسیمگی کی حالت میں یہ ناقابل یقین منظر دیکھ رہے تھے۔ اُس نے کہا۔ ’’سمیرا کو کس نے قتل کیا ہے؟۔ بزدلو! میں پوچھتا ہوں عدی کی معصوم لڑکی کو کس نے قتل کیا ہے؟‘‘
کسی نے جواب نہ دیا۔
عاصم نے جابر کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔ ’’تم بتائو! عدی کی بیٹی کو تم نے قتل کیا ہے؟‘‘
جابر چلایا۔ ’’بھائیو! تم کیا دیکھ رہے، تمہیں کیا ہوگیا ہے، عاصم اپنے ہوش میں نہیں۔ اس پر ابھی تک عدی کے جادو کا اثر ہے۔ میری جان بچائو…‘‘ لیکن کسی کو آگے بڑھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
سالم نے دوبارہ اٹھ کر عاصم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’اخی! ہم نے اس لڑکی کی جان بچانے کا وعدہ کیا تھالیکن اس نے اچانک جابر پر حملہ کردیا۔ اگر وہ حملہ نہ کرتی تو یہ اُس پر ہاتھ نہ اُٹھاتا۔ اخی! ہوش سے کام لیجیے‘‘۔ عاصم نے اپنا ہاتھ چھڑا کر سالم کے منہ پر ایک تھپڑ مارا اور وہ تیوراکر زمین پر گرپڑا۔ پھر اُس نے جابر کی طرف متوجہ ہو کر گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تم نے سمیرا کو قتل کیا ہے؟ کاش! منذر کے دس ہزار بیٹے ہوتے اور میں سمیرا کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے انہیں قتل کرسکتا‘‘۔
وہ چلایا۔ ’’عاصم! مجھ پر رحم کرو‘‘۔ لیکن عاصم نے اپنے ہاتھ کو جنبش دی اور تلوار کی نوک جابر کے سینے میں اُتر گئی۔ وہ گرا عاصم نے ایک جنون کی سی حالت میں پے در پے اُس کی تڑپتی ہوئی لاش پر کئی وار کردیئے۔
’’بھائیو!‘‘ ایک آدمی چلایا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے؟۔ منذر کے دو بیٹے قتل ہوچکے ہیں۔ اب تم واپس کیا منہ لے کر جائو گے۔ ہمارے لیے اس کے بجائے مرجانا بہتر ہے۔ عاصم پاگل ہوچکا ہے۔ اسے پکڑ لو، اسے مار ڈالو۔ جلدی کرو گھیرا ڈالو ورنہ تھوڑی دیر میں خزرج کے تمام آدمی یہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔ وہ نصف دائرے میں آگے بڑھنے لگا۔ اور سالم ایک طرف ہٹ کر سسکیاں لینے لگا۔
عاصم اچانک ایک طرف جھپٹ پڑا اور اُس کے پہلے ہی وار سے ایک آدمی کی لاش زمین پر تڑپ رہی تھی اور باقی بدحواس ہو کر اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ عاصم صحن کے بیچ میں رُک گیا اور اُس نے غصہ سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’بزدلو! میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارے گھر پر شمعون یہودی کے آدمیوں نے حملہ کیا تھا اور عدی کو اس بات کا علم بھی نہ تھا۔ جب شمعون کے آدمی ہمارے گھر پر حملہ کررہے تھے، میں عدی کے ساتھ اُس کے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن اب باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔ تمہیں صرف لڑنے کا شوق تھا اور میں تمہارا یہ شوق پورا کرنا چاہتا ہوں۔ اب بھیڑوں کی طرح بھاگ کیوں رہے ہو… آئو!‘‘
لیکن کسی نے آگے بڑھنے کی جرأت نہ کی۔ اچانک باہر سے نقارے کی آواز سنائی دی اور ایک آدمی چلایا۔ ’’سنو! ہمارے آدمی نقارہ بجا رہے ہیں۔ دشمن اس طرف آرہا ہے۔ بھاگو! جلدی کرو!‘‘
دوسرا آدمی چلایا۔ ’’ٹھہرو! ہم اپنی لاشیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے‘‘۔
تیسرے نے کہا۔ ’’پاگلو! اب لاشیں اٹھانے کا کون سا وقت ہے۔ یہ بات تمہیں اس وقت سوچنی چاہیے تھی جب عدی کا ایک لڑکا اپنے قبیلے کو خبردار کرنے کے لیے یہاں سے بھاگ گیا تھا۔ اب اپنی جانیں بچانے کی فکر کرو‘‘۔
