اقبال اور اقبالیات پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خصوصی انٹرویو

1075

اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اقبال کی زندگی کا بڑا مقصد تھا اقبال نے جو کچھ چاہا تھا قائد اعظم نے اسے پورا کرنے کی کوشش کی اقبال اور اقبالیات پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خصوصی انٹرویو

اقبالؒ عہدِ حاضر میں ہماری علمی اور فکری روایت کا سب سے اہم حوالہ ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مسائل پر اس کی گہرائیوں میں اتر کر سوچا، سمجھا تھا اور تخلیقی کرب سے گزر کر اپنی شاعری اور نثر سے امتِ مسلمہ کے لیے راہیں متعین کیں۔ ان کی شاعری انہیں دورِ جدید میں امتِ مسلمہ کا سب سے مؤثر فکری رہنما بناتی ہے۔ ہماری قومی زندگی کی صورت گری میں کردار و گفتار کی بیشتر ضروریات اقبالؒ کے خیالات کو نمونہ بناکر پوری ہوتی ہیں۔ امتِ مسلمہ کے مُردہ جسم میں روح پھونکنے کا کام انہوں نے کیا اور پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے آگے بڑھایا۔ اب امتِ مسلمہ میں بیداری کی جو بھی لہریں اٹھ رہی ہیں یا مستقبل بعید میں اٹھیں گی، ان میں سے اکثر اقبال کے سرچشمۂ فکر ہی سے ہوں گی۔ جہاں اقبال کے افکار و خیالات پر بہت کام ہوا ہے اور سیکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں، وہیں بے جا تعصب اور ’’اسلام کی چڑ‘‘ کی وجہ سے ’’انہدامِ اقبال‘‘ کی منظم مہم بھی چلائی گئی ہے۔ اس پس منظر میں احمد جاوید کہتے ہیں کہ ’’اقبال کی مسلمہ حیثیت ان کی شخصیت کا سب سے بڑا بلکہ واحد عنوان ہے۔ اس سے واقف ہوجانے کے بعد کسی شخص کو بشرطیکہ وہ آدمیت سے بالکل ہی محروم نہ ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقبال کی چھوٹی موٹی کمزوریاں تلاش اور مزے لے لے کر بیان کرنے بیٹھ جائے۔ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ ناکام و نامراد لوگوں کو سمجھنے کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن اقبال جیسی شخصیت پر اس کا اطلاق ایسے ہی ہے جیسے کوئی مستری ہمالیہ کی ساخت کے نقائص ڈھونڈنے میں لگ جائے‘‘۔
ہم نے اقبال ؒ کی شخصیت، فکر اور خیال، اور ان پر ہونے والی تنقیدوں کے پس منظر میں ممتاز دانشور اور ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے تفصیلی گفتگو کی ہے جو اقبال اور ان کی فکر سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جواب کے ساتھ اقبال کی شخصیت کے نئے پہلوئوں سے بھی روشناس کرائے گی۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ماہر ِتعلیم، محقق، نقاد اور ماہرِ اقبالیات ہیں۔ آپ نے اقبال کی شاعری اور نثر کا مطالعہ ریاضت سے کیا ہے۔ ہاشمی صاحب اگرچہ ریٹائر ہوچکے ہیں مگر تاحال علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں میں منہمک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: اقبال سے دل چسپی کیسے پیدا ہوئی؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی : ہمارے گھر میں ’’بانگ ِدرا‘‘ کا ایک نسخہ تھا، میں اُسے پڑھتا رہتا تھا۔ اس میں جو ابتدائی نظمیں ہیں، مثلاً :لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری،یا پرندے کی فریاد،یا ہمدردی… تو اس طرح کی نظمیں اچھی لگتی تھیں، باقی نظمیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ جب میٹرک میں پہنچا تو اقبال کی کچھ اور نظمیں پڑھیں، کچھ اور سمجھ میں آئیں۔ بی اے اور ایم اے میں مزید سمجھ میں آئیں۔ ایم اے میں داخلہ لیا تو ’’علامہ اقبال کا فنی مطالعہ ‘‘کے عنوان سے ایک پرچہ شاملِ نصاب تھا۔ چنانچہ اقبال کو کچھ اور تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں اردو اور فارسی شاعری کا کچھ حصہ بھی تھا، نثر کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن اس سے علامہ کی شاعری اور فکر میں دلچسپی اور بڑھی۔ایم اے کرنے کے بعد خیال آیا کہ’’ اقبال کی طویل نظموں کا فکری و فنی مطالعہ ‘‘پر کوئی ایسا یکجا لوازمہ یا میٹریل نہیں ہے جس سے طلبہ کو امتحان کی تیاری میں آسانی ہو۔