اس ہفتہ سوشل میڈیا پر جشن عید میلاد النبی ﷺ کا بھی خوب چرچا رہا اور کیوں نہ ہوتا۔ 18اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنے جلسہ کے تناظر میں سلام شہدائے کارساز کےاکلوتے ہیش ٹیگ کے ساتھ لیے ٹرینڈ لسٹ پر کچھ دیر نظر آئی،اسی دوران ٹی 20ورلڈ کپ اور PAKvWIبھی چلتے رہے اور پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے کی تحریک لیے وقار ذکا اپنے بے شمار فالوورز کے ساتھ تین دن تک سماجی میڈیا پر 17-18 اور پھر 20-21 اکتوبر کووقفے وقفے سے زیر بحث رہا۔ پہلے DharnawithWaqar تھا بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد ThankyouWaqarZaka ٹرینڈ کرتا رہا۔ دوسری جانب 12ربیع الاول بمطابق 19 اکتوبر کو #EidMiladunnabiMubarak، # عالمی میلاد کانفرنس، # وماارسلناک الارحمتہ اللعالمین ، # اللھم صل وسلم علی نبینا محمد، #ShaneMustafa، #جنگوں والے نبی کی آمد،رسول امین کے ہیش ٹیگ پاکستان سے ٹرینڈ بنے ۔
پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر بھی عاشقان رسول ﷺ نے جہاں جہاں عملی طور پر ولادت نبی ﷺپردلی خوشی کااظہارمختلف طریقوں سے کیااسکو وہ بھی شیئر کرتے رہے۔ ترکی ، عراق، مصر،مراکش، بھارت، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا، ملیشیا، سمیت کئی یورپی ممالک برطانیہ ، امریکا، فرانس میں بھی ولاد ت رسول ﷺ کی خوشی محبت و عقیدت کے اظہار کے ساتھ منائی گئی۔بس جو مجھے حیرت ہوئی وہ سعودی عرب کے ٹرینڈز پر تھی جہاں تین دن تک فٹ بال ہی چھائی رہی، وہاں سعودی پرو لیگ جاری تھی ،یہ ویسا ہی ہے جیساپاکستان میں کرکٹ ، یہاں بھی ٹی 20تھا مگر پاکستان میں موجوہ حکومت نے عوام پرکئی مہنگائی بم گرانے کے باوجودبہرحال تاریخی انداز سے اور قومی سطح پر اس دن کا انعقاد کیا وہ قابل تعریف ہے۔ملیشیا میں Salam Maulidur Rasul، مصر میں #المولودالنبوي الشريف، جبکہ یمن میں ربیع الاول کے ایک بڑے جلسہ کی خوبصورت وڈیو بھی ٹوئٹر پر وائرل رہی ۔عمان میں #المولدالنبوي الشريف کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا نظر آیا، اسکے علاوہ عمان میں ایک اور ایمان افروز ٹرینڈ لیڈ کرتا نظر آیا جس میں انہوں نے ’فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ ‘ کا مطالبہ کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ہم نہیں بھولے نہ بھولیں گے ساتھ ہی رسول ﷺ سے محبت کا اظہار کی پوسٹیں شیئر کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ فلسطین سے کئی وڈیوز شیئر ہوئی جس میں اسرائیلی فوجی مسلمان لڑکوں پر تشدد و گرفتاری کے مناظر تھے ۔ مصر میں بھی 21 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا جیسے خلیجی ممالک میں کیا جاتا ہے تاکہ وہ چھٹی ویک اینڈ کے ساتھ شامل ہوجائے ۔ترکی میں بھی سرکاری سطح پر کئی سال سے یہ دن منایا جاتا ہے،سوشل میڈیا پر ترکی میں MawlidAlNabi اور MevlidKandiliکے ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ بنائے۔