’’کیا ہوا؟ یہ آگ کیسے لگی؟‘‘ عاصم نے ایک آدمی کو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
اُس نے جواب دیا ’’مجھے معلوم نہیں! میں ابھی آیا ہوں‘‘۔
عاصم نے اُسے چھوڑ کر دوسرے آدمی کو اپنی طرف متوجہ کیا، لیکن وہ بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔
ایک آدمی نے آگے بڑھ کر حقارت آمیز لہجے میں کہا ’’تم اپنے چچا سے کیوں نہیں پوچھتے وہ زخمی ہونے کے بعد چیخ چیخ کر تمہیں بلا رہا تھا‘‘۔
یہ منذر تھا۔ عاصم اُس کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ ہبیرہ اپنے کمرے کے دروازے کے سامنے چٹائی پر لیٹا ہوا تھا۔
سعاد، اُس کی ماں، سالم اور چند قریبی رشتہ دار اُس کے پاس بیٹھے تھے۔ ہبیرہ کے سینے اور سعاد کے بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔
’’چچا کیا ہوا؟‘‘ عاصم نے مضطرب ہو کر سوال کیا۔
ہبیرہ نے جواب دینے کے بجائے عاصم کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ سعاد اور اُس کی ماں جو سسکیاں لے رہی تھیں، عاصم کو دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
’’تم کہاں تھے؟‘‘ قبیلے کی ایک معمر عورت نے عاصم سے سوال کیا۔
لیکن عاصم اُسے جواب دینے کے بجائے سعاد کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’سعاد تم بھی زخمی ہو۔ بتائو کیا ہوا؟‘‘
سعاد نے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا ’’کچھ نہیں! بھائی جان! میرا زخم معمولی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں زندہ ہوں کاش! دشمن کا تیر میرے دل پر لگتا‘‘۔
منذر نے آگے بڑھ کر کہا ’’بیٹی! ایسی باتیں نہ کرو۔ تمہارے غم زاد کا دل بہت نرم ہے‘‘۔
عاصم نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اچانک اُس کی نگاہ اپنے ایک نوکر پر پڑی اور اُس نے چلا کر پوچھا ’’تم کیوں خاموش ہو مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ ہمارے گھر پر کس نے حملہ کیا ہے‘‘۔
اُس نے جواب دیا ’’جناب! ہم جانوروں کا شور سن کر بیدار ہوئے تو اصطبل میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ہم نے پانچ بکریوں کے سوا باقی تمام جانور نکال لیے لیکن آگ پر قابو پانا مشکل تھا۔ آپ کے چچا باہر نکلے تو دیوار کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑ آئی اور یہ زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد سعاد اور سالم آگے بڑھے۔ سالم بچ گیا لیکن سعاد زخمی ہوگئی۔ پھر حملہ آور جنہوں نے دیوار پر چڑھ کر تیر چلائے تھے دوسری طرف کود کر بھاگ گئے۔ ہم نے ان کا پیچھا کیا تو وہ ہمارے باغ سے نکل کر گھوڑوں پر سوار ہوچکے تھے۔ صرف ایک آدمی پیدل تھا۔ ہم نے دور تک اُس کا تعاقب کیا لیکن اُس کی رفتار ہم سے تیز تھی۔ عباد نے ہمیں حکم دیا کہ تم گھر جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال کرو، میں اس کا پیچھا کرتا ہوں، چنانچہ ہم واپس آگئے‘‘۔
’’تم اُن میں سے کسی کو پہچان نہیں سکے؟‘‘
’’نہیں! انہوں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے‘‘۔
’’اور وہ آدمی جو پیدل تھا اُس کے چہرے پر بھی نقاب تھا‘‘۔
’’ہاں…!‘‘
عاصم نے کہا ’’چچا جان! میں آپ کا انتقام لوں گا۔ آپ کا زخم زیادہ گہرا تو نہیں‘‘۔
ہبیرہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور زخم کی تکلیف کے باوجود اُس کی آنکھیں مسرت سے چمکنے لگیں۔ اُس نے کہا ’’نہیں!