ہمارے ایک دوست تھے ڈاکٹر معین الرحمٰن ، جن کے بڑے بھائی متین الرحمٰن مرتضیٰ’’ جسارت‘‘ کے مدیر رہے۔ معین صاحب سے مشورہ ہوا تو میں نے اقبال کی ایک طویل نظم ’’ شمع اور شاعر‘‘ پر مضمون لکھا، پھر ’’خضرِ راہ‘‘ پر لکھا، پھر ایک اور نظم پر.. لکھتا گیا ، یوں میری پہلی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں ‘‘ تیار اور شائع ہوئی۔ 1974ء میں جب میں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا تو اس میں بھی میرا موضوع اقبال پر ہی طے ہوا۔ 1977ء میں جب ’اقبال صدی‘ منائی گئی تو میں نے ’’نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات ولادتِ علامہ محمد اقبال‘‘کو ایک خاکہ’’کتابیاتِ اقبال‘‘ کا بنا کر بھیجا۔ اُس وقت تک اردو میں ایسی کوئی کتاب نہیں تھی، چنانچہ انھوں نے اسے منظور کرلیا۔ وہ کتاب اقبالیات کی چند منتخب کتابوں میں شمار ہوئی۔ اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ تو اس کے بعد اقبال پر لکھنے اور تحقیق و تنقید کا سلسلہ ابھی تک چلا آرہا ہے۔
سوال: اقبالیات یا اقبال کے مطالعے کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اقبال کی شاعری کے مطالعے کی اوّلین اہمیت یہ ہے کہ اس کا مرکزی موضوع ’’ہم‘‘یعنی ملتِ اسلامیہ ہے۔ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ان کی زندگی کا بڑا مقصد تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایک آدمی ہے جو ملت کو اوپر اٹھانے کی کوشش اور تگ و دو میں مصروف ہے۔ دوسری اہمیت پاکستان کے حوالے سے ہے کہ پاکستان کے قیام میں بہت سے لوگوں کی کاوشوں کا دخل ہے، لیکن اس مطالبے کو علامہ اقبال نے جس نمایاں طریقے سے پیش کیا خطبہ الٰہ آباد کی صورت میں، اور اس کے نتیجے میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی اور پھر قائداعظم کی قیادت میں پاکستان وجود میں آیا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے ہم پاکستانیوں کے لیے اقبال کو پڑھنے کی۔ مزید یہ ہے کہ جب قراردادِ لاہور منظور ہوئی تو دوسرے دن قائداعظم نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے کہا کہ علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو وہ محسوس کرتے کہ جو کچھ انہوں نے چاہا تھا، ہم نے وہی کچھ کیا ہے۔ یعنی پاکستان کے قیام کا مطالبہ اقبال کی خواہش کے مطابق کیا ہے۔ لیکن خیال رہے کہ اقبال کی خواہش صرف یہیں تک نہیں تھی، بلکہ اس سے آگے بھی کچھ باتیں تھیں، اور قائداعظم کے نام جو خط ہیں، اُن سے محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال یہ کہتے تھے کہ جو مسئلہ معاشیات کاہے اور روٹی کا ہے، اس کو حل کرنا بہت ضروری ہے، اور وہ حل ہوگا اسلامی شریعت کے نفاذ سے، اور اسلامی شریعت اُس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایک آزاد اسلامی مملکت وجود میں نہ آجائے۔ اب 1947ء میں پاکستان تو قائم ہوگیا اور اس کے بعد قائداعظم نے جو تقریریں کیں 1947ء سے کچھ پہلے بھی اور1947ء کے بعد بھی،اِن تقریروں کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں بالکل وہی باتیں ہیں جو علامہ اقبال چاہتے تھے۔ انہی چیزوں کے لیے وہ بھی بار بار کہہ رہے تھے اور اسی لیے کوشش کررہے تھے کہ روٹی اور اقتصادی مسئلہ بھی حل ہوگا اور اسلامی قوانین بھی نافذ ہوں گے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم نے اُن کے مقاصد یعنی اسلامی مملکت کا قیام اور نفاذِ شریعت کو نکال کر ایک طرف کردیا۔ جب نفاذِ شریعت کو ملتوی کردیا تو آج تک کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوا، اسی لیے اقبال آج بھی یاد آتے ہیں اور یہی اہمیت ہے اقبال کے مطالعے کی ۔یہاں تھوڑی سی وضاحت کردوں کہ ہمارا لبرل اور سیکولر طبقہ اسلام اور شریعت سے بدکتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان سے ان کا کیا تعلق! قائد اعظم نے اس طبقے کی ذہنیت کے پیشِ نظر 25 جنوری 1948ء کو میلاد النبیؐ کے موقع پر ایسے لوگوں کی مذمت کی۔ ان کے الفاظ ہیں :
