تہذیب ہے حجاب(روداد)

236

جماعتِ اسلامی حلقہ خواتین کی طرف سے جب بھی کوئی مہم شروع کی جاتی ہے تو اس مناسبت سے بہتر سے بہترین پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حجاب کے حوالے سے ستمبر میں جب مہم کا آغاز ہوا تو ملک کے طول و عرض میں اس سلسلے میں کانفرنسوں، سیمینارز، مذاکروں اور ٹاک شوز کا اہتمام کیا گیا، جس کا مقصد معاشرے کو حیا و حجاب کا مؤثر پیغام پہنچانا تھا۔
حلقۂ خواتین کراچی نے بھی بلاشبہ اس حوالے سے بہترین منصوبہ بندی کی۔ اسی خوب سے خوب تر کی تلاش میں کراچی میں ’’حجاب کانفرنس‘‘ کا انعقاد شہر کے معروف ہوٹل کے وسیع و عریض ہال میں کیا گیا۔ حلقۂ خواتین کراچی کی ٹیم نے اپنی سعی و صلاحیت پروگرام کو کامیاب کرنے میں لگائی، جس کا ثبوت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک خواتین کی حجاب کانفرنس میں موجودگی تھی۔
رواں سال حجاب مہم کا عنوان ’’تہذیب ہے حجاب‘‘ دیا گیا تھا۔ اس ہمہ جہت عنوان نے گویا زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے اندر سمو لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ معاشرے میں مثبت رویوں کی بُنت کاری میں اپنا کردار پورے خلوص سے ادا کیا ہے، چوں کہ یہ مہمات سماج کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور جماعت کا مقصد بھی یہی ہے کہ معاشرے کو تہذیب کے انہی رنگوں سے سجایا جائے جو حکم ربی بھی ہے۔ اسی تناظر میں جن معتبر خواتین کو مدعو کیا گیا وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اہم اور معزز اداروں سے وابستہ تھیں۔ ان میں ڈاکٹرز، وکلا، اساتذہ، مدیرات، مصنفات و شاعرات اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین، سماجی اور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔
رنگ و روشنیوں کا مرقع، فانوسوں کی جھلملاتی قوس و قزح، پھولوں کی بہار، استقبالیہ سے لے کر اندر تک ہال کی سجاوٹ، ہر داخل ہونے والے مہمان کی توجہ اپنی طرف مبذول کررہی تھی، اور اس خوش گوار تاثر میں اضافہ وہ مستعد باحجاب خواتین کررہی تھیں جو ہال کے اطراف میں اپنی ذمے داری بڑے احسن طریقے سے نبھا رہی تھیں۔ گلابی حجاب میں ملبوس خواتین ایک طرف استقبالیہ پر خواتین مہمانوں کو اُن کے ناموں کے کارڈ فراہم کر رہی تھیں، تو دوسری طرف وہ اسٹیج کے بائیں جانب سوشل میڈیا کارنر پر مستعدی و سنجیدگی سے اپنے امور سرانجام دے رہی تھیں۔
تلاوتِ کلام پاک کے بعد اریبہ نے اپنی خوب صورت آواز میں نعتِ رسولؐ پیش کی۔ نائب ناظمہ کراچی ثنا علیم اور جے آئی یوتھ کی نگراں اور سابقہ لیکچرار کراچی یونیورسٹی ثریا ملک نے کمپیئرنگ کے فرائض سنبھالے۔ مہمانِ خصوصی، سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی، نائب سیکرٹری محترمہ آمنہ عثمان، ناظمہ کراچی محترمہ اسما سفیر تشریف لا چکی تھیں۔
ناظمہ کراچی نے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ حجاب ایک نظامِ عظمت اور عفت ہے، اس سے بدی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور نیکی پروان چڑھتی ہے۔
ناظمہ کراچی کے خطاب کے بعد سابقہ رکن قومی اسمبلی سمیحہ راحیل قاضی کا پیغام سنایا گیا۔ محترمہ سمیحہ راحیل،جن کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ ’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘۔ خواتین تک اسلام کا شعور پہنچانا اور اس کی مثبت تصویر پیش کرنا، ہر اہم موقع پر تحریر و تقریر کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں اپنا پیغام پہنچانا محترمہ کا مقصدِ زندگی ہے۔ محترمہ سمیحہ راحیل نے اپنے خطاب میں مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ خواتین حجاب کے سفر میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ حجاب کے احکام سورہ نور اور سورہ الاحزاب میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اہم یہ ہے کہ اس کا خطاب مردوں سے شروع کیا گیا ہے۔
