تعلیم قوموں کی ترقی کی ضمانت اور اقوام کی تشکیل کا بنیادی جز کہلاتی ہے‘ بات جب معیاری تعلیم کی ہو تو بحیثیت قوم ہمیں جائزے کی اشد ضرورت ہے، پاکستان میں معیاری تعلیم کی کمی کے باعث مختلف طبقات میں نہ صرف احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے بلکہ جرائم کی شرح بھی بلند ہورہی ہے۔ تعلیمی مسائل کے گرداب سے نکلنے کے لیے بہتر رہنما اصول نہ ہونے کے سبب عدالتوں، قانونی اداروں بالخصوص جیلوں پر بھی ناکافی وسائل کے سبب بوجھ بڑھ چکا ہے۔ انہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہوٹل میں ’’وومن اسلامک لائرز فورم‘‘ کے زیر اہتمام سالانہ کنونشن کے موقع پر ’’معیاری تعلیم کا فقدان جرائم میں اضافے کا سبب‘‘ کے عنوان سے پروگرام منعقد کیا گیا۔ پروگرام میں عدالتی مناصب پر براجمان ججز صاحبان، سائلین کے پشتیبان مرد و خواتین وکلا، تعلیمی ماہرین، مصنفین سمیت سول سوسائٹی کے ارکان بھی شریک ہوئے۔
کنونشن کی مہمان خصوصی سندھ ہائی کورٹ کی جج جسٹس کوثر سلطانہ حسین تھیں۔ جسٹس کوثر سلطانہ نے شرکائے تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ معیاری تعلیم سے زیادہ جرائم میں اضافے کا سبب غیر معیاری تربیت بنتی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے نور مقدم کیس کو معیاری تعلیم کی کمی سے جوڑنا مناسب نہیں۔ وہاں ہمیں معیاری تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ جسٹس کوثر سلطانہ نے کہا کہ بہرحال اس موضوع کی حساسیت بھی اپنی جگہ ہے۔ تعلیم اور خاص طور پر معیاری تعلیم کا مسئلہ اہم ہے۔
تعلیم کے بغیر اقوام ترقی نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے میں خوا تین کے تعلیمی معیار کو بھی وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو قوانین کے بارے میں زیادہ آگہی ہوتی ہے۔ اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوجائے تو سزا کا خوف انہیں آئندہ جرم کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔
ایس پی بچہ جیل جان محمد نے کہا کہ پہلے تو یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ معیاری تعلیم کو بروئے کار لانے کے لیے وسائل کتنے ہیں؟ بحیثیت جیل انچارج بخوبی واقف ہوں کہ جیلوں میں ہر طبقے کا فرد آتا ہے۔ نور مقدم کیس میں واضح ہوا کہ تعلیم کے ساتھ حقیقی معنوں میں تربیت بھی ضروری ہے اور یہی معیاری تعلیم کا پیمانہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں دستخط کرنے والے طبقے کو ’’تعلیم یافتہ‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی کتنے فیصد آبادی آج بھی معیاری تعلیم تو چھوڑیئے‘ بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہے۔ معیاری تعلیم کی راہ میں رکاوٹ معاشی حالات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وومن اسلامک لائرز فورم کی قابل قدر خدمات ہیں۔ ول فورم جیلوں میں نہ صرف خواتین اور بچوں کی ذہنی اصلاح اور کردار سازی پر توجہ دے رہا ہے بلکہ یہ نادار خواتین و بچوں کو قانونی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔
کراچی بار کے صدر ایڈووکیٹ نعیم قریشی کو شرکا سے خطاب کی دعوت دی گئی تو انہوں نے ول فورم کی کاوشوں کو حقوق العباد کا دوسرا نام دیتے ہوئے کہا کہ آج ایلیٹ کلاس اور غریب کا تصور معاشرے میں عدم توازن کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اب تک یکساں نصاب تعلیم ہی نہیں بن سکا‘ امیر و غریب کی تفریق بھی اسی وجہ سے ہے۔ مجھ جیسا ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا شخص کبھی بیورو کریٹ نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں میں بھی تفریق ہے۔ امیر قیدی اسپتالوں میں اپنی نیند پور ی کرتا ہے جب کہ غریب قیدی کا حال بتانے کی ضرورت نہیں۔ مان لیا کہ 50 فیصد قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی پولیس کے ذمے آتی ہے لیکن باقی پچاس فیصد کی کسر جیل حکام پوری کردیتے ہیں۔
سندھ بار کونسل کے نمائندے ایڈووکیٹ سعید عباسی نے کہا کہ پاکستان میں دہرا نظامِ تعلیم درست نہیں۔ جب تک یکساں تعلیمی نصاب نہیں ہوگا مسائل برقرار رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کام تو ہو رہا ہے لیکن اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں خواتین کی تعلیمی شرح کم ہے۔
معروف اسلامی اسکالر و مصنف رضی الدین سید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں مختلف موضوعات زیر بحث ہیں لیکن یہ موضوع بھی نہایت اہم ہے، پی ایچ ڈی، ماسٹرز اور گریجویشن تو سب ہی کر رہے ہیں‘ قرآن کی جانب بھی آنا ہوگا۔ پاکستانی نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آیا لیکن ہم اللہ سے کیے عہد کو بھولتے جارہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے جب مصر فتح کیا تو سب سے پہلے تعلیمی نصاب کو تبدیل کیا۔ اسلامی خطوط پر نصابی تبدیلی حقیقی تبدیلی کا اصل ہتھیار ہے۔ جامعات اور مدارس کا متوازی تعلیم کا نظام چل رہا ہے۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ مدارس میں کبھی ہڑتال ہوئی۔ اساتذہ کی تکریم بھی مدارس میں زیادہ کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں مدارس کے 12 تعلیمی بورڈز ہیں لیکن کبھی یہ خبر نہیں سنی کہ ان کے امتحانی عمل میں کبھی پرچہ آؤٹ ہوا ہو۔
پروگرام کے اختتام سے قبل مہمان خصوصی جسٹس کوثر سلطانہ نے ’’وومن اسلامک لائرز فورم‘‘ کی چیئرپرسن ایڈووکیٹ طلعت یاسمین کے ہمراہ ول فورم کی 9 سالہ کنونشن کی تاریخ پر مشتمل ایک کتاب بعنوان’’مختصر روداد سالانہ کنونشن 2012 تا 2019‘‘ کی رونمائی کی، ول فورم کی جانب سے مہمانان کو کتابیں اور گلدستے پیش کیے گئے۔ کنونشن کا اختتام دعا سے کیا گیا جو اسلامک لائرز فورم سندھ کے جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شعاع النبی نے کرائی۔ جبکہ شرکائے کنونشن کے لیے عصرانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