خالہ جان نے رکشے سے اتر کر ناقدانہ نظروں سے گھر کا جائزہ لیا۔ دیواروں کا سفید رنگ اب مٹیالا ہوچکا تھا۔ کالا گیٹ بھی کناروں سے زنگ آلود تھا۔ دروازے کے آگے بنی سیڑھی بھی کونے سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ غرض یہ کہ مکان کے بیرونی حصے پر بوسیدگی کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ میرے دو قدم پیچھے ہی خالہ کھڑی تھیں۔
’’کون…؟‘‘ اندر سے خاتون کی آواز آئی۔
’’جی یہ منور صاحب کا گھر ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
انہوں نے بلا تامل دروازہ کھول دیا۔ شاید وہ ہماری آمد سے پہلے ہی آگاہ تھیں۔ میرے سامنے صاف ستھرے حلیے میں ایک باوقار خاتون کھڑی تھیں۔
’’السلام علیکم!‘‘ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔
سیمنٹ کے رنگ والے صحن سے گزار کر وہ ہمیں کمرے میں لے آئیں۔ ایک طرف کرسیاں رکھی تھیں، نیچے گول تکیے، اور کمرے کے دائیں کونے میں مناسب سائز کا گل دان رکھا تھا۔ یہ غالباً ڈرائنگ روم تھا۔
’’بیٹھ جائیں…‘‘ خاتون نے آدابِ میزبانی نبھاتے ہوئے کرسیوں کی جانب اشارہ کیا اور خود بھی ہمارے ساتھ کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں، پھر میں نے ہی پہل کرتے ہوئے کہا ’’آپ ذرا اپنی بیٹی کو بلا دیں۔‘‘ خالہ تو گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی تھیں۔ ان کے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جاسکتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں گلابی جوڑے میں ملبوس ایک لڑکی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے دھیمے لہجے میں سلام کیا، اور ہمیں کولڈ ڈرنک کے گلاس تھما کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ گندمی رنگت، نازک نقوش اور بوٹا سا قد۔ مجھے وہ گلابی جوڑے میں ملبوس اس گلابی شام کا ہی حصہ لگی۔
’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ میں نے نرم لہجے میں سوال کیا۔
’’مریم‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
’’کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’ابھی بی اے کا امتحان دیا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں ٹھیراؤ تھا۔
’’اور کیا مشاغل ہیں؟‘‘
’’بس گھر کے کام، اور تھوڑے رسالے وغیرہ پڑھ لیتی ہوں۔‘‘ وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
میں نے ایک نظر خالہ کو دیکھا، اُن کے چہرے پر وہی بیٹوں کی ماؤں والی اکڑ تھی۔ پھر میں نے ایک نظر اس کامنی سی لڑکی پر ڈالی جو خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔
’’چلو چلتے ہیں اب۔‘‘ خالہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں۔
خالہ کے حوصلہ شکن رویّے پر خاتون کا چہرہ ایک دم بجھ سا گیا تھا۔ میں خاتون سے ہاتھ ملاتے ہوئے خالہ کے ساتھ باہر آگئی۔ مین روڈ پر آتے ہی ہمیں رکشہ مل گیا۔
’’خالہ، لڑکی تو پیاری ہے۔‘‘ میں نے رکشے میں بیٹھ کر اپنے خیال کا اظہار کیا۔
’’ہاں لڑکی تو پیاری ہے لیکن گھر کا حال دیکھا تھا تم نے؟ اجڑی پجڑی جھونپڑی ہو جیسے!‘‘ خالہ منہ بناتے ہوئے بولیں۔
’’ارے خالہ چھوڑیں، گھر سے بیاہ کرنا ہے آپ کو؟‘‘
’’ارے چپ کرو! مجھے ایسے ٹٹ پونجیوں میں بیٹا نہیں بیاہنا۔‘‘ خالہ کے لہجے میں پیسے کا غرور بول رہا تھا۔
’’خالہ! میری مانیں گھر جا کر استخارہ کرلیں۔ اچھی لڑکی ہے، خوب صورت اور مہذب اور کیا…‘‘
’’ارے چپ کر…‘‘ خالہ نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تُو اگر تھک گئی ہے تو نہ چلا کر میرے ساتھ، خود ڈھونڈ لوں گی لڑکی۔‘‘ خالہ برا مانتے ہوئے بولیں۔
سچ بتاؤں تو میں خود روز روز کے اِن پھیروں سے تنگ آچکی تھی۔ خالہ کسی لڑکی کو چھوٹی، کسی کو موٹی اور کسی کے گھر والوں کو ٹٹ پونجیا کہہ کر ریجیکٹ کردیتیں۔ لیکن میں اپنی اکلوتی خالہ کی اکلوتی بھانجی تھی، انہیں ناراض کیسے کرسکتی تھی!