آپ دیکھیں کہ اس وقت مہنگائی کی تیزی سے بڑھتی شرح کے باوجود تمام چیزیں پہلے سے بڑھ کر کی گئیں ۔اس وقت کم از کم ایک دس کلو والی بریانی کی دیگ کی پاکستان میں اوسط قیمت 12000روپے چل رہی ہے ۔ میں نے صرف کراچی میں چارعام سے محلہ کی کیٹرنگ کا کام کرنے والی دکانوں سے کچھ معلومات جمع کی ۔ انکے اعداد و شمار کے مطابق صرف 12 ربیع الاول کے دن کوئی 89 دیگوں کے آرڈر تھے باقی میٹھا وغیرہ الگ تھا۔یہ ہی کوئی 10لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔ اس حساب سے اندازہ لگائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انتہائی کم ترین محتاط اندازے کے مطابق صرف ایک دن میں لگنے والی سبیلیں، شربت، حلیم، بریانی ، زردہ ،کھیر و حلوہ جات میں ملک بھر میں کوئی 2ارب روپیہ تو لازمی سرکولیٹ ہوا ہوگا۔باقی لائٹنگ، ریلی، جلسہ ، پرچم ، نعلین مبارک ، ٹوپیاں ومحافل نعت ودیگر تو الگ ہیں۔یہ سب اِخراجات اس مہنگائی کی ستائی عوام میں موجود لوگوں نے کیسے کر لیے ہوںگے؟میرے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہے۔ لوگ امسال بھی عید یاجشن بمعنی خوشی اور میلاد کی اہمیت و ضرورت پر زور دینے کے وڈیو کلپس ایمانی جذبات کے ساتھ وائرل کرتے رہے۔اسی طرح جہاں جہاں گروپس میں اس دن کے مختلف اعمال شنیع کی وڈیوز ڈالی جاتی رہیں وہاں ان کا رَد اور پھر رد عمل سوشل میڈیا پر خوب جاری رہا ۔ میلاد منانے والے سڑکوں کی طرح سوشل میڈیا پر بھی بھرپور جوش میں نظر آئے۔ انہیں نعت خوانوں کے تازہ کلام کی سپورٹ سے اور تقویت ملتی رہی کہ اب کچھ نعت خواں حضرات نے اپنے کلام میں میلاد منانے کو ہی فوکس کر رکھا تھا۔سیدھی سی بات یہ تھی کہ آپ کا اپنے نبی ﷺ سے رشتہ کیا اور کیسا ہے؟ اگر یہ ڈیفائن ہو جائے تو انسان ویسا ہی عمل کرتا ہے کیونکہ جب اللہ خود فرما رہا ہے کہ”اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔” تو اب اس چرچے کی تعریف و توضیح کے لیے امت کے پاس تواترو توارث کا سلسلہ موجودہے۔مولانا عبید الرحمٰن لکھتے ہیں کہ ’’اس مسئلہ پر اگر امام سیوطی ؒ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ، علامہ صاوی المالکی ؒ، مسند الہند شاہ ولی اللّٰہ ؒ، سراج الہند امام شاہ عبد العزیزؒ، ابن الحاج المالکی ، مفتی مکہ ملا قاری الہروی الحنفی، قاضی مکہ زینی دحلان الشافعیؒ ، صاحب فتاویٰ ابن حجر مکی ؒ ، شیخ الاسلام علامہ زاہد الکوثری ؒ، امام عسقلانیؒ ، امام قسطلانی ؒ ، امام نوویؒ ، امام شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ مجدد ملت حضرت مجدد الف ثانی ؒ، علامہ سرہند و امام ابو شامہ ؒ رحمہم اللہ جیسے مفسرینِ قرآن، محدثینِ عظام استدلال میں دھوکہ کھا گئے ہوں اُنکو بھی ایسی غلطی لگ گئی ہو تو ملت پھر کس گوشہ عافیت میں جا کر پناہ لے گی؟ پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فتنہ جدیدیت کا مقابلہ جس معاشرت اسلامی کے ذریعہ ممکن ہے وہ یہی ایام مقدسہ ہیں کہ ان ہی سے غازی علم الدین رحمہ اللّٰہ سے لے کر غازی ممتاز قادری رحمہ اللّٰہ اور غازی تنویر قادری حفظہ اللّٰہ تعالیٰ جیسے مجاہدینِ ناموس رسالت ﷺتیار ہوئے ہیں! ایک خیر کے کام سے اگر کچھ فساد یا عمل کا انحراف پیدا ہو گیا ہے تو اس کی اصلاح کی جائے نہ کے جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کیا جائے ورنہ یوں تو سارے مستحبات ہی ختم کردیئے جائیں گے۔ یہ ہی شرع شریف کا منہج اصلاح ہےکہ اِمالہ کیا جائے یعنی حکیمانہ اصلاح نہ کے ازالہ کیا جائے۔ میلاد صرف جلسوں کا نام نہیں ہے۔ باقی اب تک ہماری نمازیں اگر مکروہات سے خالی نہ ہو سکی ہیں تو عوامی اجتماعات کا مکروہات سے خالی ہونے میں تو اوروقت لگے گا۔ کوئی بھی عنوان جب خواص سے اٹھ کر عوام میں آتا ہے تو قدرے انحرافات کا در آنا فطری امر ہے۔ اس لئے مقصود اگر اصلاح ہے تو من الناس میں سے ہو کر اصلاح کی جائے نہ کے تنقیدی نشتر چلائے جائیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ میلادالنبیﷺ فرد کی انفرادی آزادی پر عبدیت کا اظہار اور تصور عبدیت کا یوم تجدید وفا ہے۔ جبکہ دوسری جانب برتھ ڈے کا تصور و تاریخ تو خالص ’’انسان پرستی ‘‘کا تہذیبی و سماجی اظہار ہے۔
پاکستانی اینکرز پر سماجی میڈیاسے اپنے جذبات کا اظہار و پارٹی کا دفاع کرنے میں نزلہ گرانے کا عمل اب ایک عمومی مزاج بن چکا ہے۔ عاصمہ شیرازی نے وزیر اعظم کے طرز حکومت پر تنقیدی ٹوئیٹ کیا کر دی، یوتھیے بھرپور جذباتی ہو گئے اور ’حجاب میں لپٹی طوائف ـ‘ اور ’بائیکاٹ سرکاری حاجن ‘کے عنوان سے سارا دن ہیش ٹیگ چلا کر عاصمہ شیرازی کے خلاف مواد ڈھونڈڈھوند کر شیئر کرتے رہے۔ عاصمہ کے حق میں بھی اپوزیشن کی مدد سے کئی ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بنایاگیا جس میں خود عاصمہ شیرازی اور QuestioningIsNotHarassment، ’جنتر منتر سے ملک نہیں چلے گا ‘شامل رہے۔عاصمہ نے بی بی سی کی ویب سائیٹ پر ایک بلاگ تحریر کیا ، جس کے اہم الفاظ یہ تھے کہ ،’اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘اس کی آڑ میں بی بی سی اردو اپنے زہریلے ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اس انداز سے اترا’عاصمہ شیرازی کی کالم پر ٹرولنگ: پاکستان میں خصوصاً خاتون صحافیوں پر سوشل میڈیا پر بڑھتے ذاتی حملوں کی وجہ کیا ہے؟‘ اس رپورٹ سے بات واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے کہ معاملہ کتنا جانبدارانہ ہے۔ کبھی تو ’خاتون ‘ کی عزت کا معاملہ ہو جاتا ہے لیکن جب ایک طرف خاتون مکمل با حجاب ہو یا خاتون اول کا درجہ رکھتی ہو اپلس یہ کہ مذہبی شناخت رکھتی ہو تو اسکے مقابلے میں ایک لبرل سوچ رکھنے والی خاتون صحافی زیادہ حقوق کی حقدار بن جاتی ہے ۔ کون بتائے گا کہ سوشل میڈیا پر پہلا ذاتی حملہ خاتون اول پر انکی مذہبی شناخت، انکے حلیہ ،عقائد اور پس منظر کو لیکر کیا گیا جس کے جواب میں پھر عاصمہ کو نشانہ بننا پڑا۔ صحافی ہونےکا مطلب اگرعاصمہ کا بلاگ ہو سکتا ہے تو یہ جان لینا چاہیے کہ اب تو سوشل میڈیا کا ہر صارف بھی مکمل صحافی بن چکا ہے ۔