آن کی آن میں صحن خالی ہوگیا لیکن سالم عاصم کے قریب کھڑا رہا۔ عاصم غضب ناک ہو کر چلایا۔ ’’تم اب کیا دیکھ رہے ہو، جائو!‘‘۔
سالم نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔ ’’میں نہیں جائوں گا۔ میں آپ کے ساتھ رہوں گا‘‘۔
عاصم نے آگے بڑھ کر اُس کا بازو پکڑلیا اور اُسے زبردستی کھینچتا ہوا صحن کے دروازے تک لے گیا۔
سالم چلا رہا تھا۔ ’’اخی! تم مجھے بھی جابر اور مسعود کی طرح قتل کیوں نہیں کردیتے، اب میں قبیلے کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا‘‘۔
عاصم نے اُسے پوری قوت کے ساتھ دروازے سے باہر دھکیل دیا اور وہ چند قدم کے فاصلے پر منہ کے بل جاپڑا۔ پھر وہ جلدی سے اٹھا اور ایک ثانیہ عاصم کی طرف دیکھنے کے بعد بھاگتا ہوا باغ میں روپوش ہوگیا۔
عاصم کچھ دیر بے حس و حرکت کھڑا صحن میں بکھری ہوئی لاشوں کی طرف دیکھتا رہا۔ یہ تمام واقعات اُسے ناقابل یقین معلوم ہوتے تھے۔ وہ اپنے دل کو تسلیاں دینے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ ناممکن ہے سمیرا کو موت نہیں آسکتی۔ یہ ایک خواب ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سمیرا کو موت آجائے اور میں زندہ رہوں۔ اچانک اس نے ایک جھرجھری لی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا سمیرا کی لاش کی طرف بڑھا۔
’’پانی! پانی!‘‘ عدی کی نحیف آواز سنائی دی اور وہ بھاگ کر مکان کے دروازے کے قریب ایک مٹکے سے پانی کا کٹورا بھر لایا۔ عدی کو چند گھونٹ پلا کر دوبارہ زمین پر لٹانے کے بعد اُس نے سمیرا کو سہارا دے کر اٹھایا اور پانی کا پیالہ اس کے منہ کو لگادیا لیکن پانی سمیرا کے حلق میں جانے کے بجائے اِدھر اُدھر بہہ گیا اور عاصم کے لزرتے ہوئے ہاتھ سے پیالہ گر پڑا۔
’’سمیرا، سمیرا!‘‘۔ وہ اُس کی لاش کو اپنے سینے سے بھینچ کر چلایا۔ ’’میری طرف دیکھو! مجھ سے بات کرو۔ مجھے اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر نہ جائو۔ سمیرا! میں تمہارا مجرم ہوں۔ کاش میں یہاں نہ آتا۔ کاش! ہم ایک دوسرے کو نہ دیکھتے۔ کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ ہماری محبت اس گھر کے لیے جہنم کی آگ بن جائے گی‘‘۔
پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ اے لات! اے ہبل! اے عزیٰ! اے منات! مجھ پر رحم کرو۔ اگر تمہاری آنکھیں ہیں تو میری حالت دیکھو، اگر تمہارے کان ہیں تو میری فریاد سنو، اگر تم کسی کو کچھ دے سکتے ہو تو میں تم سے سمیرا کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں۔ مہینوں اور برسوں کے لیے نہیں صرف ایک لمحہ کے لیے میری سمیرا مجھے واپس دے دو۔ پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے نہیں چھین سکے گی۔ پھر اگر ساری دنیا کے درندے اس گھر پر حملہ کردیں تو میں تنہا ان کا مقابلہ کروں گا۔ آسمان کی بے رحم قوتو! تم نے سمیرا کو یہ دیکھنے کا موقع تو دیا ہوتا کہ میں اس کے لیے اپنے قبیلے سے لڑ سکتا ہوں۔ اے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کے خدا! میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں‘‘۔
عدی اُس کے قریب پڑا، اکھڑے اکھڑے سانس لے رہا تھا اور باہر آدمیوں کی چیخ پکار سنائی دے رہی تھی لیکن عاصم کو اپنے گردوپیش کا کوئی ہوش نہ تھا۔ وہ بار بار سمیرا کے چہرے کی طرف دیکھتا اور پھر اُس کی لاش کو اپنے سینے سے لپٹا لیتا۔ باہر کی چیخ پکار صحن کے اندر پہنچ چکی تھی لیکن عاصم کو کسی خطرے کا احساس نہ تھا۔