میں آج پھر خالہ کے گھر موجود تھی۔ مجھے بیٹھے پندرہ منٹ سے اوپر ہوگئے تھے لیکن خالہ تھیں کہ کمرے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لی رہی تھیں۔ آخرکار خالہ کمرے سے برآمد ہوئیں تو میں نے سُکھ کا سانس لیا۔
’’آج کا پروگرام کینسل سمجھو۔ ہما کو آج کچھ لوگ دیکھنے آرہے تھے۔ عالیہ کے گھر میں تو روغن سفیدی ہورہی ہے، میں نے کہا میرے گھر بلا لو اُن لوگوں کو۔ تم ذرا ڈرائنگ روم جاکر دیکھ لو، اور بشیراں تم اندر سے کراکری نکالو۔‘‘ خالہ میرے اور بشیراں کے ذمے کام لگاکر صوفے سے ٹیک لگائے گہری سانس لینے لگیں۔
’’بس خدا کرے یہاں بات بن جائے، میری بچی کا بھی نصیب کھل جائے۔‘‘
ہما، خالہ کی نواسی تھی۔ پچیس سال عمر ہوگئی تھی لیکن ابھی تک کوئی صحیح جوڑ نصیب نہیں ہوا تھا۔ میں ڈرائنگ روم صاف کرکے ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ ڈور بیل بج اٹھی۔ میرے دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی خالہ تیر کی مانند اٹھیں اور مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں لے آئیں۔ عالیہ باجی پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ میں بھی ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی۔ عالیہ باجی مہمانوں سے باتیں کررہی تھیں، اور خالہ… اُن کے تو انداز ہی آج نرالے تھے۔ انہوں نے مہمانوں کا جس انداز میں خیرمقدم کیا تھا وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ ورنہ ان کا شمار اُن خواتین میں ہوتا تھا، جن کے ماتھے پر مہمانوں کے آتے ہی بل پڑ جاتے تھے۔
آخرکار ہما ٹرالی گھسیٹتی اندر داخل ہوئی۔ ٹرالی بشیراں کے ہاتھوں سے بنے ذائقے دار کباب، بسکٹ، نمکو اور گلاب جامن سے سجی ہوئی تھی جسے دیکھ کر مہمانوں کی آنکھوں میں جو چمک ابھری تھی نہ جانے کیوں وہ ہما کو دیکھ کر ماند پڑ گئی۔ حالانکہ ہما کے چہرے پر نہ چیچک کے داغ تھے، نہ وہ لولی لنگڑی تھی۔ ہاں وہ کوئی حور پری بھی نہیں تھی۔ مناسب نقوش کی ہما دیدہ زیب لباس میں قدرے بہتر لگ رہی تھی۔
’’یہ نمکو تو لیں، اچھا یہ کباب تو چکھیں۔ ‘‘خالہ تو مہمانوں کے آگے بچھی جارہی تھیں۔ مہمان خواتین نے نخوت کے ساتھ ہی سہی، لیکن ہر چیز سے بھرپور انصاف کیا۔ سجی سجائی ٹرالی اب جھوٹی پلیٹوں اور چمچوں سے بھر گئی تھی۔
خواتین اب اپنی اپنی چادریں سنبھالے جانے کے لیے پر تول رہی تھیں۔ خالہ نہ جانے کیوں چہرے پر آس سجائے بیٹھی تھیں۔
’’لڑکی تو ایسی ہی تھی لیکن کباب چٹ پٹے تھے۔‘‘ خاتون کے ساتھ آئی ایک شوخ سی لڑکی نے ماں کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کی سرگوشی اتنی بلند ضرور تھی کہ مجھ سمیت پاس بیٹھی عالیہ باجی اور خالہ نے بھی بہ خوبی سنی۔ عالیہ باجی تو بے تاثر ہی رہیں، شاید وہ اب ان رویوں کی عادی ہوچکی تھیں، لیکن خالہ کے چہرے پر چھایا گہرا سناٹا میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