مرینے کی شال

330

’’گھر… گھر… گھر‘‘ سرد رات کی تاریکی میں مشین کی آواز ماحول کے سکوت میں عجیب سا ارتعاش پیدا کررہی تھی۔
’’سوجائو نا نوری، کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ! سارا دن تم گھر پر ہی ہوتی ہو، اُس وقت یہ شور و غل مچا لیا کرو۔‘‘ تیمور نے منہ پر رکھے تکیے کو ہٹاکر شکوہ کیا تو ماہ نور نے مشین فوراً بند کردی۔
’’اوہ آپ سوئے نہیں! میں سمجھی سوگئے ہیں۔ گہری نیند میں تو شور کا پتا بھی نہیں چلتا۔‘‘ وہ معذرت خواہانہ انداز میں ہمیشہ کی طرح صفائیاں پیش کرنے لگی۔ وہ چاہ کر بھی یہ نہ کہہ پائی کہ سارا دن گھرداری، سودا سلف، بچوں کو اسکول لانا لے جانا، کھانا کھلانا، مہمان داری… یہ سب نمٹانے میں ٹائم ہی کب ملتا ہے!
’’اور پھر تمہیں ضرورت کیا ہے جان کھپانے کی؟ اچھا خاصا گزارا ہو تو جاتا ہے، کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں تمہاری اس فضول کی اضافی کمائی کا۔‘‘ تیمور نے چٹکیوں میں اُڑا دیا اس کی محنت کو۔
’’مجھے مرینے کی شال لینی ہے۔ تیمور! اِس مرتبہ تو مسز ملک کے گھر سے اتنے کپڑے آگئے ہیں کہ ان کی اجرت سے میں مرینے کی شال لے سکوں گی۔‘‘ ماہ نور نے اس مرتبہ مرینے کی شال کے خواب آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔
’’ہونہہ، کہا تو ہے لا دوں گا، تمہیں حالات کا پتا ہے، جیسے ہی ہاتھ تھوڑا کھلا ہوتا ہے میں لا دوں گا۔‘‘ تیمور نخوت سے بولا۔
’’چلو لائٹ آف کرکے سوجائو اب۔‘‘ وہ حکم دیتے ہوئے بولا اور ماہ نور روبوٹ کی طرح حکم بجا لائی۔
…٭…
’’مجھے انڈا چاہیے فرائی۔‘‘راحمہ کی آواز۔
’’اور مجھے آملیٹ۔‘‘ ارحم کہاں کم تھا!
مجھے تو فرنچ ٹوسٹ کھانے تھے، مگر چلیں آپ کہاں محنت کریں گی! ان کے ساتھ انڈا یا آملیٹ کچھ لے لوں گا۔‘‘ بڑا بیٹا عبداللہ ماں کے لیے حساس تھا، فوراً بولا تو ماہ نور نے ممنونیت سے اسے دیکھا اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔
’’نوری میرا پراٹھا تیار ہے؟ مجھے آفس کے لیے دیر ہورہی ہے۔‘‘ تیمور نے کمرے سے ہانک لگائی تو اس کے ہاتھوں میں اور زیادہ تیزی آگئی۔ اس نے سب کا من پسند ناشتا سامنے رکھا۔ تیمور کو آفس اور راحمہ کو تیمور کے ساتھ اسکول روانہ کیا، اور ارحم کی انگلی پکڑ کر عبداللہ کو ساتھ لیے گھرکو تالا لگایا۔ ان دونوں کو اسکول چھوڑا، کیوںکہ لڑکوں کا اسکول الگ تھا۔ راحمہ کو تیمور چھوڑنے جاتے تھے مگر اِن دونوںکو اسکول چھوڑنے کی ذمہ دار اس کی تھی۔ ان دونوں کو چھوڑ کو واپسی میں سودا لے کر آتے ہی پکانے اور گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑوں کی دھلائی کے بعد صرف اتنا وقت ملا کہ وہ آدھے گھنٹے میں نہاکر تازہ دم ہوجائے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور تازہ دم ہوکر اپنے لیے چائے گرم کرکے پی، اور بچوں کو لانے کے لیے روانہ ہوگئی۔ سب کو لاکر کھانا کھلا کر سلایا، مگر عبداللہ اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہا۔ حسبِ معمول وہ نہیں سویا۔
’’عبداللہ کیوں تنگ کرتے ہو، سو جائو نا۔‘‘ ماہ نور نے کہا۔
’’تو پھر آپ بھی سوئیں۔‘‘ عبداللہ نے اصرار کیا۔
’’نہیں مجھے نیند نہیں آتی۔‘‘ ماہ نور نے کہا۔
’’جی نہیں، اتنا کام کرنے کے بعد تھک کر ٹوٹ کر نیند آتی ہے۔‘‘ عبداللہ نے ترنت جواب دیا۔
’’عبداللہ! تم بہت زیادہ ہی بڑے نہیں ہوگئے؟‘‘ماہ نور نے سرزنش کی۔
’’جی مما! میں آپ کا پہلا بیٹا ہوں یعنی بڑا بیٹا، تو ظاہر ہے بڑا تو ہونا ہی ہے، بلکہ مجھے بڑا بننے کی کوشش کرنی ہوگی آپ کے لیے۔‘‘ عبداللہ نے مدبرانہ اندازمیں فلسفہ پیش کیا، اور ماہ نور نظروں ہی نظروں میں اُسے محبت آمیز انداز میں دیکھ کر رہ گئی۔
