برادرانِ اسلام! مذہب کی باتوں میں آپ اکثر دو لفظ سنا کرتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ایک دین‘ دوسرے شریعت لیکن آپ میں سے بہت کم آدمی ہیں جن کو یہ معلوم ہوگا کہ دین کے کیامعنی ہیں اور شریعت کا کیا مطلب ہے۔ بے پڑھے لکھے تو خیر مجبور ہیں‘ اچھے خاصے تعلیم یافتہ آدمی بلکہ بہت سے مولوی بھی یہ نہیں جانتے کہ ان دونوں لفظوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے اکثر دین کو شریعت سے اور شریعت کو دین سے گڈمڈ کر دیا جاتا ہے اور اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج میں بہت سادہ الفاظ میں آپ کو ان کا مطلب سمجھاتا ہوں۔
دین کے معانی:
٭ ایک معنی: عزت‘ حکومت‘ سلطنت‘ بادشاہی اور فرماں روائی کے ہیں۔
٭ دوسرے معنی: اس کے بالکل برعکس ہیں‘ یعنی زیردستی‘اطاعت‘ غلامی‘ تابع داری اور بندگی۔
٭ تیسرے معنی: حساب کرنے اور فیصلہ کرنے اور اعمال کی جزا و سزا کے ہیں۔
قرآن شریف میں لفظ ’’دین‘‘ انہی تین معنوں میں آیا ہے فرمایا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاﷲِ اِلْاِسْلَاُم (آل عمران 19:3)
یعنی خدا کے نزدیک دین وہی ہے جس میں انسان صرف اللہ کو عزت والا مانے اور اس کے سوا کسی کے آگے اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے‘ صرف اللہ کو آقا اور مالک اور سلطان سمجھے اور اس کے سوا کسی کا غلام‘ فرماں بردار اور تابع دار بن کر نہ رہے۔ صرف اللہ کو حساب کرنے اور جزا و سزا دینے والا سمجھے اور اس کے ساتھ کسی کے حساب سے نہ ڈرے‘ کسی کی جزا کا لالچ نہ کرے اور کسی کی سزا کا خوف نہ کھائے۔ اسی دین کا نام اسلام ہے۔ اگر اس کو چھوڑ کر آدمی نے کسی اور کو اصلی عزت والا‘ اصلی حاکم‘ اصلی بادشاہ اور مالک‘ اصل جزا و سزا دینے والا سمجھا اور اس کے سامنے ذلت سے سر جھکایا‘ اس کی بندگی اور غلامی کی‘ اس کا حکم مانا اور اسکی جزا کا لالچ اور سزا کا خوف کھایا تو یہ جھوٹا دین ہوگا۔ اللہ ایسے دین کو ہرگز قبول نہیں کرتا کیوں کہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ خداکے سوا کوئی دوسری ہستی اس تمام کائنات میں اصلی عزت والی نہیں ہے‘ نہ کسی اور کی سلطنت اور پادشاہی ہے‘ نہ کسی اور کی غلامی اور بندگی کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے‘ نہ اس مالکِ حقیقی کے سوا کوئی اورجزا و سزا دینے والا ہے‘ یہی بات دوسری آیتوں میں اس طرح بیان فرمائی گئی:
-1 وَمَنْ یَّبْتَِغ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران۔ 85:3)
یعنی جو شخص خدا کی سلطانی اور بادشاہی کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مالک اور حاکم مانے گا اور اس کی بندگی اور غلامی اختیار کرے گا اور اس کو جزا و سزا دینے والا سمجھے گا‘ اس کے دین کو خدا ہرگز قبول کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ:
-2 وَمَاَ اُمِرُوَْا اِلَّالِیَعْبُدُواﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ (البینۃ 5:98)
انسانوں کو تو خدا نے اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا انہیں حکم ہی نہیں دیا ہے۔ ان کا تو فرض یہ ہے کہ سب طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے لیے اپنے دین‘ یعنی اپنی اطاعت اور غلامی کو مخصوص کر دیں اور یکسو ہو کر صرف اسی کی بندگی کریں اور صرف اسی کے حساب سے ڈریں۔
-3’’کیا انسان خدا کے سوا کسی اور کی غلامی اور فرماں برداری کرنا چاہتا ہے‘ حالانکہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں صرف خدا کی غلام اور فرماں بردار ہیں‘ اور ان ساری چیزوں کو اپنے حساب کتاب کے لیے خدا کے سوا کسی اور کی طرف نہیں جانا ہے۔ کیا انسان زمین ا ور آسمان کی ساری کائنات کے خلاف ایک نرالا راستہ اپنے لیے نکالنا چاہتا ہے؟‘‘ (آل عمران 83:3)
