ہم ان کے لئے اہم

279

’’ہم ان کے لیے اہم …واہ رے دل ترے وہم‘‘
بہت ہی عجیب احساس ہوتا ہے جب ہم کو یہ پتا چلے کہ ہماری کہیں بھی کمی محسوس نہیں کی جاتی، ہم جو اپنے آپ کو ایک اہم شخصیت سمجھتے ہیں اور ہر جگہ ہم کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہو تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہمارے بغیر ہر محفل ادھوری ہوگی۔ ہماری خوش فہمی ہوتی ہے کہ سب نے ہماری کمی کو بہت زیادہ محسوس کیا ہوگا، بلکہ محفل کو تو رہنے ہی دیں، ہم اپنے گھر سے ایک دن کے لیے بھی چلے جائیں اور باقی افرادِ خانہ گھر پر ہوں تو ہم واپس آکر ایسے جملوں سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ ’’آپ کے نہ ہونے سے گھر کا سارا نظام الٹ پلٹ ہوگیا‘‘، یا ’’آپ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔‘‘ (مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ جملے بس زبانی جمع خرچ تھے، ہمارے بغیر بھی گھر کا نظام بہ خوبی چل سکتا ہے ) اور پھر اگلے ہی لمحے سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوجاتے ہیں۔
مگر ایسا ہی کچھ اُس وقت بھی ہوتا ہے جب کوئی بہت ہی پیارا دنیا سے چلا جاتا ہے، اور ایک لمحہ ایسا لگتا ہے کہ اب تو کارخانۂ زندگی چل ہی نہیں سکتا، مگر دوسرے ہی دن سے ہم زندگی کی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں کہ یہ تو دنیا کا دستور ہے، ایک وجود دنیا میں آتا ہے اور ایک دنیا سے جاتا ہے، ہر آنے والے کو ایک نہ ایک دن جانا ہے۔ اس بے وقعتی کا احساس اُس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب کسی واٹس ایپ گروپ سے اچانک رابطہ ختم کردو، یا فیس بک پر بہت زیادہ حاضری لگاتے لگاتے اچانک گم نام ہوجاؤ اور پھر کوئی پلٹ کر بھی نہ پوچھے کہ ’’کہاں غائب ہو؟ زندہ بھی ہو یا گزر گئیں؟‘‘
فیس بک یا واٹس ایپ کا حوالہ اس لیے دے رہی ہوں کہ اگر ہم اس پر بہت زیادہ ایکٹو ہوں تو اپنے آپ کو بہت طرم خان سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے:
’’یہ محفل جو آج سجی ہے
اس محفل میں ہے کوئی ہم سا
ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘
مگر یہ ہماری بھول ہے۔ ہم جیسے تو ہزاروں بلکہ لاکھوں، کروڑوں ہوتے ہیں۔ ہائے بے وقعتی، اپنی اس ناقدری پر دل خون کے آنسو رو دیتا ہے کہ افسوس کسی کو بھی کمی محسوس نہ ہوئی، تو آگاہی ہوئی کہ یہی دنیا کا دستور ہے۔ شاعر نے یونہی تو نہیں کہہ دیا ناکہ
ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی فرقتیں
دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے
اور دنیا یونہی چلتی ہے، ’’آج وہ تو کل ہماری باری ہے‘‘۔ انسان جتنا بے وقعت ہے شاید ہی کوئی سمجھ سکے، مگر سب ایک دوسرے کو گرانے میں لگے رہتے ہیں، کسی کی کامیابی سے کسی کو حسد ہوتا ہے تو کسی کو جلن۔ خوش ہونے والے تو بہت کم ہیں، اور آج کے دور میں تو ایک آدھ ہی ایسا ہوتا ہے جو انسانیت کی معراج کو پہنچتا ہے، جو لوگوں کی خوشی میں خوش اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھے، اور یہ جان لے کہ ہماری زندگی صرف ہمارے اپنے لیے اہم ہے، اور ہم سب کو صرف ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور وقت بدلنے پر ضرورت کوئی بھی پوری کرسکتا ہے۔

حصہ