میں نے اپنے ہاتھ سے تیر نکال کر پھینک دیا تھا۔ ہمارے دشمنوں کو کمان پکڑنی بھی تو نہیں آتی‘‘۔
سعاد نے کہا ’’اخی! دشمن اب میرے خون کے چند قطرے بھی گرا چکا ہے۔ اور میرے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ میرا انتقام آپ کے سوا کوئی اور لے‘‘۔
تم اطمینان رکھو سعاد انہیں تمہارا خون بہت مہنگا پڑے گا۔ عاصم یہ کہہ کر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اپنے غلام کو آوازیں دینے لگا۔ ’’عباد! عباد!‘‘
ہبیرہ نے جواب دیا۔ ’’عباد یہاں نہیں ہے۔ وہ واپس آتے ہی قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ چلا گیا تھا۔ سالم اور منذر کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ گئے ہیں‘‘۔
’’کہاں گئے ہیں؟‘‘ عاصم نے بے چین ہو کر سوال کیا۔
منذر نے جواب دیا ’’وہ حملہ کرنے والوں کا سراغ لینے گئے ہیں۔ عباد اُن کا گھر دیکھ کر واپس آیا تھا۔ اور اگر انتقام کے متعلق تمہارا ارادہ تبدیل نہیں ہوگیا تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں عباد بھاگنے والے دشمن کا پیچھا کرتا ہوا جس گھر تک پہنچا تھا وہ عدی کا گھر تھا‘‘۔
ایک ثانیے کے لیے عاصم کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہو کر رہ گیا۔ پھر اچانک اُس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ وہ بھاگ کر کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں سے گھوڑے کی لگام اٹھائی۔ باہر نکلا اور آن کی آن میں ہجوم کو چیرتا ہوا صحن کے اُس کونے میں پہنچ گیا جہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ اُس کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔ پھر جب گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی تو ہبیرہ نے غرور سے اپنا سر بلند کرتے ہوئے منذر کی طرف دیکھا اور کہا ’’دیکھ لیا تم نے میرے بھائی کے بیٹے کو؟‘‘
O
جس وقت عاصم اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر عدی کے مکان کا رُخ کررہا تھا۔ شمعون انتہائی، بے چینی کی حالت میں اپنے کمرے کے اندر ٹہل رہا تھا اور اُس کا غلام سہمی ہوئی نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شمعون اچانک رُک کر اُس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ وہ عاصم تھا؟‘‘
’’جی ہاں! میں نے اُسے چاند کی روشنی میں اچھی طرح دیکھا تھا۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ عدی کے باغ میں کیا کررہا تھا‘‘۔
شمعون نے جھنجھلا کر کہا ’’وہ عدی کے باغ میں کھجوریں چرانے نہیں گیا تھا، بیوقوف! وہ اپنے چچا کے اصرار پر اُسے قتل کرنے گیا ہوگا۔ کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ یہ آگ خود بخود بھڑک اُٹھے گی اور مجھے پھونکیں مارنے کی ضرورت نہیں۔ اب تم نے میرے لیے ایک ایسی مصیبت کھڑی کردی ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔
’’جناب! میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے آپ نے کہا تھا کہ اگر کوئی تعاقب کرے تو میں اُسے عدی کے باغ تک ضرور لے جائوں‘‘۔
’’لیکن بدمعاش! تم یہ کہتے تھے کہ یثرب میں تم سے زیادہ تیز بھاگنے والا کوئی نہیں۔ پھر اُس نے تمہیں کیسے پکڑ لیا؟‘‘
’’جناب! میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میرا پیچھا کرنے والا آدمی میری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے کئی بار اِس خیال سے اپنی رفتار کم کی تھی کہ وہ کہیں مایوس ہو کر میرا پیچھا کرنا نہ چھوڑ دے لیکن عدی کے باغ میں پہنچ کر مجھے یہ کیسے معلوم ہوسکتا تھا کہ عاصم میرے قریب چھپا ہوا ہے اور وہ اچانک میری گردن دبوچ لے گا‘‘۔
شمعون نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا ’’عاصم نے تمہیں پہچان لیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں اُس نے میرے چہرے سے نقاب نوچتے ہی یہ کہا تھا کہ تم شمعون کے غلام ہو‘‘۔
’’پھر اُس نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘۔
’’جی ہاں…‘‘
’’تم بکتے ہو۔ اُس نے یقیناً تم سے یہ پوچھا ہوگا کہ تم اِس وقت عدی کے باغ میں کیوں آئے ہو۔ سچ کہو ورنہ میں تمہاری کھال اُدھیڑ دوں گا‘‘۔
’’جی ہاں! اُس نے پوچھا تھا‘‘۔
’’پھر تم نے کیا جواب دیا‘‘۔