-4 ’’اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچے دین کا علم دے کر اسی لیے بھیجاہے کہ وہ سارے جھوٹے خدائوں کی خدائی ختم کر دے اور انسان کو ایسا آزاد کر دے کہ وہ خداوندِ عالم کے سوا کسی کا بندہ بن کر نہ رہے۔ چاہے کفار و مشرکین اس پر اپنی جہالت سے کتنا ہی واویلا مچائیں اور کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں۔‘‘ (التوبہ 33:9)
-5 ’’اور تم جنگ کرو تاکہ دنیا سے غیر اللہ کی فرماں روائی کا فتنہ مٹ جائے اور دنیا میں بس خدا ہی کا قانون چلے‘ خدا ہی کی بادشاہی تسلیم کی جائے اور انسان صرف خدا کی بندگی کرے۔‘‘ (الانفال 39:8)
اس تشریح سے آپ کو معلوم ہوگیا کہ دین کے کیا معنی ہیں۔ (دین کے معنی یہ ہیں کہ:)
-1 خدا کو آقا اورمالک اور حاکم ماننا۔
-2 خدا ہی کی غلامی‘ بندگی اور تابع داری کرنا۔
-3 اور خدا کے حساب سے ڈرنا‘ اس کی سزا کا خوف کھانا اور اسی کی جزا کا لالچ کرنا۔
پھر چونکہ خدا کا حکم انسانوں کو اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے ذریعے ہی سے پہنچتا ہے اس لیے رسولؐ کو خدا کا رسولؐ اور کتاب کو خدا کی کتاب ماننا اور اس کی اطاعت کرنا بھی دین ہی میں داخل ہے جیسا کہ فرمایا ’’اے بنی آدم! جب میرے رسول تمہارے پاس میرے احکام لے کر آئیں تو جو شخص تم میں سے ان احکام کومان کر پرہیزگاری اختیار کرے گا اور ان کے مطابق اپنا عمل درست کر لے گا‘ اس کے لیے ڈر اور رنج کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ (الاعراف: 35-7)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست ہر انسان کے پاس اپنے احکام نہیں بھیجتا بلکہ اپنے رسولوں کے واسطے سے بھیجتا ہے‘ اس لیے جو شخص اللہ کو حاکم مانتا ہو‘ وہ اس کی فرماں برداری صرف اس طرح کر سکتا ہے کہ اس کے رسولوں کی فرماں برداری کرے اور رسول کے ذریعے سے جو احکام آئیں ان کی اطاعت کرے‘ اسی کا نام دین ہے۔
شریعت کیا ہے؟
اب میں آپ کو بتائوں گا کہ شریعت کسے کہتے ہیں۔ شریعت کے معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ جب تم نے خدا کو حاکم مان لیا اور اس کی بندگی قبول کرلی اور یہ تسلیم کر لیا کہ رسولؐ اسی کی طرف سے حاکمِ مجاز ہے اور کتاب اسی کی طرف سے ہے‘ تو تم دین میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تم کو جس طریقے سے خدا کی بندگی کرنی ہے‘ اور اس کی فرماں برداری میں جس راستے پر چلنا ہے اس کا نام شریعت ہے۔ یہ طریقہ اور راستہ بھی خدا اپنے رسول ہی کے ذریعے سے بتاتا ہے‘ وہی سکھاتا ہے کہ اپنے مالک کی عبادت اس طرح کرو‘ طہارت اور پاکیزگی کا یہ طریقہ ہے‘ نیکی اور تقویٰ کا یہ راستہ ہے‘ حقوق اس طرح ادا کرنے چاہئیں‘معاملات یوں انجام دینے چاہئیں اور زندگی اس طرح بسر کرنی چاہیے لیکن فرق یہ ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا اور اب بھی ایک ہی ہے‘ مگر شریعتیں بہت سی آئیں‘ بہت سی منسوخ ہوئیں‘ بہت سی بدلی گئیں اور کبھی ان کے بدلنے سے دین نہیں بدلا۔ حضرت نوحؑ کا دین بھی وہی تھا جو حضرت ابراہیمؑ کا تھا‘ حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کا تھا‘ حضرت شعیبؑ اور حضرت صالحؑ اور حضرت ہودؑ کا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے‘ مگر شریعتیں ان سب کی کچھ نہ کچھ مختلف رہی ہیں۔ نماز اور روزے کے طریقے کسی میںکچھ تھے اور کسی میں کچھ۔ حلال اور حرام کے احکام‘ طہارت کے قاعدے‘ نکاح اور طلاق اور وراثت کے قانون ہر شریعت میں دوسری شریعت سے کچھ نہ کچھ مختلف رہے ہیں۔ ان کے باوجود سب مسلمان تھے۔ حضرت نوحؑ کے پیرو بھی‘ حضرت ابراہیمؑ کے پیرو بھی‘ حضرت موسیٰؑ کے پیروبھی اور ہم بھی۔ اس لیے کہ دین سب کا ایک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں فرق ہونے سے دین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین ایک ہی رہتا ہے‘ چاہے اس پر عمل کرنے کے طریقے مختلف ہوں۔