اسٹیج کے دونوں طرف قد آور اسکرین کے ذریعے محترمہ سمیحہ راحیل نے حاضرینِ محفل کو عالمی یوم حجاب کے حوالے سے اہم پیغام دیا۔ محترمہ کا شیریں لب و لہجہ اور گفتگو مہمانوں کو متوجہ کیے ہوئے تھی۔
بعدازاں ڈپٹی سیکرٹری جنرل محترمہ آمنہ عثمان کا دل چسپ ٹاک شو ’’بات یہ ہے کہ‘‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیا جس میں جماعت اسلامی کی سرکردہ خواتین سے حجاب کے حوالے سے عام لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات و خدشات کے فکر انگیز سوال اٹھائے گئے۔
نگران جامعہ محصنات ثوبیہ عبدالسلام نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آج کا دن عہد کو دہرانے کا دن ہے۔ مسلمان عورت آج دنیا کے تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے حجاب کے تحفظ کے لیے میدانِ کار میں ہے۔ معروف مصنفہ اور بلاگر افشاں نوید نے کہا کہ آج معاشرے کو برائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ برائی کو اجاگر نہ کیا جائے۔ میڈیا پر اس کی ترویج، معاشرے میں برائی کے اضافے کا باعث ہے۔ اس سلسلے میں ریاست اپنا کردار ادا کرے۔ ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب نے کہا کہ حجاب مرد کا شعار اور مسلمان عورت کا امتیاز ہے۔ حجابی معاشرے میں عورت زیادہ محفوظ ہے۔ نگران ورکنگ وومن آرگنائزیشن پاکستان محترمہ طلعت فخر نے کہا کہ مغرب میں عورت آج بھی اپنے حقوق کے لیے سرگرداں ہے، مغربی معاشرے میں 14 فیصد کم اجرت والی اور 28 فیصد اعلیٰ عہدوں کی حامل خواتین بھی ہراسمنٹ کا شکار ہیں۔ عروبہ شافیعہ، ناظمہ صوبہ سندھ اسلامی جمعیت طالبات نے کہا کہ آج ملک میں یوتھ کی تعداد 63 فیصد ہے، اگر ہم روشن پہلو کو دیکھیں تو ہمارے نوجوانوں میں بہت قابلیت موجود ہے، آج کا نوجوان اپنے مقصدِ زندگی کو پہچانتا ہے۔ سٹی کونسلر کراچی محترمہ رخشندہ نے بھی حجاب کو عفت کا نظام قرار دیا اور کہا کہ یہ مسلمان عورت کی پہچان اور تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں سے مہذب ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔
آخر میں آمنہ عثمان نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ حجاب کی بات ہوگی تو حجاب کی پوری تہذیب کا ذکر ہوگا، جو حجاب کی درست فکر کو تیار کرے گا۔ اس سلسلے میں والدین، اساتذہ، تعلیمی نصاب اور پورے معاشرے کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔
پروگرام کے وقفے میں پس منظر میں حجاب ترانہ قلب پر اثر انداز ہورہا تھا:
تاریخ ہے حجاب
تعریف ہے حجاب
دختر مسلم کی ہے پہچان
حجاب میں حیا
شناخت ہے حجاب
خوب صورت لفظوں کی مالا پرونا شاید اسی کو کہتے ہیں جو روح کو سرور بخش دے۔ اس پُرمغز ٹاک شو کے بعد تقریب کی خاص الخاص مہمان رکن صوبائی اسمبلی محترمہ نصرت سحر عباسی تھیں، جو خصوصی دعوت پر تشریف لائی تھیں۔ محترمہ نے حال ہی میں شرعی پردہ اختیار کیا ہے۔ ان کو اپنی حجاب اسٹوری سنانے کی دعوت دی گئی۔ محترمہ نے بڑے پُراثر انداز میں پردے کو اختیار کرنے اور اس پر استقامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پردہ انہوں نے اگرچہ اپنے بیٹے اور شوہر کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کیا، لیکن اب وہ اپنی پوری دلی رضا مندی سے اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ پردہ اُن کے کسی سرکاری اہم کام میں رکاوٹ نہیں ہے، اور نہ ہی اس کو اختیار کرنے کے بعد ان کے احترام و قابلیت میں کمی آئی ہے۔