’’جناب! میں نے یہ بہانہ کیا تھا کہ میں ڈاکوئوں کے خوف سے بھاگ رہا ہوں۔ لیکن اُس نے کہا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے اپنے آقا کے ہاں چوری کی ہے اور اُس کے نوکر تمہارا پیچھا کررہے تھے اور میں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے اُس کا یہ الزام تسلیم کرلیا‘‘۔
شمعون قدرے مطمئن ہو کر بولا۔ ’’تم نے اپنی ساری زندگی میں یہی ایک عقل کی بات کی ہے۔ اور کل تمہیں لوگوں کے سامنے چوری کرنے کے الزام میں کوڑے کھانے پڑیں گے۔ تا کہ جو لوگ عاصم سے یہ واقعہ سنیں وہ مطمئن ہوجائیں۔ لیکن میرے لیے عاصم سے جان چھڑانا مشکل ہوگا۔ وہ ایک خطرناک آدمی ہے‘‘۔
’’جناب! میں اُسے چند دن کے اندر اندر قتل کردینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ لیکن کوڑے کھانے کے بعد میرا انعام کیا ہوگا؟‘‘
شمعون نے کہا ’’تمہارا انعام یہ ہوگا کہ کوڑے لگانے والے کو ہدایت کردی جائے گی کہ وہ بہت زیادہ فرض شناسی سے کام نہ لے ورنہ تم کسی نرمی کے مستحق نہیں ہو۔ اگر تم ایک کارآمد جانور نہ ہوتے تو میں تمہارے دونوں ہاتھ کٹوا ڈالتا‘‘۔
غلام نے کہا۔ ’’جناب! آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ہبیرہ کے خاندان کے آدمی اب تک عدی کے مکان پر حملہ کرچکے ہوں گے اور صبح تک اوس و خزرج ایک فیصلہ کن معرکے کے لیے میدان میں نکل آئیں گے۔ پھر شاید آپ کو مجھے کوڑے لگانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔ ابھی تک اوس و خزرج میں سے کسی نے ایک دوسرے کے گھر پر حملہ نہیں کیا تھا۔ کل اُن کے جوش و خروش کا یہ عالم ہوگا کہ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ ہم نے جو آگ لگائی ہے اُسے بجھانا عاصم یا عدی جیسے لوگوں کے بس کی بات نہ ہوگی‘‘۔
باب ۱۰
عدی صحن میں بھاگتے ہوئے گھوڑے کی آہٹ سن کر گہری نیند سے بیدار ہوا اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے ساتھ ہی دوسرے بستر پر عتبہ سورہا تھا۔ عدی نے اُس کا بازو جھنجھوڑ کر جگایا اور کہا۔ ’’بیٹا! معلوم ہوتا ہے کوئی گھوڑا کھل گیا ہے‘‘۔
عتبہ نے اُٹھ کر کہا۔ ’’میں دیکھتا ہوں، ابا جان!‘‘
’’لیکن بیٹا! خالی ہاتھ مت جائو ہوسکتا ہے کہ باہر کوئی چور ہو‘‘۔
عتبہ نے اپنے سرہانے کی کھونٹی میں لٹکی ہوئی تلوار اُتاری اور دروازے کی طرف بڑھا۔
پاس ہی نعمان کی آواز سنائی دی۔ ’’کیا ہے ابا جان؟‘‘
’’کچھ نہیں شاید کوئی گھوڑا کھل گیا ہے‘‘۔
عتبہ نے آہستہ سے کنڈی کھولی اور کواڑ کا ایک پٹ کھول کر باہر جھانکنے لگا۔ ایک گھوڑا بدحواسی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ اور عتبہ کے لیے یہ ایک عجیب سی بات تھی۔ اچانک اُسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بھاری چیز صحن میں گری ہے۔ عتبہ باہر نکلا اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد گھوڑے کو پچکارتا ہوا آگے بڑھا۔ گھوڑا رُک گیا گلے میں اُس کے رسے کا کچھ حصہ لٹک رہا تھا۔ عتبہ نے اُسے پکڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رسّا ٹوٹا نہیں بلکہ کسی تیز چیز سے کاٹا گیا ہے۔ پھر اچانک اُس نے دیکھا کہ گھوڑے کی پچھلی ران میں ایک تیر پیوست ہے اور اُس کی حیرانی اصطرب میں تبدیل ہونے لگی۔ اُس نے جلدی سے تیر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور گھبراہٹ کے عالم میں نوکروں کو آوازیں دینے لگا۔ اصطبل کی طرف سے دوسرے گھوڑے کی ہنہناہٹ کے سوا کوئی جواب نہ آیا تو وہ گھوڑے کو لے کر آگے بڑھا لیکن چند قدم چلنے کے بعد دوبارہ رُک کر نوکروں کو آوازیں دینے لگا۔ اچانک ایک تیر اُس کے بائیں بازو پر آکر لگا اور وہ چیخ مار کر صحن کے کونے میں کھجور کے درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو تیر آئے ایک اُس کے کندھے میں پیوست ہوگیا اور دوسرا اُس کی گردن کو چھوتا ہوا نکل گیا۔ وہ ڈاکو ڈاکو کہتا ہوا ایک طرف ہٹا تو اصطبل کی طرف سے پانچ چھ مسلح آدمی نمودار ہوئے۔ عتبہ نے مڑ کر مکان کے دروازے کا رُخ کیا، لیکن پانچ اور آدمی درختوں والے کونے سے آگے بڑھ کر اُس کا راستہ روک رہے تھے۔ اب خوف کی جگہ اُس کا مدافعانہ شعور بیدار ہوچکا تھا۔ وہ تیزی سے اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ کر مکان کے آخری کمرے کی دیوار کے قریب پہنچ گیا۔ یہ سمیرا کا کمرہ تھا اور اس کی ایک چھوٹی کھڑکی صحن میں کھلتی تھی۔ حملہ آوروں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے اور اُن کی دونوں ٹولیاں عتبہ کے دائیں بائیں چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھیں۔