شریعتوں کے فرق کی نوعیت:
اس فرق کو یوں سمجھو کہ ایک آقا کے بہت سے نوکر ہیں۔ جو شخص اس کو آقا ہی نہیں مانتا اور اس کے حکم کو اپنے لیے واجب التعمیل ہی نہیں سمجھتا‘ وہ تو نافرمان ہے اور نوکری کے دائرے ہی سے خارج ہے اورجو لوگ اس کو آقا تسلیم کرتے ہیں‘ اس کے حکم کو ماننا اور اپنا فرض جانتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں‘ وہ سب نوکروں کے زمرے میں داخل ہیں۔ نوکری بجا لانے اور خدمت کرنے کے طریقے مختلف ہوںتو اس سے ان کے نوکر ہونے میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اگر آقا نے کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا ہے اور دوسرے کو دوسرا طریقہ‘ تو ایک نوکر کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ میں نوکرہوں اور وہ نوکر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آقا کا حکم سنکر ایک نوکر اس کا منشا کچھ سمجھتا ہے اور دوسرا کچھ اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو نوکری میں دونوں برابر ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک نے مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہو اوردوسرے نے صحیح مطلب سمجھا ہو‘ لیکن جب تک اطاعت سے کسی نے انکار نہ کیا ہو کسی کو کسی سے یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو نافرمان ہے یا تجھے آقا کی نوکری سے خارج کر دیا گیا ہے۔
اس مثال سے آپ دین اور شریعت کے فرق کو بڑی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ مختلف رسولوں کے ذریعے سے مختلف شریعتیں بھیجتا رہا۔ کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا اور کسی کو دوسرا طریقہ۔ ان سب طریقوں کے مطابق جن جن لوگوں نے مالک کی اطاعت کی وہ سب مسلمان تھے‘ اگرچہ ان کی نوکری کے طریقے مختلف تھے‘ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آقا نے حکم دیا کہ اب پچھلے طریقوںکو ہم منسوخ کرتے ہیں۔ آئندہ سے جس کو ہماری نوکری کرنی ہو‘ وہ اس طریقے پر نوکری کرے جو اب ہم اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بتاتے ہیں۔ اس کے بعد کسی نوکر کو پچھلے طریقوں پر نوکری کرنے کا حق باقی نہیں رہا کیوں کہ اب اگر وہ نئے طریقے کو نہیں مانتا اور پرانے طریقوں پر چل رہا ہے تو وہ دراصل آقا کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنے دل کا کہا مان رہا ہے‘ اس لیے وہ نوکری سے خارج ہے‘ یعنی مذہب کی زبان میں کافر ہوگیا ہے۔
فقہی مسلکوں کے فرق کی نوعیت:
یہ تو پچھلے انبیا کے ماننے والوں کے لیے ہے۔ رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو‘ تو ان پر اس مثال کا دوسرا حصہ صادق آتا ہے۔ اللہ نے جو شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم کو بھیجی ہے اس کو خدا کی شریعت ماننے والے اور اسے واجب التعمیل سمجھنے والے سب کے سب مسلمان ہیں۔ اب اگر اس شریعت کے احکام کو ایک شخص کسی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا کسی اور طرح‘ اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں‘ تو چاہے ان کے عمل میں کتنا ہی فرق ہو‘ ان میں سے کوئی بھی نوکری سے خارج نہ ہوگا‘ اس لیے ان میں سے ہر ایک جس طریقے پر چل رہا ہے یہی سمجھ کر تو چل رہا ہے کہ یہ آقا کا حکم ہے۔ پھر ایک نوکر کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ میں تو نوکر ہوں اور فلاں شخص نوکر نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آقا کے حکم کا صحیح مطلب سمجھا اور اس نے صحیح نہیں سمجھا‘ مگر وہ اس کو نوکری سے خارج کر دینے کا مجاز کیسے ہوگیا؟ جو شخص ایسی جرأت کرتا ہے وہ گویا خود آاقا کا منصب اختیار کرتا ہے۔ وہ گویا یہ کہتا ہے کہ تو جس طرح آقا کے حکم کو ماننے پر مجبور ہے اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ا گر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا تو میں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کر دوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبیؐ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا کیوں کہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے مگر یہ شخص کہتا ہے کہ نہیں‘ تم میری سمجھ اور میری رائے کی بھی غلامی کرو۔ یعنی صرف خدا ہی تمہارا خدا نہیں ہے بلکہ میں بھی چھوٹا خدا ہوں اور میرا حکم نہ مانو گے تو میں اپنے اختیار سے تم کو خدا کی بندگی سے خارج کر دوں گا چاہے خدا خارج کرے یا نہ کرے۔ ایسی بڑی بات جو شخص کہتا ہے کہ اس کے کہنے سے چاہے دوسرا مسلمان کافر ہو یا نہ ہو‘ مگر وہ خود تو اپنے آپ کو کفر کے خطرے میں ڈال ہی دیتا ہے۔
حاضرین! آپ نے دین اور شریعت کا فرق اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا اور یہ بھی آپ نے جان لیا ہوگا کہ بندگی کے طریقوں میں اختلاف ہو جانے سے دین میں اختلاف نہیں ہوتا‘ بشرطیکہ آدمی جس طریقے پر عمل کرے نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھ کر عمل کرے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے وہی طریقہ بتایا ہے جس پر وہ عامل ہے اور اس کے پاس اپنے اس طرزِ عملِ کے لیے خدا کی کتاب یا اس کے رسولؐ کی سنت سے کوئی سند موجود ہو۔
دین اور شریعت کا فرق نہ سمجھنے کی خرابیاں:
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ دین اور شریعت کے اس فرق کو نہ سمجھنے سے آپ کی جماعت میں کتنی خرابیاں واقع ہو رہی ہیں۔
مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے اور دوسرا ناف پر باندھتا ہے۔ ایک شخص امام کے پچھے فاتحہ پڑھتا ہے اور دوسرا نہیں پڑھتا۔ ایک شخص آمین زور سے کہتاہے‘ دوسرا آہستہ کہتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص جس طریقے پر چل رہا ہے یہی سمجھ کر چل رہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور اسکے لیے وہ اپنی سند پیش کرتا ہے‘ اس لیے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضورؐ ہی کے پیرو ہیں‘ مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے انہوں نے محض انہی طریقوںکے اختلاف کو دین کا اختلاف سمجھ لیا۔ اپنی جماعتیں الگ کر لیں‘ اپنی مسجدیں الگ کرلیں‘ایک نے دوسرے کو گالیاں دیں‘ مسجدوں سے مار مار کرنکال دیا‘ مقدمے بازیاں کیں اور رسولؐ اللہ کی امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
اس سے بھی لڑنے اور لڑانے والوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک نے دوسرے کو کافر اور فاسق اورگمراہ کہنا شروع کر دیا۔ ایک شخص قرآن سے یا حدیث سے ایک بات اپنی سمجھ کے مطابق نکالتا ہے تو وہ اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے اس پر عمل کرے‘ بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی سمجھ زبردستی تسلیم کرائے اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کریںتو ان کو خدا کے دین سے خارج کر دے۔