کسی نے بلند آواز میں کہا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے ہو؟ یہ عاصم ہے اسے پکڑ لو، اسے مار ڈالو‘‘۔
لیکن عاصم اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اُس نے بے اعتبائی سے اپنے گرد گھیرا ڈالنے والوں کی طرف دیکھا، اور گردن جھکالی۔
کسی نے کہا۔ ’’نعمان! سب سے پہلے تمہیں وار کرنے کا حق ہے‘‘۔ نعمان نے آگے بڑھ کر تلوار بلند کی لیکن عدی جو بظاہر اپنا سفرِ حیات ختم کرچکا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ عاصم کے سر پر تان دیئے اور چلایا۔ ’’نہیں، نہیں! اسے کچھ نہ کہو۔ اس نے ہماری خاطر منذر کے بیٹوں کو قتل کیا ہے… اب یہ تمہاری پناہ میں ہے… نعمان میری آخری خواہش یہ ہے کہ تم… عاصم کو اپنا دوست سمجھو… بھائیو! عاصم میرے بیٹوں کا انتقام لے چکا ہے، اب تمہیں تلواریں اٹھانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ عدی نے یہاں تک کہہ کر ایک جھرجھری لی اور ایک طرف گرپڑا۔
نعمان نے اپنی تلوار پھینک دی اور آگے بڑھ کر اُس کا سر اپنی گود میں لے لیا۔
’’ابا جان! ابا جان!‘‘ اُس نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔
عدی نے جواب دینے کے بجائے چند اکھڑے اکھڑے سانس لیے اور گردن ڈھیلی چھوڑ دی۔ ایک معمر آدمی نے آگے بڑھ کر اُس کی نبضیں ٹٹولیں اور سر پھیر دیا۔ نعمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
صبح کی روشنی نمودار ہورہی تھی اور عاصم بدستور سمیرا کی لاش سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ جب قبیلے کے آدمی عدی اور اُس کے بیٹوں کی لاشیں اُٹھا کر اندر لے گئے۔ تو ایک نوجوان نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ عاصم نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور کچھ کہے بغیر سمیرا کو اُٹھا کر کمرے کی طرف چل دیا۔ لوگ جو غصے اور اضطراب کے بجائے اب پریشانی کی حالت میں اُس کی طرف دیکھ رہے تھے کچھ کہے بغیر راستے سے اِدھر اُدھر ہٹ گئے۔ عاصم دروازے کے قریب رُکا اور چند ثانیے سمیرا کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑا رہا، پھر جب اُس کی آنکھیں آنسوئوں اور چھلکنے لگیں تو اُس نے آگے بڑھ کر سمیرا کو بستر پر لٹادیا۔ اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا باہر نکل آیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ لوگ جو اب آہستہ آہستہ سرگوشیاں کررہے تھے۔ اُس کی طرف دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ اُن میں سے ہر ایک کی زبان پر کئی سوال تھے لیکن کسی کو اُس سے ہمکلام ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اُن کے نزدیک اس گھر میں عدی اور اس کے بیٹوں کی موت سے زیادہ اہم واقعہ یہ تھا کہ منذر کے بیٹوں کو عاصم نے قتل کیا تھا۔ اور جب خزرج والوں کی تلواریں اس کے خون میں ڈوبنے والی تھیں تو عدی نے جاں کنی کے وقت اُس کے سر پر ہاتھ تان دیئے تھے۔
عاصم صحن میں اُس جگہ جہاں وہ کچھ دیر قبل سمیرا کی لاش کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا رُکا، اپنی تلوار اُٹھا کر نیام میں کی اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد صحن کے اُس کونے کی طرف بڑھا جہاں اُس کا گھوڑا کھڑا تھا۔
نعمان نے اچانک بھاگ کر اُس کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا ’’آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
عاصم نے بے اختیار اُسے گلے لگا لیا اور اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔
قبیلہ خزرج کے ایک معمر آدمی نے کہا۔ ’’عاصم! یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ تم نے ہماری خاطر منذر کے بیٹوں کو کیسے قتل کیا۔ لیکن ہم تمہیں اپنی پناہ میں لینے کو تیار ہیں‘‘۔
عاصم نے بے پروائی سے جواب دیا ۔ ’’اب مجھے کسی کی پناہ کی ضرورت نہیں‘‘۔
ایک نوجوان نے عاصم کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر اُس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تمہیں ہماری پناہ میں رہنا پسند نہیں تو فوراً یثرب سے کہیں دور نکل جائو۔ ورنہ اب تمہارے قبیلے کے لوگ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
میں یثرب کو چھوڑ رہا ہوں لیکن جانے سے پہلے یہاں میرے حصے کا ایک کام باقی ہے‘‘۔
عاصم اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوگیا اور اُسے سرپٹ دوڑاتا ہوا صحن سے باہر نکل گیا۔
O
عدی کے گھر سے کوئی ایک میل دور ایک کشادہ راستے کے دونوں کناروں پر کچی دیواریں یہودیوں کے باغوں کی حفاظت کرتی تھیں۔ اچانک دو آدمی یکے بعد دیگرے ان دیواروں پر سے کود کر عاصم کے راستے میں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنے ہاتھ بلند کردیئے۔
عاصم نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا، یہ عباد اور سالم تھے۔ اُس نے پوری قوت کے ساتھ باگیں کھینچ کر اپنا گھوڑا روکا اور کہا۔ ’’عباد! تم کہاں تھے؟‘‘
عباد نے جواب دیا۔ ’’میں راستے میں پہرا دے رہا تھا۔ سالم نے حکم دیا تھا کہ اگر دشمن خبردار ہو کر عدی کی مدد کے لیے اس طرف آئے تو ہم نقارہ بجادیں۔ جب آپ یہاں سے گزرے تھے تو میں نے آپ کو پہچان لیا تھا اور آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن آپ میری طرف توجہ دیئے بغیر آگے نکل گئے۔ اس کے بعد جب خزرج کی آبادی میں چیخ پکار سنائی دینے لگی تو میرے دو ساتھی نقارہ بجا کر بھاگ گئے لیکن چونکہ عدی کے گھر پر حملہ کرنے والے ساتھیوں نے بہت دیر لگادی تھی اس لیے میں تشویش کی حالت میں باغوں سے گزرتا ہوا عدی کے گھر کی طرف چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے عدی کے باغ سے بھاگتے ہوئے آدمیوں کی آہٹ سنائی دی۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہمارے آدمی ہیں، تاہم میں اطمینان کرنے کے لیے ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ وہ مجھ سے چند قدم دور باتیں کرتے ہوئے گزر گئے، وہ آپ کو بدترین گالیاں دے رہے تھے اور میں نے اُن کے سامنے جانا گوارا نہ کیا۔ پھر ایک آدمی جس کی ٹانگ زخمی تھی لنگڑاتا ہوا میرے پاس سے گزرا اور میں نے اس کا راستہ روک کر اتنی دیر سے واپس آنے کی وجہ دریافت کی۔ اُس نے جواب دینے کے بجائے میرے منہ پر تھوک دیا۔ اور تلوار نکال کر مجھ پر حملہ کردیا۔ میں نے ایک طرف ہٹ کر اپنی جان بچائی اور وہ میرا پیچھا کرنے کے بجائے آپ کو گالیاں دیتا ہوا آگے نکل گیا۔ پھر میں کچھ دور اور آگے گیا تو مجھے سالم مل گیا اور…‘‘۔
’’اور پھر تمہیں سالم نے بتایا کہ میں اپنے قبیلے کا غدار اور قاتل ہوں۔ کہو! خاموش کیوں ہوگئے‘‘۔