اچانک عدی، عمیر اور نعمان مکان سے باہر نکلے اور عتبہ کے بائیں جانب کے حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے عمیر کے پہلے وار سے ایک آدمی زخمی ہو کر گر پڑا اور باقی الٹے پائوں پیچھے ہٹنے لگے۔ عدی اور نعمان عتبہ کے قریب پہنچ گئے لیکن عمیر دشمن کو پیچھے ہٹاتا ہوا صحن کی دیوار کے قریب جاچکا تھا۔
عتبہ چلایا۔ ’’عمیر! عمیر! پیچھے آجائو، اُس طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے ہیں‘‘۔ عمیر مڑ کر پیچھے بھاگا لیکن یکے بعد دیگرے اُس کے چار تیر لگے اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔
(جاری ہے)
عتبہ چلایا۔ ’’ابا جان! آپ اندر چلے جائیے۔ یہ بہت زیادہ ہیں‘‘۔ اور ساتھ ہی اُس نے پوری شدت کے ساتھ دائیں ہاتھ کی ٹولی پر حملہ کردیا۔ عدی اور نعمان پیچھے ہٹنے کے بجائے بھاگ کر اُس سے جا ملے۔ عدی پوری قوت کے ساتھ چلا رہا تھا۔ ’’نعمان! تم اندر چلے جائو، دروازہ بند کرلو!‘‘ نعمان اُس کا کہنا ماننے کے بجائے سمیرا کو آوازیں دے کر دروازہ بند کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ عتبہ کی تلوار ایک آدمی کی گردن پر لگی اور وہ گرکر تڑپنے لگا۔ دوسرے وار میں اُس نے ایک اور آدمی کو زخمی کردیا۔ لیکن اِس کے بعد اُسے حملہ کرنے کا موقع نہ ملا۔ ایک آدمی کی تلوار اُس کے سر پر لگی اور وہ تیورا کر گرپڑا۔ ایک اور آدمی نے عتبہ پر دوسرا وار کیا لیکن عدی نے اُس کی تلوار اپنی تلوار پر روک لی۔ اور عتبہ اُٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹنے لگا۔ اِس عرصہ میں باقی حملہ آور جنہیں عمیر نے بائیں ہاتھ دھکیل دیا تھا اپنے ساتھیوں سے آملے اور اُن کے شدید حملے سے عدی اور نعمان کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ عتبہ کا چہرا اور لباس خون سے تر ہوچکا تھا۔ وہ اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتے ہٹتے پھر اُسی دیوار سے آلگا۔ عدی اور نعمان نے کچھ دیر حملہ آوروں کو اُس سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن اُن کی پیش نہ گئی۔ ایک آدمی کی تلوار عدی کے سینے پر لگی اور وہ چلایا ’’نعمان! بھاگ جائو اور اندر سے دروازہ بند کرلو اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ نعمان میرا کہنا مانو۔ ابھی ہمارے قبیلے کے لوگ آگئے تو تمہاری جان بچ جائے گی۔ اب تک ہمارے نوکر انہیں خبردار کرچکے ہوں گے‘‘۔
اپنی مہم کی کامیابی یقینی سمجھنے کے بعد، حملہ آوروں کا جوش و خروش قدرے کم ہوچکا تھا اور وہ مزید نقصان اٹھائے بغیر انہیں تنگ گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے تھے۔
صفحہ149تک
ایک آدمی نے کہا۔ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے نوکر تہمارے قبیلے کے آدمیوں کو خبردار کرنے کے لیے بھاگ گئے ہیں تو تم غلطی پر ہو۔ ہم نے آتے ہی اُن کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے تھے۔ ہمارے دو آدمی ننگی تلواریں لیے اُن کے سر پر کھڑے ہیں۔ اور تمہاری آواز تمہارے قبیلے کے کسی گھر تک نہیں پہنچ سکتی۔ وہ یہاں سے بہت دور ہیں اب تمہارے لیے ہتھیار پھینک دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔
’’ٹھہرو! تم جانتے ہو کہ اب ہمارے بچائو کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ عدی نے یہ کہہ کر دیوار سے پیٹھ لگادی اور حملہ آوروں نے اپنے ہاتھ روک لیے۔
عدی نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’اگر تمہیں گھوڑوں کی ضرورت ہو تو لے جائو۔ لیکن ہم پر رحم کرو، ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا‘‘۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’احمقو! تم کیا سوچ رہے ہو انہیں جلدی ختم کرو‘‘۔