بعدازاں اوپن ڈسکشن فورم ’’زاویہ‘‘ کا رکھا گیا، جسے ڈائریکٹر میڈیا سیل عالیہ منصور اور جے آئی یوتھ عائشہ فہیم کنڈکٹ کروا رہی تھیں۔ لیکن اس سے قبل جے آئی یوتھ نے ’’حجاب اسٹوری‘‘ کے عنوان سے جو انعامی مقابلہ رکھا تھا اس کی انعام یافتہ بچیوں کو بہترین کہانی لکھنے پر اعزازی شیلڈ پیش کی گئیں۔
اوپن فورم میں عالیہ منصور نے حاضرین کو حیا اور پردے کے حوالے سے معاشرے پر اس کے اثرات پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی دعوت دی۔ محترمہ عابدہ آصف نے کہا کہ حجاب چوائس نہیں ہے بلکہ یہ ہم پر فرض ہے۔ بحریہ کالج کی پرنسپل سمیعہ شعوان نے کہا کہ آج حجابی لڑکیاں ہی پوزیشن ہولڈر ہیں۔ مشہور براڈکاسٹر سیما رضا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ حجاب کے پیغام کو عام کریں، زندگی میں آسانی اور خیر ہوگی۔ اوپن فورم میں مہمان خواتین کے نقطہ نظر کو بھی واضح کیا گیا اور حجاب سے متعلق ان کی مضبوط آرا نے یقینا خواتین کو بھی متاثر کیا ہوگا۔ تمام خواتین متاثر کن انداز میں سن رہی تھیں، اس کے علاوہ بھی چند خواتین نے اپنا مؤقف بیان کیا۔
تقریب حاضرین کی بھرپور توجہ کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف گامزن تھی۔ اس موقع پر ان معزز خواتین کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئیں جنھوں نے اپنے شعبے میں بہترین خدمات انجام دیں۔ ان خواتین میں بہت قابلِ احترام بانی حریمِ ادب محترمہ عقیلہ اظہر، معروف مصنفہ اور بلاگر افشاں نوید، رکن صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی، رکن صوبائی اسمبلی ادیبہ احسن، سیاسی رہنما ارم بٹ، ایس ایس پی کراچی ڈویژن شہلا قریشی، پہلی خاتون ڈی آئی جی شیما شاہ، جنگ سنڈے میگزین کی مدیرہ نرجس ملک، خواتین و شعاع ڈائجسٹ کی مدیرہ امت الصبور، مدیرہ پاکیزہ عذرا رسول، براڈ کاسٹر اور مدیرہ آنچل سیما رضا، مدیرہ اوصاف یاسمین، شاہدہ اسرار کنول، جہاں آرا لطفی، حفصہ طاہر، فرحانہ اویس، عالیہ برنی، نگہت فاطمہ نقوی، کرن ناز، پہلی جیا لوجسٹ سیما ناز صدیقی،بچوں کی صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ راحت عائشہ شامل تھیں۔
سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین محترمہ دردانہ صدیقی نے مہمانانِ گرامی کو شیلڈ پیش کیں اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حجاب معاشرے کو پاکیزگی اور خاندان کو استحکام بخشتا ہے۔ حیا اسلامی تہذیب کا بنیادی جوہر ہے۔ یہ لباس کا حصہ نہیں بلکہ مکمل تہذیب ہے۔
اختتامی خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اولاً حاضرین ِمحفل کا شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کو اُن خواتین کے نام کیا، جو دنیا کے مختلف حصوں میں حجاب کے تحفظ کے لیے مزاحمت کررہی ہیں۔ انہوں نے مسجدِ اقصیٰ کی کلنا المریم اور مروہ الشربینی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحفظِ حجاب کے خاطر شہید ہوئیں۔ حجاب مہذب اور باوقار معاشرے کی علامت ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بھی معاشرے کی بگڑتی صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیا۔ محترمہ ثنا علیم کی دعا کے ساتھ یہ باوقار اور یادگار تقریب اختتام کو پہنچی۔ آخر میں لذت ِکام و دہن سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

حصہ