عباد نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ نے منذر کے بیٹوں کو قتل کیا ہے لیکن اگر یہ درست ہو تو بھی میں آپ کا غلام ہوں‘‘۔
’’تم آج سے آزاد ہو۔ اور سالم اِس بات کی گواہی دے گا کہ میں اپنے حصے کی جائیداد تمہارے حوالے کرکے جارہا ہوں‘‘۔
’’آپ مجھے قتل کرسکتے ہیں لیکن ان حالات میں اپنا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں کرسکتے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں تم سے صرف ایک خدمت لینا چاہتا ہوں۔ تم عدی کے گھر کے قریب چھپ کر میرا انتظار کرو۔ اگر کوئی خطرہ پیش آئے تو یہ کہہ دینا کہ تم میرے حکم کی تعمیل کررہے ہو۔ میں تھوڑی دیر تک وہاں پہنچ جائوں گا‘‘۔
سالم نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’اخی! آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ میں گھر نہیں جائوں گا‘‘۔
سالم نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس طرف آبادی کا رُخ نہ کریں۔ اب قبیلے کا ہر آدمی آپ کی تلاش میں ہوگا‘‘۔
عاصم نے قدرے نرم ہو کر کہا۔ ’’سالم! اب تمہیں میری موت و حیات سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔
تم گھر جائو…‘‘۔
سالم نے اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں! جب تک آپ یہ نہیں بتاتے کہ آپ اس طرف کیوں جارہے ہیں، میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔ میں منات کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر دشمن کا سارا قبیلہ اس طرف آگیا تو بھی میں یہاں سے نہیں جائوں گا‘‘۔
’’تم جاننا چاہتے ہو میں اس وقت کہاں جارہا ہوں‘‘۔
’’ہاں…‘‘
’’بہت اچھا! میرے پیچھے بیٹھ جائو…‘‘۔
سالم اُچھل کر عاصم کے پیچھے بیٹھ گیا اور عاصم نے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
تھوڑی دیر بعد سالم نے کہا۔ ’’اخی! اس طرف مت جائیے۔ قبیلے کے آدمی ہمیں دیکھتے ہی آپ پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اب ابا جان بھی آپ کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ سکیں گے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’سالم! تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر قبیلے کے لوگوں نے تمہیں جابر اور مسعود کے قاتل کے ساتھ دیکھ لیا تو تم اُن کے طعنے برداشت نہیں کرسکو گے‘‘۔
سالم نے کہا۔ ’’بھائی جان! میں آپ کی خاطر آگ میں کود سکتا ہوں۔ لیکن میرے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ آپ نے عدی کی بیٹی کی خاطر میرے ماموں کے بیٹوں کو قتل کیا ہے۔ آپ اُس وقت کہاں تھے جب انہوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا تھا۔ آپ اُن لوگوں کو کیسے معاف کرسکتے ہیں جنہوں نے ہمارے گھر کو آگ لگائی تھی اور ابا جان کو زخمی کیا تھا‘‘۔
عاصم نے گھوڑے کی باگ کھینچتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اُس وقت میں عدی کے باغ میں اُس سے باتیں کررہا تھا اور اُس کے بیٹے گھر میں سو رہے تھے‘‘۔
’’یہ ناممکن ہے! عباد نے عدی کے گھر تک حملہ کرنے والوں کا تعاقب کیا تھا۔ آپ اُس سے پوچھ سکتے ہیں‘‘۔
’’مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں، عباد نے صرف ایک آدمی کا تعاقب کیا تھا اور وہ شمعون کا غلام تھا۔ اُسے یہ خدمت سونپی گئی تھی کہ جب شمعون کے آدمی ہمارے گھر کو آگ لگادیں تو وہ اُن کا پیچھا کرنے والوں کو عدی کے گھر کی طرف لے جائے‘‘۔