عتبہ جو گردن جھکائے کھڑا بار بار اپنی پیشانی سے خون پونچھ رہا تھا، چلایا۔ ’’ابا جان! آپ ان سے رحم کی درخواست نہ کیجیے ابھی میں زندہ ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر اُس نے ایک غیر معمولی شدت کے ساتھ دشمن پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ جس قدر شدید تھا اُسی قدر غیر متوقع تھا۔ عتبہ پے در پے دائیں بائیں اور سامنے وار کرتا ہوا آگے بڑھا اور وہ پیچھے بھاگنے لگے۔ لیکن یہ ایک دم توڑتے ہوئے آدمی کا اندھا جوش تھا۔ انہوں نے چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد پلٹ کر حملہ کیا۔ چشم زدن میں بیک وقت کئی تلواریں عتبہ کے جسم میں اُتر گئیں اور وہ زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ عدی اور نعمان آگے بڑھے لیکن عدی چند قدم اٹھانے کے بعد منہ کے بل گر پڑا اور نعمان کے پائوں زمین میں پیوست ہو کر رہ گئے وہ جھک کر اپنے باپ کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ چند قدم دور عتبہ کی لاش ٹھنڈی ہوچکی تھی لیکن حملہ آور ابھی تک بے تحاشا اُس پر تلواریں برسا رہے تھے۔ اچانک کونے کے کمرے سے نسوانی چیخیں سنائی دیں اور اس کے ساتھ ہی عتبہ کی لاش مسخ کرنے والوں میں سے ایک آدمی چیخ مار کر گرپڑا۔ حملہ آور ششدر ہو کر اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ دریچے سے دوسرا تیر آیا اور آدمی اور زخمی ہو کر زمین پر آرہا۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگے اور آن میں دیوار کے قریب پہنچ گئے۔ چند آدمی کھجوروں کے پیچھے چھپ گئے۔ چند دیوار پھاند کر دوسری طرف کود گئے اور باقی صحن کے کھلے پھاٹک سے باہر نکل گئے۔
سمیرا کھڑکی سے سر نکال کر چلائی۔ ’’نعمان جلدی کرو، ابا جان کو اندر لے آئو‘‘۔ نعمان نے عدی کو اُٹھا کر سہارا دیا۔ اور وہ دور سے کراہتا اور لڑکھڑاتا ہوا اُس کے ساتھ چلنے لگا۔ لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر اُس کی ہمت جواب دے گئی۔ ’’وہ بولا۔ ’’نعمان! مجھے یہیں چھوڑ دو اور اپنی جان بچانے کی فکر کرو۔ جائو قبیلے کے لوگوں کو خبردار کرو‘‘۔
اُس نے کہا۔ ’’میں آپ کو اور سمیرا کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ فوراً ایک حملہ اور کریں گے‘‘۔
سمیرا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور یہ دونوں عدی کو سہارا دے کر اندر لے گئے اور اُسے بستر پر لٹا کر دروازہ بند کردیا۔ عدی اپنی رہی سہی قوت بروئے کار لاتے ہوئے چلایا۔ ’’نعمان! اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو ہم مکان کے اندر چوہوں کی طرح مارے جائیں گے۔ اگر انہوں نے دوبارہ حملہ کیا تو انہیں دروازہ توڑنے یا مکان کو آگ لگانے میں دیر نہیں لگے گی۔ تم مغرب کی طرف سے دیوار پھاند کر باہر جاسکتے ہو۔ اگر تم قبیلے کے لوگوں کو خبردار کرسکو تو ممکن ہے وہ ہماری مدد کو پہنچ جائیں۔ نعمان! وقت ضائع نہ کرو، میں تمہیں منات کا واسطہ دیتا ہوں۔ یہ میری آخری التجا ہے اسے رد نہ کرو‘‘۔
سمیرا نے کہا ’’نعمان جائو! میں کھڑکی سے تیر چلا کر انہیں اپنی طرف متوجہ رکھتی ہوں‘‘۔
عدی کا گھر آبادی سے بالکل الگ اور چاروں طرف سے باغوں میں گھرا ہوا تھا۔
نعمان کو یقین تھا کہ واپس آکر اپنے باپ اور سمیرا کو زندہ نہیں پائے گا تاہم حملہ آوروں سے بچنے کی اگر کوئی صورت تھی تو وہ یہی تھی کہ کسی طرح قبیلے کے لوگوں کو خبردار کردیا جائے۔
اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ابا جان، کاش! مجھے آپ یہ حکم نہ دیتے‘‘۔ اور کسی توقف کے بغیر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ سمیرا نے جلدی سے دروازہ بند کرکے کنڈی لگادی اور بھاگ کر دوسری طرف کھڑکی کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ صحن میں مکمل سکوت تھا لیکن سمیرا کو یہ سکوت لڑائی کے ہنگامے سے زیادہ خوفناک محسوس ہوتا تھا۔ سامنے بیرونی دیوار کے قریب کھجور کے گھنے درختوں کے سائے میں چند آدمیوں کی موجودگی کا شبہ ہوتا تھا اور ہر لحظہ اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی۔
نعمان کمرے سے باہر نکلتے ہی مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ بھاگتا ہوا کھجور کے ایک درخت کے قریب پہنچا تو یکے بعد دیگرے دو سنسناتے ہوئے تیر اُس کے قریب سے گزر گئے اور ساتھ ہی حملہ کرنے والوں کی چیخ پکار سنائی دینے لگی۔ اُسے پکڑو، مارو، روکو، وہ دوسری طرف سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔
نعمان نے انتہائی پھرتی سے کھجور پر چڑھ کر ایک پائوں دیوار پر رکھا اور کسی توقف کے بغیر باہر چھلانگ لگادی۔
چند آدمی شور مچاتے ہوئے آگے بڑھے لیکن دریچے سے سمیرا نے تیر چلایا اور ایک آدمی زخمی ہو کر دہائی دینے لگا۔ آگے مت جائو تم سب بیوقوف ہو، یہ مکان آدمیوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
