اپنے حصے کا دیا

386

’’اللہ کا شکر ہے کہ میری کوئی بیٹی نہیں ہے۔‘‘ شمیم صاحب کی زباں سے نکلے اِن الفاظ کو سن کر اُسے ایسا لگا جیسے زمانۂ جاہلیت کے لوگ بیٹی کو پھر زندہ دفن کرنے کی صلاح دے رہے ہوں۔ اُن کی دستاویزات پر اگرچہ تعلیم یافتہ ہونے کا لیبل لگا ہوا تھا لیکن سوچ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’بیٹی پیدا کرنا آپ کی قدرت میں نہیں، لیکن بیٹیوں سے محبت اور ان کی تربیت کرنا آپ کے اختیار میں ہے، اور شمیم صاحب…‘‘ اس نے تحمل برقرار رکھتے ہوئے کہا ’’بیٹیاں اللہ اُن کو عطا فرماتا ہے جن کو وہ محبت اور تربیت کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ بیٹیاں تو پھر بہت نازک ہوتی ہیں، ان کی آپ کیا پرورش کر پاتے! آپ کو تو بیٹوں کی تربیت کرنی نہیں آئی، ورنہ وہ آپ سے الگ ہونے کے بجائے آپ کی خدمت کررہے ہوتے۔‘‘ صفدر کو شمیم صاحب کے خیالات سن کر سخت مایوسی ہوئی۔
’’ویسے بیٹی کو مصیبت سمجھنے سے پہلے یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی ماں بھی کسی کی بیٹی تھی، اور آپ کے دونوں بیٹوں کی ماں بھی کسی کی بیٹی ہی تھی، اور آپ نے دونوں بیٹوں کی شادی بھی کسی کی بیٹیوں سے ہی کی ہے۔‘‘ وہ شمیم صاحب کو کھری کھری سناکر چلا گیا۔ اس کا ہی دماغ خراب ہوا تھا جو دو گلی چھوڑ کر مختار صاحب کی گم شدہ بیٹی کا قصہ لے بیٹھا۔
یہ چوتھے شخص تھے جن سے اُس نے مختار صاحب کے لیے مدد کی اُمید پر بات کی اور ٹیڑھا جواب ملا۔ خود وہ مختار صاحب کے ساتھ مختلف فلاحی اداروں اور اسپتالوں میں بچی کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ انھوں نے بہت امید بھی دلائی، مگر سب نے مدد کرنے کے بجائے مختار صاحب کو غیر ذمہ دار اور قصوروار ٹھیرا کربات ختم کردی کہ: حد ہے اپنی اولاد کی رتی برابر پروا نہیں، جب کچھ ہوجاتا ہے تو واویلا کرتے ہیں۔ بعض نے’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کہہ کر مختار صاحب سے کسی وقت کا خناس نکالا، کچھ نے حکمِ ربی مان لینے پر اکتفا کرکے معاملے سے لاتعلقی ظاہر کردی، اورکچھ نے کہانی کے طور پر سن کر مزے لیے اور تنفر سے صدمے کا اظہار کردیا، مگر مدد کرنا کسی نے گوارا نہیں کیا۔
کچھ روز بعد محلے کے شیخ صاحب اپنی ادھیڑ عمر بیگم سے بدتمیزی کرنے والے لڑکوں کو کوس رہے تھے۔ اس نے معاملے کی چھان بین کی تو کہنے لگے ’’بیگم مارکیٹ سے سودا سلف لے کر آرہی تھیں کہ دو لڑکے پیچھے لگ گئے اور گھر تک آوازے کستے ہوئے آئے۔‘‘
اس نے کہا ’’ویسے شیخ صاحب! آپ کو اپنی بیگم کی رتی برابر پروا نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟ اب کیا اپنی گلی محلے میں بھی عزتیں محفوظ نہیں ہوں گی؟‘‘
’’کیوں، آپ کی عزت، عزت ہے… مختار صاحب کی عزت آپ کی عزت نہیں؟ کیا ایک مسلمان کی عزت دوسرے مسلمان کے لیے قابلِ احترام نہیں؟‘‘ اس نے اُن کی بات کا جواب دیتے ہوئے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’چند روز قبل مختار صاحب کی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں جان کر یہی کہا تھا نا، کہ انھیں اپنی بیٹی کی ذرا پروا نہیں۔‘‘ اس نے گویا یاددہانی کروائی۔ شیخ صاحب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا، مگر وہ اپنی بات کہہ کر آگے بڑھ چکا تھا۔
