ضروریات یا خواہشات؟

309

سورۃ الشمس میں بہت سی قسمیں کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’کامیاب ہوا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے دبا دیا۔‘‘
تزکیہ زکوٰۃ سے ہے جس سے مراد پاک کرنے کے ہیں۔ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے اور اس کا میل کچیل دور کردیتی ہے، اسی طرح نفس کا تزکیہ نفس کو پاک کرکے خاص اللہ کے تابع کردیتا ہے۔ نفس کو پاک کرنے کے لیے خرابیِ نفس کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔
دراصل خرابیِ نفس کی سب سے بڑی وجہ ’’حُبِّ دنیا یا خواہشات ہیں۔‘‘ نفس میں خرابی کا باعث دراصل وہ خواہشات پرستی ہے جو حلال و حرام کی تمیز نہ رہنے دے، کیوں کہ دنیا کی محبت وہ اندھی محبت ہے جو مقصدِ حیات کو نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔
انسان کی فلاح جانتے ہیں کس میں ہے؟انسان کی فلاح خواہشات کو دبانے میں ہے، کیوں کہ یہ خواہشات ہی ہیں جو ہر اُس چیز کے لیے آمادہ کرتی ہیں جو آپ نے زندگی میں کبھی کرنے کا سوچا تک نہیں ہوتا۔ ان کے پیچھے انسان صحیح اور غلط کی پہچان کھو دیتا ہے، ان کے حصول کے لیے بندہ انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی نہیں چوکتا۔
وہ ہر وہ کام کرتا ہے، ہر وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو اسے اس خواہش کی تکمیل تک لے جائے، اور پھر اس کو ’’گناہ‘‘ گناہ نہیں لگتا، ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ہزار دلائل آموجود ہوتے ہیں۔ نتیجتاً بندہ خالق اور مخلوق دونوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔
’’ضروریات‘‘ اور’’خواہشات‘‘میں فرق کریں۔ دونوں چیزوں کے لیے توکل اللہ پر ہی ہوگا، مگر ضروریات کے لیے اسباب پیدا کرنے کے بعد اللہ پر توکل کرنا ہے، اور خواہشات محض اللہ کے سامنے بیان کردیں، خود کو ان کے پیچھے نہ تھکائیں۔ رب بہتر سمجھے گا تو راستے وہاں سے بنادے گا جہاں سے گمان بھی نہیں ہوگا، اور اگر نہیں تو آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

حصہ