’’اچھا چلو ہٹو، مجھے یہ کپڑے کل تک دینے ہیں، پھر رات کو تمہارے بابا سینے نہیں دیں گے۔‘‘
’’کیوں سیتی ہیں آخر آپ؟ کیوں اتنی محنت کرتی ہیں؟ جب کہ کبھی بھی ان کے پیسے آپ کی ذات پر نہیں لگتے، ہر مرتبہ آپ جس چیز کو ٹارگٹ کرکے کماتی ہیں کبھی بھی آپ اُس ٹارگٹ پر خرچ نہیں کرپاتیں۔‘‘ عبداللہ سب جانتا تھا۔
’’نہیں، اِس مرتبہ تو کوئی ایسا خرچا نہیں ہے، تم سب کی فیسیں وغیرہ نارمل چل رہی ہیں، باقی خرچے بھی ٹھیک ہیں، اِس مرتبہ تو مجھے مرینے کی شال لینی ہے۔ ہر مرتبہ سردیوں میں سوچ کر رہ جاتی ہوں مگر کچھ بچتا ہی نہیں، اب کی مرتبہ اور کوئی خرچا سامنے نہیں ہے، ان پیسوں کی تو لازمی میں مرینے کی شال لوں گی۔‘‘ ماہ نور کی آنکھوں میں مرینے کی شال کے نام سے عجیب سی جوت جلنے لگی۔
’’شرط لگا لیں آپ اِس مرتبہ بھی نہیں لے پائیں گی۔‘‘ عبداللہ کو خاصا تجربہ تھا۔ عمر میں تو ماں اُس سے بڑی تھی مگر تجربے میں وہ بڑا تھا، اُسے پتا تھا کہ اُس کی ماں اندر سے وہ معصوم سی بچی ہے جو اپنی پاکٹ منی جمع کر کرکے اسکول میں بھوک برداشت کرکے بھی جب مہینے کے آخر میں گڑیا خریدنے کے لائق ہوتی ہے تو اس کے بڑے اسے بہلا پھسلا کر گھر کے خرچوں کی مد میں پریشانی دکھاکر اس ہمدرد بچی کا سارا جیب خرچ لے اڑتے ہیں۔ عبداللہ نے مدبرانہ انداز میں کہا:
’’مما کوئی فائدہ نہیں آپ کے محنت کرنے کا، ایک تو اس محنت کا پھل بھی آپ سے لے لیا جائے گا اورمحنت کی قدر بھی نہیں کی جائے گی۔‘‘
’’اچھا بس خاموش ہو جائو ،مجھے کام کرنے دو۔‘‘
…٭…
’’دیکھو دروازے پر کون ہے۔‘‘ ماہ نور دروازے کو لگاتار بجتے دیکھ کر عبداللہ سے بولی۔ آج وہ بہت خوش تھی، مسز ملک ابھی ابھی اپنے کپڑے لے کر پورے پانچ ہزارروپے سلائی کی مد میں اسے ادا کرکے گئی تھیں کہ بجتے دروازے سے چونک گئی۔ عبداللہ دروازہ کھول چکا تھا اور تیمور اندر چلا آیا۔
’’ارے آج جلدی آگئے اور پیدل! بائیک کہاں ہیں؟‘‘ اس نے تیمور کے ہاتھ سے بریف کیس لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’مکینک کے پاس دیتے ہوئے آیا ہوں۔‘‘ تیمور نے جواب دیا اور تخت پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا۔
’’کیوں کیا ہوا بائیک کو؟‘‘ تیمور کو پانی کا گلاس تھماتے ہوئے ماہ نور نے استفسار کیا۔
’’تمہیں کیا، تم اپنی آسائشوں کو دیکھو، یہ مسائل تو میرے حصے میں ہی آئے ہیں، پہلے ہی مہینہ اتنی مشکل سے پورا ہوتا ہے اس پر اب یہ بائیک بھی خراب ہوگئی، پتا نہیں کتنے پیسے لگ جائیں؟‘‘
تیمور کو پریشان دیکھ کر ماہ نور اُس سے زیادہ پریشان ہوگئی۔
’’تو کیا ہوا، بیماری سے پہلے اللہ نے علاج کا اہتمام کردیا ہے، یہ دیکھیں پورے پانچ ہزار ابھی ابھی مسز ملک دے کر گئی ہیں۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں! آپ یہ لے لیں، بائیک پر جتنے پیسے لگیں آپ یہ رکھ لیں، تھوڑا آسرا تو ہوگا۔‘‘ ماہ نور نے ہاتھ میں پکڑے روپے تیمور کو تھما دیے۔
’’ارے ان پیسوں سے کیا ہوگا! ویسے بھی عورتوں کی کمائی میں برکت کہاں ہوتی ہے، رہنے دو۔‘‘ تیمور نے روپے رکھتے ہوئے گویا ان کی ویلیو کو ہوا میں اُڑا دیا۔
’’ہاں نا، اللہ آپ کو سلامت رکھے، آپ کی تنخواہ سے ہی گھر چل رہا ہے، یہ تو بس ویسے ہی…‘‘ ماہ نور تیمور کی بات کو رد کردے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
صحن میں کھڑا عبداللہ ماں، باپ کی گفتگو سن کر مسکرا دیا۔

حصہ