یہی نہیں بعد میں وزیراعظم کے ایک ترجمان نے عاصمہ شیرازی کے بلاگ پرایک پریس کانفرنس بھی کی جسے پورے پاکستان کا میڈیا لائیو دکھاتا رہا ۔بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے ، وزیر اعظم عمران خان کے عملی اقدامات عوامی فلاح کے تناظر میں جو بھی ہوں، مہنگائی مافیاز بلا شبہ انکے قابو اور انکی رٹ سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر لبرل ، مغرب پرست اور شیطانی قوتوں کے خلاف انکا بیانیہ بہرحال بہت زوردار تھا۔12ربیع الاول کے موقع پر رحمتہ اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ، مغرب پر ننگی تنقید، نصاب میں سیرت رسول ﷺ کا نفاذ، اسلاموفوبیا کے خلاف بیانیہ، فحاشی و بےحیائی کے خلاف بیانیہ کی تکرار نے بہرحال بہت ساری جگہوں پر چوٹ ماری ہے ۔ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عمران خان کے بیانیہ میں متذکرہ موقف انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں ، اس لیے انہوں نے تنقید کرنے کا یہ گندا طریقہ اختیار کیا ۔اس کا ایک واضح ثبوت سوشل میڈیا پر عورت مارچ والوں کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کا عکس تھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم پر رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی بنانے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
جیسا میں نے بتایا کہ سوشل میڈیا استعمال کنندگان ازخود صحافی بھی بن چکے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ موٹیویشنل اسپیکر و نہ جانے کیا کچھ بن چکے ہیں ۔فالوورز کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے ، کیونکہ ویسے ہی نوجوانوں کے پاس کوئی رہنمائی نہیں تو وہ جنید اکرم جیسوں سے سوال کرلیتے ہیں۔ انسٹاگرام کے اپنے شو ’کچھ بھی مجھ سے پوچھو‘میں موضوع تو تعلیم رکھا تھا مگر کسی سوال کے جواب میں جذباتی ہو کر معروف یو ٹیوبر و(مزاحیہ شوباز) سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جنید اکرم نے شراب کی اجازت کو تاریخ سے جوڑ کر معاشی خوشحالی سے جوڑکربیان داغ دیا ساتھ ہی شراب بنانے والی فیکٹری مری بریوری کی سیل رپورٹ کا حوالہ بھی یہ کہہ کر دیا کہ پاکستان میں 61فیصد غیر مسلم ہیں اور اس کاروبار میں بہت پیسہ ہے۔اب اس انوکھے بیان پر سخت رد عمل آیا ۔ قرآن پہلے ہی بتا چکا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ فائدہ ( مالی) ہو مگر نقصان کہیں زیادہ ہے ، پھر مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لیے حلال حرام اہم ہے ناکہ فائدہ نقصان ۔معروف یوتھ اسکالر وجیہہ الدین نے اس پر رد عمل وڈیو میں موثر انداز سے سمجھاتے ہوئے بتایا کہ جنید اکرم جیسے افراد نے اپنے آپ کو صرف پیسہ سے جوڑ دیا ہے ، جن کے تمام معیارات صرف پیسہ کمانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے شراب سے اخلاقی و معاشرتی تباہی کے اثرات بیان کیے اور پیسہ جیسی حقیر چیز کو اللہ کے احکامات کے مقابلے میں مدلل انداز سے بیان کیا ۔