Who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat. Islamic principles today are as applicable to life as the were 1300 years ago
اقبال نے جو کچھ چاہا تھا قائداعظم نے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر اُن کے سیاسی ورثا نے اقبال اور قائداعظم کے مقاصدِ قیام پاکستان کو پسِ پشت ڈالا اور روپیہ پیسہ بنانے ا ور جمع کرنے میں لگ گئے۔
سوال: آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خطبۂ الٰہ آباد کی روح کے مطابق پاکستان قائم ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی جو پاکستان کے ایک معروف تاریخ دان ہیں، کہتے ہیں کہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے ایک ریاست کی بات کی تھی جب کہ پاکستان وفاق سے باہر ایک خودمختار ریاست ہے، چنانچہ ایسی ریاست کا تصور، اقبال کا تصور نہیں ہوسکتا۔ آپ اُن کے اِن خیالات کو تاریخ اور تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ اشتراکی ہیں، کمیونسٹ اور مارکسسٹ ہیں۔ یہ اُن کی تحریروں سے بہت واضح ہے۔ اقبال ہوں، سرسید ہوں، یا قائداعظم… اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کرنے والے جتنے بھی لوگ ہیں، وہ سب ان کی نظر میں معتوب ہیں۔ خطبہ ٔ الٰہ آباد میں بلاشبہ اقبال نے Muslim India within India کی بات کی تھی، مگر یہ سات سال پرانی بات ہے۔ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط خصوصاً 28مئی 1937ء کا خط دیکھیے، جس میں وہ واضح طور پر Free Muslim State کی بات کرتے ہیں، تاکہ وہاں اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ Free Muslim State، وفاقی ہندوستان کے اندر کیسے قائم ہوسکتی تھی؟
سوال: ڈاکٹر مبارک علی اور دیگر یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف کچھ نہیں لکھا، ان کا یہ کہنا کس حد تک حقائق کے قریب ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اگر انہوں نے پورے اقبال کا مطالعہ کیا ہے، شاعری کا بھی اور اُن کی نثر کا بھی، تو تعجب ہے کہ وہ ایسا دعویٰ کیونکر کرتے ہیں؟اقبال نے بہت کھل کر سامراج کی مذمت کی ہے چاہے برطانیہ ہو یا دوسرے یورپی ممالک۔خاص طورپر تین نظموں شمع اور شاعر (1912ء)، خضرِراہ (1921ء) اور طلوعِ اسلام (1923ء) میں… اور ان کے علاوہ اردو اور فارسی شاعری میں بھی شدید تنقید کی ہے۔ میرا خیال ہے اس زمانے میں کسی اور شاعر نے سوائے اکبر الٰہ آبادی کے، ایسی تنقید نہیں کی۔خیال رہے کہ برطانوی سامراج، مغربی تہذیب (سرمایہ داری)ہی کاپروردہ تھا اوراقبال نے مغرب اور مغربی تہذیب پرشدت اورکثرت سے تنقید کی ہے۔دیکھیے اقبال کیا کہتے ہیں :
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نو اے قیصری
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
گرمیِ گفتارِ اعضاے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ ِ زر گری
اور’ سر ما یہ ومحنت ‘ کے زیر عنو ان ’سر ما یہ دا رِ حیلہ گر‘ کے با رے میں یوں اظہا رِ خیا ل کر تے ہیں:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تُو اے بے خبر! سمجھا اسے شاخِ نبات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
’خواجگی‘ نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
پھر نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ (1923ء) میں فرماتے ہیں کہ:
ابھی تک آدمی صید زبوں شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
سوال: اقبال کے مخالف ایک بات یہ کہتے ہیں کہ ’’اقبال نے سر کا خطاب کیوں قبول کیا؟‘‘