حملہ آور دوبارہ بھاگ کے درختوں کے سائے میں چلے گئے۔ چند ثانیے بعد ایک آدمی اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہا تھا۔ ’’اب تم کیا سوچ رہے ہو۔ اُن کا ایک آدمی دیوار پھاند کر باہر نکل گیا ہے۔ مجھے یقین ہے ک وہ عدی کا تیسرا لڑکا تھا۔ اب تمہیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنا سارا قبیلہ جمع کرکے یہاں لے آئے۔ اب ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ چلو!‘‘
لیکن دوسرے آدمی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ’’نہیں، ہرگز نہیں! یہاں میرے بھائی کی لاش پڑی ہے اور میں منات کی قسم کھاتا ہوں کہ اُس کا انتقام لیے بغیر نہیں جائوں گا۔ اگر تم اس قدر بزدل تھے تو تمہیں ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا‘‘۔
’’بزدل تم ہو جو اپنے بھائی کی لاش چھوڑ کر باغ میں جا چھپے تھے اگر تم بھیڑوں کی طرح نہ بھاگتے تو ہمارے لیے ممکن کا دروازہ توڑنا کچھ مشکل نہ تھا‘‘۔
تیسرے آدمی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو! اب صبح ہونے والی ہے اور تم وقت ضائع کررہے ہو۔ ؟؟؟؟؟؟؟ زخمی ہے اور وہ لڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اگر اُس کا لڑکا بھاگ گیا ہے تو اب اس کمرے میں عدی کی لاش اور ؟؟؟؟؟؟ کے سوا اور کوئی نہیں اور یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم اُس کے تیروں کے خوف سے بھیڑوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔ اگر ہمت ہے تو میرے ساتھ آئو!‘‘
’’چلو! چلو!‘‘۔
وہ درختوں کے سائے سے نکل کر بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ سمیرا کے تیر سے ایک آدمی زخمی ہوا لیکن باقی اُس کی زد سے نکل کر دروازے کے سامنے پہنچ گئے۔ سمیرا نے جلدی سے دریچہ بند کیا اور بھاگ کر عدی کے قریب آگئی۔ کسی نے دروازے کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔ ’’عدی! باہر نکل آئو ورنہ ہم مکان کو آگ لگادیں گے‘‘۔
سمیرا نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ابا جان! اب ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمارا آخری وقت آگیا ہے۔ اب شاید قبیلے کے لوگ ہماری لاشیں بھی نہ دیکھ سکیں۔ کاش ہمارا گھر آبادی سے اِس قدر دور نہ ہوتا‘‘۔
باہر سے آواز آئی۔ ’’عدی! تم آگ میں جلنے سے ہلے اپنے بیٹوں کی لاشیں نہیں دیکھو گے؟‘‘
عدی نے کہا۔ ’’میں تمہیں آگ لگانے سے نہیں روک سکتا لیکن یاد رکھو اس آگ کے شعلے میرے گھر تک محدود نہیں رہیں گے۔ اوس اور خزرج نے ہمیشہ مردوں کی طرح ایک دوسرے کو میدان میں للکارا ہے۔ بزدلوں اور چوروں کی طرح رات کے وقت کسی کے گھر پر حملہ نہیں کیا‘‘۔
’’مظلوم نہ بنو، عدی! کیا تم نے رات کے وقت ہمارا گھر جلانے کی کوشش نہیں کی؟‘‘
’’میں لات، منات، ہبل اور عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں، میں ابراہیمؑ کے خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کسی کے گھر کو آگ نہیں لگائی، تم کون ہو؟‘‘
’’میں سالم ہوں… ہبیرہ کا بیٹا! اب تم ہمارے ہاتھ سے نہیں بچ سکتے‘‘۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’سالم! ہمیں اس سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ ابھی باہر آجائیں گے۔ تم کیا دیکھ رہے ہو، اس دروازے کے سامنے سوکھی گھاس جمع کرکے آگ لگادو، جلدی کرو!‘‘۔
عدی چلایا۔ ’’تم میری جان لینا چاہتے ہو؟‘‘
باہر سے جواب آیا۔ ’’تمہیں اب بھی اس میں شبہ ہے‘‘۔
عدی نے کہا۔ ’’اہل یثرب دوسرے قبائل کی طرح لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے، اگر تم وعدہ کرو کہ میری لڑکی کو کچھ نہیں کہو گے تو میں اپنے آپ کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
’’تمہارا تیسرا لڑکا بھاگ گیا ہے؟‘‘
’’ہاں! لیکن تمہیں یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ وہ بزدل ہے۔ وہ بہت جلد واپس آئے گا اور میرا پورا قبیلہ اُس کے ساتھ ہوگا۔ تمہیں یہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کے بعد تمہارے اپنے گھر کب تک محفوظ رہیں گے۔ میرے دو بیٹوں کی لاشیں باہر پڑی ہیں اور اب مجھے اپنی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم اگر میرے خون سے ہاتھ رنگ کر مطمئن ہوسکتے ہو، تو میں باہر آنے کو تیار ہوں لیکن صرف اِس شرط پر کہ تم ایک بے بس لڑکی پر ہاتھ نہیں اُٹھائو گے اگر تم یہ وعدہ نہیں کرسکتے تو ہمیں آگ میں جلنا منظور ہے۔ تم میرے گھر کو آگ لگانے کا شوق پورا کرلو لیکن یاد رکھو کہ یہ آگ اُس وقت تک نہیں بجھے گی جب تک کہ یثرب کی ساری وادی راکھ کا ڈھیر نہ بن جائے‘‘۔