آپ مسلمانوں میں حنفی‘ شافعی‘ اہلِ حدیث وغیرہ جو مختلف مذہب دیکھ رہے ہیں‘یہ سب قرآن و حدیث کو آخری سند مانتے ہیں اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق وہیں سے احکام نکالتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کی سمجھ صحیح ہو اور دوسرے کی غلط ہو۔ میں بھی ایک طریقے کا پیرو ہوں اور اس کو صحیح سمجھتا ہوں اور اس کے خلاف جو لوگ ہیں ان سے بحث بھی کرتا ہوں تاکہ جو بات میرے نزدیک صحیح ہے وہ ان کو سمجھائوں اور جس بات کو میں غلط سمجھتا ہوں اسے غلط ثابت کروں۔ لیکن کسی شخص کی سمجھ کا غلط ہونا اور بات ہے اور اس کا دین سے خارج ہوجانا دوسری بات۔ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق شریعت پر عمل کرنے کا ہر مسلمان کو حق ہے۔ اگر دس مسلمان دس مختلف طریقوں پر عمل کریں توجب تک وہ شریعت کو مانتے ہیں‘ وہ سب مسلمان ہی ہیں۔ ایک ہی امت ہیں‘ ان کی جماعتیں الگ ہونے کی کوئی وجہ نہیں‘ مگرجو لوگ اس چیز کو نہیں سمجھتے وہ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر فرقے بناتے ہیں‘ ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں‘ اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کر لیتے ہیں‘ ایک دوسرے سے شادی بیاہ‘ میل جول اور ربط و ضبط بند کر دیتے ہیں اور اپنے اپنے ہم مذہبوں کے جتھے اس طرح بنا لیتے ہیں کہ گویا ہر جتھا ایک الگ امت ہے۔
فرقہ بندی کے نقصانات:
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس فرقہ بندی سے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ کہنے کو مسلمان ایک امت ہیں۔ ہندوستان میں ان کی آٹھ کروڑ کی تعداد ہے (یاد رہے کہ یہ خطبات تقسیم ہند سے پہلے 1937-38ء میں بستی دارالاسلام (پٹھان کوٹ) میں دیے گئے تھے) اتنی بڑی جماعت اگر واقعی ایک ہو اور پورے اتفاق کے ساتھ خدا کلمہ بلند کرنے کے لیے کام کرے تو دنیا میں کون اتنا دم رکھتا ہے جو اس کو نیچا دکھا سکے‘ مگر حقیقت میں اس فرقہ بندی کی بہ دولت اس امت کے سینکڑوں ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت میں بھی مل کر نہیں کھڑے ہو سکتے۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے والوں سے اتنا ہی تعصب رکھتاہے جتنا ایک یہودی ایک عیسائی سے رکھتا ہے‘ بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایک فرقے والے نے دوسرے فرقے والے کو نیچا دکھانے کے لیے کفار کا ساتھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کو آپ مغلوب دیکھ رہے ہیں تو تعجب نہ کیجیے۔ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘ ان پر وہ عذاب نازل ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ پاک میں اس طرح بیان کیا کہ ’’اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ تم کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر دے اور تم آپس میںہی کٹ مرو۔‘‘ (الانعام: 65-6)
بھائیو! یہ عذاب جس میں سارے ہندوستان کے مسلمان مبتلا ہیں۔ اس کے آثار مجھے پنجاب میںسب سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے فرقوںکی لڑائیاں ہندوستان کے ہر خطے سے زیادہ ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب کی آبادی میں کثیر التعداد ہونے کے باوجود آپ کی قوت بے اثر ہے۔ اگر آپ اپنی خیر چاہتے ہیں توان جتھوں کو توڑیے۔ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیے اور ایک امت بن جایئے۔ خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر اہلِ حدیث‘ حنفی‘ دیو بندی‘ بریلوی‘ شیعہ‘ سنی وغیرہ الگ الگ امتیں بن سکتیں۔ یہ امتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اللہ نے صرف ایک امت ’’امتِ مسلمہ‘‘ بنائی تھی۔
)جاری ہے)