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: جب یہ خطاب ملا اُس وقت بھی اعتراض کیا گیا۔ اقبال کے بعض قریبی دوستوں کو بھی کسی قدر تشویش ہوئی، چنانچہ اقبال کو وضاحت کرنی پڑی۔ میر غلام بھیک نیرنگ کا خط آیا تو4جنوری 1924ء کو انھیں لکھا:’’دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اِن شاء اللہ۔ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں، لیکن اس کا دل مومن ہے۔‘‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اس موضوع پر کچھ لکھا تو اقبال نے 6 جنوری کو جواباً عرض کیا: ’’یہ بات دنیا کو عنقریب معلوم ہوجائے گی کہ اقبال کلمۂ حق کہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ ہاں، کھلی کھلی جنگ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔‘‘
دراصل’’سر‘‘ کا خطاب، اُس زمانے میں ایک طرح کا اعزاز سمجھا جاتا تھا، علامہ اقبال نے ’’سر‘‘ کا خطاب قبول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی، کیونکہ یہ کوئی انوکھا یا نیا واقعہ نہ تھا۔ اقبال کے متعدد احباب اور بعض عمائد (جن میں ہندو، مسلمان اور سکھ بھی شامل تھے) اقبال سے قبل، یہ خطاب قبول کرچکے تھے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات حکومتیں کچھ لوگوں کو رام کرنے اور ان کا منہ بند کرنے کے لیے بھی خطاب دیتی ہیں، لیکن بسا اوقات خطابات علمی، ادبی، سماجی، سائنسی اور تحقیقی نوعیت کی خدمات کی بنا پر دیے جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں فضا انگریزی حکومت کے خلاف بہت مکدّر تھی اور حکومت سے کسی طرح کی قربت یا وابستگی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، اور اسی وجہ سے اقبال پر تنقید بھی کی گئی، لیکن اقبال مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے اور ہمیشہ محاذ آرائی سے بچتے۔ انھیں گوارا نہ تھا کہ کسی کی دل شکنی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ خطاب کی پیش کش پر پہلے تو اقبال نے انکار کردیا اور کہا: ”مَیں خطابات و اعزازات کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا“۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ اس انکار سے گورنر کی طبیعت مکدّر سی ہوگئی۔ اس پر علامہ نے کہا کہ اگر آپ کو اصرار ہے تو خیر، یوں ہی سہی۔ اب گورنر کے چہرے پر شگفتگی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ اپنے اسی رویّے اور افتادِ طبع کے سبب انھوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا تھا کہ کھلی کھلی جنگ میری فطرت کے خلاف ہے۔
اگر ہم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بعض ایسے لوگوں نے بھی انگریزی خطابات قبول کیے، جو انگریزوں کے زبردست ناقد رہے(جیسے: شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی)، خود اقبال نے بھی سر کا خطاب ملنے سے قبل اور اس کے بعد بھی انگریزی حکومت، برطانوی استعمار، تہذیبِ مغرب، سرمایہ داری اور سامراجیت پر بڑی بے باکی اور تواتر کے ساتھ تنقید کی۔ خطاب (یکم جنوری1923ء) سے قبل اپریل1922ء میں اقبال نے نظم ’’خضرِراہ‘‘ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی، جس میں ’’سلطنت‘‘ اور پھر ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے زیرعنوان مغرب، مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے اداروں پر شدید تنقید کی۔ اس تنقید کے بعد یکم جنوری 1923ء کو انھیں سر کا خطاب ملا، مگر یہ خطاب انھیں تنقید سے باز نہیں رکھ سکا۔ دو ماہ بعد ہی 30 مارچ کو انھوں نے انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ پڑھی، جس میں سرمایہ داری، تہذیبِ حاضر اور مغربی (برطانوی) استعمار پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ تنقید اور یہ سارے اشعار اقبال نے حکومتِ وقت کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہے تھے۔ ایسے ہی ’باغیانہ خیالات‘ کی بنا پر حکومت کے حسبِ ہدایت اقبال کی شاعری کے حوالے سے خفیہ رپورٹیں تیار کی جاتی تھیں۔ ’’تصویرِ درد‘‘ اور ’’شمع اور شاعر‘‘ کے انگریزی تراجم کرائے گئے، تاکہ اردو سے نابلد انگریز حکام، اقبال کے خیالات سے آگاہ ہوسکیں۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ سر کا خطاب قبول کرنے میں برطانوی استعمار کی تائید کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔

حصہ