کچھ دیر باہر سے کوئی جواب نہ آیا۔ سمیرا دروازے کی ایک دراڑ سے صحن کی طرف دیکھ رہی تھی۔ حملہ آور دروازے کے سامنے گھاس اور کھجور کے سوکھے پتوں کا ڈھیر لگا چکے تھے، ایک آدمی جس کے ہاتھ میں گھاس کی مشعل تھی آگے بڑھا لیکن دوسرے نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھہرو! مجھے اس سے بات کرلینے دو!‘‘
’’اب ہمارے پاس باتوں کے لیے وقت نہیں‘‘۔ تیسرا آدمی یہ کہہ کر آگے بڑھا اور اُس نے پہلے آدمی کے ہاتھ سے مشعل چھین کر گھاس کے ڈھیر پر پھینک دی۔
سوکھے ایندھن میں آگ کے شعلے بھڑکنے لگے لیکن ایک اور آدمی نے بھاگ کر گھاس کا گٹھا اُٹھایا اور دروازے سے چند قدم دور پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’تم ایک ایسی برائی کا دروازہ کھول رہے ہو جسے ختم کرنا ہمارے بس کی بات نہ ہوگی‘‘۔ پھر اس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’عدی! ہم تمہیں ایک بہادر آدمی کی طرح مرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں آگ لگانے پر مجبور نہ کرو۔ اگر تم باہر نکل آئے تو ہم تمہاری لڑکی کو کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن اگر اُس نے دروازہ کھلنے پر تیر چلانے کی کوشش کی تو اُس کا انجام تمہارے بیٹوں کے انجام سے زیادہ عبرتناک ہوگا‘‘۔
عدی بستر سے اُٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا اور سمیرا کو ایک طرف ہٹا کر دروازے کی دڑاڑ سے باہر جھانکنے لگا۔ گھاس اور کھجور کے سوکھے پتوں کا گٹھا جسے دروازے سے چند قدم دور پھینک دیا گیا تھا جل رہا تھا اور آگ کے شعلے ہر لحظہ بلند ہورہے تھے۔ عدی نے کہا ’’ٹھہرو! میں باہر آرہا ہوں‘‘۔
سمیرا اُس سے چمٹ کر چلائی۔ ’’نہیں نہیں، ابا جان! آپ اِس طرح میری جان نہیں بچا سکتے‘‘۔
عدی نے کہا ’’سمیرا۔ میرے باہر نکلتے ہی تم دروازہ بند کرلینا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آگ لگانے کی جرأت نہیں کریں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ اِس کے نتائج کیا ہوں گے؟‘‘
سمیرا دوبارہ چلائی۔ ’’ابا جان! میں بھی آپ کے ساتھ مروں گی‘‘۔
’’سمیرا بیوقوف نہ بنو، مجھے چھوڑ دو۔‘‘ عدی نے اپنی ساری قوت بروئے کار لاتے ہوئے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور کنڈی کھول کر باہر نکل آیا۔ اُس کا لباس خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ حملہ آور ایک نصف دائرے میں اُس کی طرف بڑھے۔ اُن کی تلواریں آگ کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ عدی دروازے کے قریب دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ حملہ آور اب کسی بیتابی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہائی اطمینان سے تلواریں بلند کیے آگے بڑھ رہے تھے لیکن تین آدمی چند قدم پیچھے کھڑے رہے۔
منذر کے بیٹے مسعود نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تمہاری تلواروں کو عدی کا خون پسند نہیں۔ آئو ہم ایک ساتھ وار کریں گے‘‘۔
ایک آدمی نے جواب دیا۔ ’’ہم اپنی تلواروں کی پیاس بجھانے کے لیے خزرج کے جوانوں کا خون پسند کرتے ہیں۔ ہمیں ایک زخمی، ضعیف اور نہتے آدمی کے خون سے ہاتھ رنگنا پسند نہیں۔ تم جلدی سے اپنا کام ختم کرو۔ اب صبح ہورہی ہے‘‘۔
اچانک سمیرا ہاتھ میں تلوار لیے، کمرے سے باہر نکلی اور پلک جھپکتے میں اپنے باپ اور حملہ آوروں کے درمیان آکھڑی ہوئی۔
عدی چلایا۔ ’’سمیرا! تم اندر چلی جائو۔ سمیرا سمیرا! اُس کی آواز حملہ آوروں کی چیخوں اور قہقہوں میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ نڈھال ہو کر گرپڑا۔
جابر نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ’’ٹھہرو! تم ایک طرف ہٹ کر تماشا دیکھو‘‘۔
وہ رُک گئے جابر نے سمیرا پر چند وار کیے اور وہ اُلٹے پائوں پیچھے ہٹنے لگی۔ اچانک اس کا پائوں عدی کے جسم س لگا اور وہ پیٹھ کے بل گرپڑی۔ جابر نے ایک قہقہہ لگایا اور آگے بڑھ کر تلوار کی نوک اس کی آنکھوں کے سامنے کردی۔
ایک آدمی چلایا۔ ’’جابر ہم نے عدی سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اُس کی لڑکی پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے‘‘۔
’’میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘‘ جابر نے تلوار کی نوک ذرا اور آگے کرتے ہوئے کہا۔ سمیرا نے اپنی گردن ایک طرف کرلی تو جابر نے بھی اپنی تلوار کی نوک اُسی طرف پھیر دی۔
