ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے

293

’’ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے‘‘۔ یہ عنوان تھا جامعات المحصنات پاکستان کے پرنسپلز کنونشن کا، جس کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ تین دن تک جاری رہنے والے اس کنونشن میں صدر جامعات ثوبیہ عبدالسلام اپنی مرکزی ٹیم کے ہمراہ موجود تھیں، 19 جامعات کی پرنسپلز اپنی نائبین کے ساتھ اور مقامی نگرانات بھی یہاں تھیں۔ اس کنونشن کا مقصد مرکزی نظم کی جانب سے وضع کی گئی پالیسیوں کو پرنسپلز تک پہنچانا تھا۔ پرنسپلز اپنے دائرۂ کار میں کیسے کام کریں گی‘ انہیں کیا مسائل پیش آتے ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے بھی تربیت کا اہتما م کیا گیا تھا تاکہ جامعات کے مربوط نظام میں مزید بہتری لائی جا سکے۔ شعبہ تعلیم نے پرنسپلز اور تدریسی عملے کی تربیت کے لیے مختلف ورکشاپس کا اہتما م بھی کیا تھا۔
کنونشن کے پہلے روز ’’مثالی پرنسپلز‘‘ کے عنوان سے عظیم صدیقی نے ایک تربیتی نشست کروائی جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ کون سے خواص ہوتے ہیں جو ایک پرنسپل کو مثالی بناتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کو مروجہ اصول و ضوابط کے تحت چلانے کے لیے اس کے سربراہ میں دو اہم خصوصیات ضروری ہیں: ایک صالحیت، دوسری صلاحیت۔ یہ دو زاویے انسانی شخصیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حالات کے پیش نظر ادارے کی حکمت عملی وضع کرنا، افراد کو ساتھ لے کر چلنا، اور باریک بینی سے مشاہدے کی خصوصیت ہی اسے ایک بہترین قائد بنا سکتی ہے۔
جامعات المحصنات پاکستان کی نائب نگران ایمان صادقہ نے پالیسیوں کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی سمت میں یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے کچھ رہنما اصول بنائے جاتے ہیں، دراصل یہی پالیسیاں ہوتی ہیں جن کی پابندی کروانا ادارے کے منتظمین کا کام ہے، اور اس کی پاسداری سب پر فرض ہے۔
’’اگر ہم کامیابی اور حصولِ مقصد کی طرف دیکھیں تو ہر کامیابی کے پیچھے قربانی نظر آتی ہے۔‘‘ یہ کہنا تھا سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان دردانہ صدیقی کا، انہوں نے ’’مثالی جامعہ‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی۔ دردانہ صدیقی نے کہا کہ جامعات المحصنات کا وژن ہمیں مولانا مودودیؒ سے ملا ہے اور یہی وژن ہمیں تدریسی عمل کے ذریعے طالبات کے ذہنوں میں راسخ کرنا ہے کہ دنیا اور آخرت دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ نائب نگران جامعات فرحانہ کوثر اور ہاجرہ عزیز نے پرنسپلز اور تدریسی عملے کو نصاب اور اس کی منصوبہ بندی سے جڑے اہم نکات بتائے تاکہ سالانہ اہداف تک پہنچنا آسان ہوسکے۔ طالبات کی دل چسپی نصاب میں برقرار رکھنے کے لیے معلمہ انہیں کیسے آمادہ کرسکتی ہے، طالبات کے درمیان ہم نصابی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔
کنونشن کے دوسرے دن کا آغاز نائب قیمہ جماعت اسلامی عطیہ نثار کے قرآن ڈسکشن سے ہوا جس کے بعد ’’من عرف نفسہ‘‘ کے موضوع پر عائشہ یاسمین نے ایک ورکشاپ کروائی۔ عائشہ یاسمین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سے انسان کو علم کی دولت سے نواز کر اسے سب پر فضیلت عطا کی ہے۔ اسے اپنی اطاعت و بندگی کے لیے چن لیا اور باقی تمام چیزوں کو اس کی خدمت میں دے دیا۔
