اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام تصوراتِ حسن و فن مذاکرہ و مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ اس موقع پر اختر سعیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوپل اسٹون نے اپنی کتاب The History of Philsphy میں افلاطون کے تصور حسن کی تشریح کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا افلاطون فطری حسن کی تحسین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ افلاطون کے مکالموں میں بہت کم مواد ایسا ہے جو ہمیں ایک نقطۂ نظر بنانے میں مدد دے۔ اگرچہ فائید ڈرسر کی ابتدا میں قدرتی منظر کا بیان ملتا ہے۔ ’’قوانین‘‘ کی ابتدا میں بھی قدرتی حسن کے بارے میں کچھ خیالات کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن محولہ دونوں مقامات پر منظر کی خوب صورتی کو افادی نقطۂ نظر سے دیکھا گیا ہے اور اس کی اس حوالے سے تحسین کی گئی ہے۔ یوں اس کے یہاں منظر کی خوب صورتی سے مراد آرام کرنے کی کوئی ایسی جگہ ہو سکتی ہے جہاں بیٹھ کر فلسفے پر مکالمہ کیا جاسکے۔ سندھی زبان کے نامور شاعر سجاد میرانی نے کہا کہ یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا افلاطون خالص آرٹ کی حقیقتاً تحسین کا قائل ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اس نے المیہ ڈراما نگاروں اور ایپک شاعروں کو اپنی مثالی ریاست سے نکال باہر کرنے کی خواہش کو سند اور جواز اپنی مابعد الطبعیات اور اخلاقیات سے فراہم کیا۔ ’’جمہوریہ‘‘ میں تحریر کردہ سقراط کے یہ الفاظ مکمل طور پر طنزیہ نہیں اگرچہ ہم ہومر کی تعریف و تحسین کرتے ہیں لیکن اس کے اس دعوے کی تعریف نہیں کرسکتے کہ زیوس نے ایگا میمنن کو جھوٹے خواب دکھلائے۔ اس طرح افلاطون سقراط کے منہ سے کہلواتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہومر کی محبت اور دبدبہ مجھ پر بچپن سے طاری ہے۔ یہ درست ہے کہ ہومر بلند مرتبت استاد اور المیہ ڈراما نویسوں کے گروہ کا سرخیل ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے اختلاف نہیں کرنا چاہیے یا اس کی توقیر میں مجھے سچ نہیں بولنا چاہیے۔ نسیم شیخ نے کہا کہ یہ مان لینے میں کوئی عار نہیں کہ ہومر ایک بڑا شاعر اور اوّلیں المیہ نگار ہے۔ افلاطون واضح طور پر لکھتا ہے کہ اگر شاعری اور دوسرے فنون مثالی ریاست میں داخل ہونے کا جواز فراہم کرسکیں تو ہم ان کا خیر مقدم کریں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم خود شاعری کے سحر میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر جن شعرائے کرام نے کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ سجاد میرانی‘ نسیم شیخ‘ محمد علی گوہر‘ سید اوسط علی جعفری‘ حمیدہ کشش‘ نصیر سومرو‘ وحید محسن‘ محمد رفیق مغل‘ عبدالستار رستمانی‘ رفعت اسلام صدیقی‘ شہزاد سلطانی‘ نجیب عمر‘ جمیل ادیب سید‘ کاوش کاظمی‘ نظر فاطمی‘ مہر جمالی‘ قمر جہاں قمر‘ محمد علی زیدی‘ شجاع الزماں خاں‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ تاج علی رعنا تھے۔