ایک مہینے بعد کسی نے رفیق صاحب کی بیٹی کو چھیڑنا شروع کردیا۔ انھوں نے گلی میں گالیوں کی دکان کھول دی۔ اس نے رفیق صاحب کو اُن کے گزشتہ بیانات یاد کروانے کی غرض سے کہا ’’رفیق صاحب! جیسی کرنی، ویسی بھرنی۔‘‘ انھوں نے نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں نے جب مختار صاحب کی بیٹی کا ذکر کیا تھا تو آپ سب محلے والوں کے کچھ ایسے ہی بیانات تھے، سو اب آپ بھی حکم ربی سمجھ کر قبول کرلیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ مختار صاحب کو جیسے آگ لگ گئی ہو۔
’’مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو چوٹ لگی تو آپ کا واویلا جائز، شیخ صاحب کا کوسنا برحق۔ اس کا ذمہ دار پورا معاشرہ… مگر کسی کمزور مزدور کی بیٹی گم ہوجائے تو وہ اس کا قصوروار، اُس کی بیٹی کی کوئی عزت نہیں مگر تم لوگوں کی بہو بیٹی کی عزت ہے۔ جب اُس کی تکلیف کو سننا اور دور کرنا آپ لوگوں کے لیے وقت کا ضیاع تھا تو پھر آپ کی بہو بیٹی کی بھی عزت کے لیے کوئی نہیں اُٹھے گا۔ آپ جیسے لوگوں کی یہی سزا ہے کہ اکیلے ہر مصیبت کو برداشت کریں اور بے یارو مددگار چیختے رہیں۔‘‘
شمیم صاحب بولائے بولائے پھر رہے تھے، اُن کی پوتی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ وہ اس کو چیز دلانے دکان آئے تھے۔ بچی ہاتھ چھڑا کر محلے کے بچوں کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے بیچ روڈ پر کھڑی ہوگئی تھی کہ تیز رفتار بائیک والا اس کو مارتا ہوا گزر گیا۔ چاروں طرف سے لوگوں نے گھیر رکھا تھا، کوئی سیلفی بنارہا تھا ،کوئی پوسٹ لگانے میں مگن تھا، تو کوئی تصویر اتارنے میں لگا تھا، اور شمیم صاحب ایسے میں وہ چہرہ تلاش کررہے تھے جو ان کی پوتی کو اٹھا کر اسپتال لے جائے۔
صفدر نے شمیم صاحب کو یوں پریشان دیکھا تو فوراً ان کی پوتی کو اُٹھاکر شمیم صاحب کے ہمراہ قریبی اسپتال لے گیا۔ بروقت مدد سے بچی کی جان بچ گئی اور شمیم صاحب کا سر جھک گیا تھا۔
’’آج ہم دوسرے کو پریشانی میں دیکھ کر یہ سوچ کر منہ موڑ لیتے ہیں کہ بھلا ہم کیا کر سکتے ہیں! اور اپنی خوشیوں میں مگن ہوجاتے ہیں۔ لیکن کیا ہم اپنے بھائی کے لیے دُعا بھی نہیں کر سکتے؟ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ایک مسلمان کے جان و مال دوسرے مسلمان کے لیے اتنے ہی قابلِ احترام ہیں جتنا کہ آج (حجۃ الوداع) کا دن۔‘‘
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ جب کوئی مومن بندہ اپنے مومن بھائی کی مدد میں لگتا ہے تو اللہ اس کی مدد میں لگ جاتا ہے۔‘‘
تو کیا اس ملک میں کسی کی بھی بیٹی کی عزت ہماری بیٹی کی عزت جیسی نہیں ؟ کیا ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ دوسرے کی تکلیف کا احساس بھی اس کے رتبے اور منصب کے لحاظ سے کریں؟ یا پھر غریب انسان کی تکلیف کو تکلیف ہی محسوس نہ کریں؟ کیا ہم اتنے محتاج ہوگئے ہیں کہ اپنے بھائی کو جاکر تسلی کے دو بول بھی نہ بول سکیں؟ یہ ضروری تونہیں کہ دوسرے کی تکلیف کا احساس اُس وقت ہو جب خود تکلیف سے دوچار ہوں۔‘‘
صفدر کی ان باتوں سے شمیم، رفیق اور شیخ صاحب کا بھی سر جھکا ہوا تھا۔ ان کو بھی اس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ اگر آج برائی کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور مشکل وقت میں اپنا ذاتی مفاد چھوڑ کر دوسرے کی مدد نہ کی تو پھر آنے والا وقت ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ہمیں اپنے حصے کا دِیا جلا کر روشنی پھیلانی ہے۔ بھلے سے روشنی ہلکی ہو، مگر ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی کھوئی ہوئی منزل پا لے۔

حصہ