غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر معاشی و معاشرتی مسائل کی ستائی قوم کے لیے دبئی میں سجے کرکٹ میلے سے تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے، طویل عرصے بعد پریشان حال عوام کو خوشی کی کوئی خبر نصیب ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں جاری آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے مقابلوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنے روایتی حریف سے ہونے والے پہلے ہی میچ میں دس وکٹوں سے فتح یاب ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے، جس پر ایک عام مزدور سے لے کر صدرِ مملکت اور وزیراعظم تک ملک کے ہر، ہر فرد نے بے پناہ مسرت و شادمانی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی ٹیم کی اس شاندار کامیابی پر ملک کے ہر ہر شہر اور قصبے میںجشن منایا گیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور آتش بازی کے ذریعے ِ مسرت کیا گیا۔ بیرونِ ملک بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں نے اپنے اپنے انداز میں اس خوشی میں حصہ ڈالا۔ آزاد کشمیر، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کی اس فتح کو اپنی فتح قرار دے کر اظہارِ مسرت کیا۔ خاص طور پر ایک طویل عرصے سے بھارتی فوجیوں کی سنگینوں کے سائے میں زندگی بسر کرنے والے مقبوضہ کشمیر کے عوام نے نتائج کی پروا کیے بغیر گھروں سے نکل کر سڑکوں اور بازاروں میں نعرے بازی کی، بھارت سے اظہارِ بے زاری کرتے ہوئے اپنے بے بدل قائد سید علی گیلانی مرحوم و مغفور کے دیے ہوئے اس نعرے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کو پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنی پوری آواز سے بلند کیا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم سے اظہارِ یک جہتی کیا۔
میچ شروع ہونے سے قبل پاکستانی ٹیم نے ٹاس جیتا اور کپتان بابراعظم نے بھارت کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی اور گرین شرٹس کو فیلڈنگ کے لیے میدان میں پھیلا دیا۔ بھارتی بلے بازوں کا آغاز مایوس کن تھا، ان میں سے کوئی بھی پاکستانی بولرز کے مقابل جم کر نہ کھیل سکا، صرف کپتان ویرات کوہلی نے 57 رنز بنائے اور پاکستانی شاہین، شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر آئوٹ ہوگئے۔ بھارتی ٹیم مجموعی طور پر 151 رنز بنا سکی۔ شاہین شاہ آفریدی نے تین اور حسن علی نے دو بھارتی کھلاڑیوں کو گرائونڈ سے واپسی کی راہ دکھائی۔ شاداب خان اور حارث رئوف نے ایک، ایک وکٹ لی۔
بھارت کی جانب سے دیے گئے 152 رنز کے ہدف کے تعاقب کے لیے پاکستانی ٹیم کے کپتان بابراعظم اور محمد رضوان میدان میں اترے اور ذمہ دارانہ اور جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی بولرز اپنے تمام حربے آزمانے کے باوجود انہیں آئوٹ کرنے میں ناکام رہے۔ یوں پاکستان نے مطلوبہ ہدف کسی وکٹ کے نقصان کے بغیر اُس وقت حاصل کر لیا جب ابھی 13گیندیں باقی تھیں۔ کپتان بابراعظم نے 68 اور محمد رضوان نے 79 رنز بنائے۔ یوں ٹی ٹوئنٹی کے ان مقابلوں میں پاکستان کے پہلے ہی میچ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں اور کرکٹ شائقین کو زبردست خوش خبری ملی۔ شاہین شاہ آفریدی اس میچ میں تین بھارتی کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے ’’مین آف دی میچ‘‘ قرار پائے۔