ایک آدمی چلایا۔ ’’باہر باغ کی طرف سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دے رہی ہے کوئی آرہا ہے۔ یہاں سے بھاگو!‘‘ وہ بدحواس ہو کر پھاٹک کی طرف دیکھنے لگے۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’تم بدحواس کیوں ہوگئے؟ راستے میں ہمارے ساتھی پہرا دے رہے ہیں۔ اگر اس طرف آنے والا کوئی دشمن ہوتا تو وہ نقارہ بجا کر ہمیں خبردار کردیتے‘‘۔
جابر کی بدحواسی سے سمیرا کو اٹھنے کا موقع مل گیا اور اس نے اچانک اس پر حملہ کردیا۔ اب جابر پیچھے ہٹ رہا تھا اور وہ پے در پے اس پر وار کررہی تھی۔
مسعود چلایا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے؟ یہ عورت نہیں کوئی چڑیل ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے پہلو سے حملہ کردیا۔ سمیرا بائیں کندھے پر ایک گہرا زخم کھا کر ایک طرف ہٹی لیکن جابر نے ایک سیدھا وار کیا اور اس کی تلوار کی نوک اس کے سینے میں اُتر گئی۔ وہ آگ کے الائو کے پاس گرپڑی۔ صحن میں تھوڑی دیر کے لیے ایک سناٹا چھا گیا۔
ایک آدمی نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ’’منذر کے بیٹوں نے پہلی بار اپنی تلواروں کو آزمایا ہے۔ اور وہ بھی ایک لڑکی کے جسم پر، ورنہ اب تک اس لڑائی میں ان کی حیثیت دور کے تماشائیوں کی سی تھی‘‘۔ اور منذر کے بیٹے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
عدی اپنی جگہ سے اٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا، ڈگمگایا، گرا اور دوبارہ اٹھنے کی ایک ناکام کوشش کی بعد رینگتا ہوا سمیرا کے قریب پہنچ گیا۔
’’سمیرا! سمیرا! میری مظلوم بیٹی‘‘۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہا تھا… اسے اپنے سینے سے لگا کر بھینچ رہا تھا۔ پھر اس نے آگ کی روشنی میں سمیرا کے خون سے بھیگا ہوا ہاتھ اٹھا کر دیکھا اور پوری قوت کے ساتھ چلایا۔ ’’وحشیو! درندو! اب تم کس بات کا انتظار کررہے ہو؟ مجھے قتل کیوں نہیں کرتے۔ تم سمیرا سے ؟؟؟؟؟؟؟؟ لیکن اب وہ میری حفاظت کے لیے تلوار نہیں اٹھائے گی‘‘۔
مسعود چلایا۔ ’’تم کیا دیکھ رہے ہو اسے ختم کرو‘‘۔ لیکن اُس کے ساتھی اُس کے حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے تذبذب اور پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ جو تھوڑی دیر قبل عدی کے خون کے پیاسے تھے، اپنے سامنے ایک لڑکی کی لاش دیکھ کر خوف زدہ نظر آتے تھے۔ بدوی قبائل کی لڑائیوں میں اس قسم کے واقعات ایک عام بات تھی لیکن یثرب کے نسبتاً مہذب لوگوں کے نزدیک ایک لڑکی کا قتل ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی ٹاپ اب بہت قریب سنائی دے رہی تھی اور وہ عدی سے زیادہ دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’جابر، مسعود! تم اطمینان سے ان لاشوں پر تیغ زنی کی مشق کرسکتے ہو۔ یہ سوار تنہا ہے اور اگر وہ دشمن ہوا تو بھی تمہارے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ ہم خطرے کے وقت تمہاری حفاظت کرسکیں گے۔ منات کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارا مقصد ایک لڑکی کو موقت کے گھاٹ اتارنا ہے تو میں تمہارا ساتھ نہ دیتا۔ اب نہ معلوم یثرب میں کتنی مائیں اور بہنیں قتل کی جائیں گی‘‘۔
سریٹ سوار صحن میں داخل ہوا اور اُن کے قریب پہنچ کر گھوڑے سے کود پڑا۔ یہ عاصم تھا۔
سالم نے آگے بڑھ کر اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’اخی! ہم ان سے انتقام لے چکے ہیں۔ یہ عدی ہے اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں بھی صحن میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ وہ لڑکی ہے جس نے جابر پر حملہ کیا تھا۔ آپ کہاں تھے؟‘‘ عاصم نے آگے بڑھ کر الائو کے قریب ایک دلخراش منظر دیکھا اور چند ثانیے سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر وہ اُس کی لاش کے قریب بیٹھ گیا اور اُس کا سر اپنی گود میں لے کر چلایا۔ ’’سمیرا! سمیرا! میری طرف دیکھو، مجھ سے بات کرو، میں تمہارا عاصم ہوں‘‘۔ لیکن سمیرا کے پاس اس کی التجائوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ اور عاصم کی آواز سسکیوں میں تبدیل ہورہی تھی۔
عدی نے درد سے کراہتے ہوئے اپنی گردن اٹھائی اور کہا ’’عاصم! تم بہت دیر سے آئے، سمیرا اب تمہاری طرف نہیں دیکھے گی، اسے عمیر اور عتبہ نے اپنے پاس بلالیا ہے‘‘۔