’’تربیتی امور‘‘ کے عنوان سے رکن شعبہ ارتقائے نظام قرۃالعین کامران نے پرنسپلز کے سامنے کچھ اہم نکات رکھے کہ اسٹاف کی تربیتی ضروریات کو پورا کرنا اور معلمات کی فکری و مہارتی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ایک پرنسپل کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ نائب نگران شعبہ تعلیم نائلہ اقتدار نے اپنے تربیتی پروگرام کا نام ’’داعی اور معاشرہ‘‘ رکھا تھا، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس پروگرام کے اختتام پر حاضرین ایک اسلامی تعلیمی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کا ڈھانچہ پانچ نکات پر کھڑا ہو یعنی: مشن، نصاب، مالیات، تربیت یافتہ اساتذہ اور طریقۂ تدریس۔ نائلہ اقتدار نے مولانا مودودیؒ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جن نئے انسانوں نے جنم لیا ہے اور ان کے اندر جو بالقوہ موجود ہے اور ابھی خام حالت میں ہے، اُس کو بنا سنوار کر اخلاقی طریقے پر نشوونما دے کر اس قابل بنایا جائے کہ جس معاشرے میں انہوں نے جنم لیا ہے اس کے مفید اور کارآمد فرد اور معاشرے کی فلاح و ترقی کا ذریعہ بنیں۔
کنونشن کے تیسرے اور آخری روز پروگرام کا آغاز قاری فضل اکبر کے درس و حدیث سے ہوا، موضوع تھا ’’اخلاقیات‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اندرونی قوت اور کیفیت کا نام اخلاقیات ہے، نبی کریمؐ کو معلم اخلاق کہا جاتا ہے، ان کے اخلاق کی بنا پر ہی بہت سارے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ مکارمِ اخلاق کو مکمل کیا جائے حتیٰ کہ چلنے کا جو انداز ہے اس کو بھی اخلاقیات میں شامل کیا گیا اور کہا کہ ’’نرمی سے چلو۔‘‘
’’قیادت کی تیاری‘‘ کے کچھ اہم نکات نائلہ اقتدار نے سامنے رکھے کہ کسی بھی قوم میں دو چیزیں ہوں تو وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے: ایک خودی اور دوسری ٹیکنالوجی۔ چیزوں کی تیاری میں خرابی ہوجائے تو ان کو نئے سرے سے بنایا جا سکتا ہے، لیکن اگر انسان کی تیاری میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کا ازالہ ممکن نہیں۔
جامعات کے درمیان تصویر کہانی اور مضمون نویسی کے مقابلے کروائے گئے تھے جس میں طالبات کو ’’6 ستمبر‘‘ کا موضوع دیا گیا تھا۔ کنونشن کے آخری مرحلے میں مضمون نویسی اور تصویر کہانی کے نتائج کا بھی اعلان کیا گیا اور کامیاب ہونے والی طالبات میں نقد انعامات تقسیم کیے گئے۔ اس کنونشن کا اختتام جامعات المحصنات پاکستان کی صدر ثوبیہ عبدالسلام کے الوداعی خطاب پر ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ جس طرح نبی کریمؐ نے اپنے اصحاب سے اللہ کی رضا کی خاطر محبت کا تعلق رکھا اسی طرح ہمیں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کی خاطر قائم کیا گیا تعلق دنیا و آخرت دونوں جہان میں قائم رہتا ہے، انسان روزِ قیامت انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن سے اس کا قلبی تعلق ہوگا۔ المحصنات کے تحت جامعات کا مقصد صالح معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈالنا اور ایسی داعیات اور عالمات کی تیاری ہے جو اسلامی معاشرے کے قیام میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔
اس دعا کے ساتھ کنونشن کا اختتام ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان ساری محنتوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے اور ہمیں ہمارے کام میں استقامت بخشے۔

حصہ