اس میچ کے دوران کئی ریکارڈ ٹوٹے اور کئی ریکارڈ بنائے گئے۔ اس سے پہلے پاکستان کسی ورلڈ کپ میں بھارت سے نہیں جیتا تھا۔ یوں پاکستانی شاہین نے طویل عرصے بعد پہلی بار بھارت کو عالمی کپ میں شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت کی پاکستان سے دس وکٹوں سے شکست بھی ایک نیا ریکارڈ ہے۔ بابراعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ پارٹنرشپ سمیت اس میچ میں پارٹنرشپ کے تین نئے ریکارڈ بنے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین اس میچ سے متعلق اس شاندار، دل خوش کن نتیجے کی خواہش تو ہر پاکستانی کے دل میں یقینا مچل رہی ہوگی، مگر سچی بات یہی ہے کہ اس قدر تاریخی اور عظیم الشان فتح کی امید اور توقع شاید ہی کسی پاکستانی کو ہو۔ یوں یہ قطعی غیر متوقع اور غیر معمولی جیت غیر معمولی خوشی، مسرت اور شادمانی بھی ساتھ لائی، جس کا اظہار بھی خوب دل کھول کر کیا گیا۔ تاہم مقامِ شکر ہے کہ کسی نامناسب اور غیر مہذب رویّے کا مظاہرہ پاکستانی شائقینِ کرکٹ کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آیا، جب کہ اس کے بالکل برعکس صورتِ حال بھارت میں دیکھی گئی، جہاں ہر کوئی اس میچ میں اپنی ٹیم کی جیت کو یقینی سمجھے بیٹھا تھا، چنانچہ اس یقین اور ماضی کو بنیاد بناکر بھارتی ذرائع ابلاغ نے میچ سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کو تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنایا، توہین آمیز اشتہارات چلائے گئے، نازیبا تبصرے کیے گئے اور معیوب الفاظ میں میچ سے متعلق پیش گوئیاں کی جاتی رہیں۔ یہی سبب تھا کہ شکست کا دھچکا بھی کچھ زیادہ ہی شدت سے محسوس کیا گیا۔
اسٹیڈیم میں موجود بھارتی شائقین کی بہت بڑی تعداد کا میچ کا پانسا پلٹتے دیکھ کر مایوسی کے عالم میں لٹکتے چہروں کے ساتھ اسٹیڈیم سے واپس چلے جانا تو شاید کوئی جواز رکھتا تھا، بھارتی جواریوں کے رونے دھونے کی بھی سمجھ آتی ہے کہ ان کے اربوں روپے بھارتی کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ڈوب گئے تھے، مگر حکمران بی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ کے حامل غنڈوں نے جس طرح معصوم مقامی مسلمانوں پر غصہ نکالا اور انہیں جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، خاص طور پر بھارت کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم مقبوضہ کشمیر کے بے گناہ طلبہ پر حملے کیے گئے اور انہیں طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا… سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی کرکٹ ٹیم کو اچھا کھیلنے سے ان بے چارے مسلمانوں اور کشمیری طلبہ نے منع کیا تھا؟ بھارتی کھلاڑیوں کو رنز بنانے، یا پاکستانی اوپننگ بلے بازوں کو آئوٹ کرنے میں ان کمزور و ناتواں مسلمانوں نے کوئی رکاوٹ ڈالی تھی؟
حد تو یہ ہے کہ بھارتی ٹیم کے مسلمان بولر محمد شامی کو بھی محض اس بنا پر کہ وہ مسلمان ہے، ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز مہم چلائی جارہی ہے، اس کی پچھلی تمام تر کارکردگی کو فراموش کرکے اس کا مسلمان ہونا جرم بنا دیا گیا ہے، احسان فراموشی کی حدوں کو پھلانگتے ہوئے اسے پاکستانی ایجنٹ، بلکہ جاسوس تک قرار دیا جارہا ہے۔ گویا بھارتی ٹیم کے دیگر ہندو کھلاڑیوں نے میچ کے دوران نہایت شاندار کارکردگی دکھائی ہو اور صرف شامی کی ناقص بولنگ بھارتی ٹیم کی شکست کا باعث بنی ہو۔ انتہا پسند بھارتی عناصر اور متعصب حکمرانوں کی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ پاکستان کی فتح پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنے والے مقبوضہ کشمیر کے باشندے بھی اس ظلم و ستم کا شکار بنے ہوئے ہیں، ان کے خلاف پاکستان کی کامیابی پر نعرے لگانے کے جرم میں مقدمات درج کیے جارہے ہیں اور متعدد نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا اور اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، حالانکہ بھارتی حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ دلوں میں روشن آزادی کی شمع کو جبر و تشدد کے ذریعے بجھایا نہیں جاسکتا، بلکہ اس ظلم کے نتیجے میں اس شمع کی لو مزید تیز ہوتی ہے۔
دبا سکو تو صدا دبا دو، بجھا سکو تو دِیا بجھا دو
صدا دبے گی تو حشر ہو گا، دِیا بجھے گا تو سحر ہو گی