مسیحائی ڈیل

270

میرے بھتیجے حشام نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے چین جانے کی ضد پکڑلی۔ بھائی نے چین میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت اس حدیث کی روشنی میں دے دی ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘۔ یوں حشام علم حاصل کرنے کی تمنا لیے چین جا پہنچا۔ کالج میں داخلے کی تمام کارروائی پہلے ہی مکمل کرلی گئی تھی، اب وہاں جاکر صرف کلاسز ہی لینا تھیں۔ حشام کے علاوہ اور بھی پاکستانی وہاں بسلسلہ تعلیم مقیم تھے۔ گھر سے دور جاکر پڑھنا، ہاسٹل میں رہنا ہر اُس شخص کے لیے مشکل ہوتا ہے جو خاندان والوں کی آنکھ کا تارا ہو۔ حشام کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا رویہ سارے گھر والوں کا رہا، جس نے اسے انتہائی حساس بنادیا۔ دیارِ غیر میں اپنے سارے کام خود کرنا پتھر توڑنے سے کم نہیں ہوتا، بس یہی کچھ اُس کے ساتھ بھی ہوا، یعنی جس نے گھر میں کبھی ایک کپ چائے تک نہ بنائی ہو اُسے باورچی بننا پڑگیا۔ خیر، یہاں بتانے کی بات یہ ہے کہ ایک روز کالج جانے کے دوران موٹر بائیک سے گرنے کی وجہ سے حشام کی ٹانگ میں شدید چوٹ آئی اور وہ اسی حالت میں کالج جا پہنچا، جہاں کالج انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام ضروری ٹیسٹ کروائے اور ہسپتال میں انتہائی توجہ کے ساتھ علاج شروع کروا دیا۔ تمام سہولیات اور ڈاکٹروں کی توجہ کے باوجود حشام کو کسی قسم کا کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ ٹانگ کی سوزش بڑھتی گئی، جس سے تکلیف میں مزید اضافہ ہونے لگا، یعنی طبیعت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ ڈاکٹر دوائیں دیتے رہے، لیکن مکمل آرام کے باوجود نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے گھر والوں کی بڑھتی تشویش کے باعث بھائی نے حشام کو پاکستان بلانے کا فیصلہ کرلیا تاکہ یہاں علاج کروایا جاسکے۔ پاکستان آتے ہی اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے فوری پلاسٹر کیا اور کچھ دوائیں دیں۔ یوں چند ہی دنوں میں حشام کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی۔ اب ٹانگ میں لگی چوٹ میں واضح فرق محسوس ہونے لگا، سوجن اتر گئی، سب کچھ پہلے سے بہتر ہوگیا۔
اس تحریر کا مقصد کسی کے گھر کی داستان بیان کرنا نہیں بلکہ جو کچھ بتانا مقصود ہے اُس کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں پہلے سارا واقعہ آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ میرے لکھنے کا مقصد آپ تک پہنچ جائے۔ یہ سارا قصہ لکھنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کیونکہ میں جن نکات کو اٹھانا چاہتا ہوں اس کے لیے میرے پاس کوئی ایسا ثبوت ہونا چاہیے جس سے اپنی بات میں وزن پیدا کرسکوں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ چین میں انتہائی توجہ کے ساتھ علاج ہونے کے باوجود حشام کی طبیعت بہتر کیوں نہ ہوئی؟ چین میں تمام سہولیات کے باوجود زخم اور ٹانگ کی سوزش بجائے کم ہونے کے کیوں بڑھتی جارہی تھی؟ جبکہ ہمارے ملک میں اس طرح کے حادثے روز کا معمول ہیں، بائیک چلاتے ہوئے کراچی کی سڑکوں پر گرنا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہاں حادثہ ہوا، دوائیاں لیں، دو چار دن آرام کیا، بس سب کچھ ٹھیک۔۔۔ پھر وہی معمولاتِ زندگی، اللہ اللہ خیر صلا۔ لیکن وہاں ایسا کیا تھا جس کی وجہ سے دوائیں اثر نہیں کررہی تھیں؟ اور پاکستان آتے ہی ڈاکٹروں نے حشام پر ایسا کون سا منتر پڑھا جس سے دوا نے اتنا اثر کیا کہ وہ بالکل فٹ ہوگیا؟ جب میں نے اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دی جانے والی دوائیں صرف سو ملی گرام کی تھیں اور وہ صرف رفعِ درد کے لیے تھیں، زخم خشک کرنے کے لیے کوئی بھی دوا تجویز نہیں کی گئی تھی۔ ڈاکٹروں کی ہدایت یہ تھی کہ صرف اور صرف آرام کرنے سے ہی تکلیف میں کمی آسکتی ہے، اس کے سوا کسی قسم کی میڈیسن استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جس نے بچپن سے ہی اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کی ہوں، یہ طریقہ علاج سوائے مذاق کے کچھ نہ تھا۔ ایسے میں مریض کا ٹھیک ہونا تو دور کی بات، مزید لینے کے دینے بھی پڑ سکتے تھے۔ چین میں اس طریقۂ علاج پر ڈاکٹروں کا کیا قصور! وہ تو ہر مریض کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حشام کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس کے لیے تو سو ملی گرام کی دوا بچوں کو دی جانے والی ٹافیوں سے زیادہ نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آتے ہی ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیں اس کے جسم میں اتریں تو وہ چنگا بھلا ہوگیا۔ جب اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ چین میں ڈاکٹر مرض کے مطابق ہی دوائیں تجویز کرتے ہیں، وہاں مریض کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے اقدام کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی مریض کو ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کروانے کی ضرورت ہو تو پہلے وہاں باقاعدہ ڈاکٹروں کا پینل تشکیل دیا جاتا ہے، جو اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ ہائی اینٹی بائیوٹک کیسے اور کس مقدار میں دی جائے۔ عام حالت میں وہ ان دواؤں سے اجتناب برتتے ہیں۔ وہ بغیر مشورے کے کسی کو بھی یہ ادویہ تجویز نہیں کرتے۔ یہی طریقہ علاج دنیا بھر کے ہسپتالوں میں چلا آرہا ہے۔ اُن کے نزدیک مرض کی بہتر تشخیص سے ہی مرض میں آفاقہ ہوگا۔ اس آگاہی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حشام کی ٹانگ میں آنے والے زخم کی بگڑتی ہوئی حالت میں کہیں بھی چین کے ڈاکٹروں کی کوتاہی نہیں، بلکہ وہ احتیاط ہے جو وہ انسانی جان کے ساتھ ہمدردی میں کرتے ہیں۔
بیرونِ ملک کے اس طریقہ علاج پر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ نانی اماں کے ٹوٹکے اتنے کارآمد ہوتے کہ بخار، نزلہ فوری دور کردیتے، یہاں تک کہ اگر کبھی کھیلتے میں گر جاتے تو ہلدی کا لیپ لگاکر سوجن اور درد سے نجات مل جاتی۔ زیادہ سے زیادہ ہلدی ملا دودھ پلا دیا جاتا۔ گھریلو نسخے کامیاب علاج ہوا کرتے تھے۔ میڈیکل سائنس نے ترقی کیا کی کہ آج کا نوجوان دوائیوں کا ہی ہوکر رہ گیا۔ میرے خیال میں جتنی تیزی سے پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں نے خود کو منوایا ہے شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں منوایا ہو۔ بچے کو پیدائش کے ساتھ ہی ان اینٹی بائیوٹک دواؤں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جب چند دن کے بچے کو اس قسم کی دوائیں تجویز کردی جائیں گی تو جوانی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کی قوتِ مدافعت جواب دے چکی ہوگی۔ اس طریقہ علاج میں مقامی میڈیسن کمپنیوں نے جو تباہی مچائی اُس کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹروں کو مختلف قسم کی رشوت دے کر پابند کردیا جاتا ہے کہ وہ ہماری ہی دوا لکھے۔ ڈاکٹروں سے ڈیل کا یہ خطرناک کھیل تقریباً ہر بڑے چھوٹے ہسپتال میں کھیلا جارہا ہے۔ کہیں ائرکنڈیشنر، تو کہیں غیر ملکی دورے… یہاں تک کہ کسی اچھے ہوٹل میں صرف کھانے کا پیکیج لے کر بھی انسانیت کے دشمن غریب مریضوں کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔ میں نے خود ایک ہسپتال میں معمولی سے زکام کی دواؤں کے ساتھ طاقت کا شربت یعنی وٹامن سیرپ لکھتے دیکھا ہے۔ اب بھلا زکام میں طاقت کے شربت کی کیا ضرورت! مریض بے چارہ پرچی پر لکھی تمام ادویہ لینے پر مجبور ہے۔ بعض ہسپتال انتہائی لوکل دوائیاں صرف اسی غرض سے لکھ رہے ہیں۔ انسانیت کی خدمت سے وابستہ اس پیشے کو ان کالی بھیڑوں نے منافع بخش کاروبار بناکر رکھ دیا ہے۔ یہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ مخصوص کمپنیوں کے میڈیکل ری پریزنٹیٹو کو وقت دیتے نظر آتے ہیں، جبکہ لیبارٹریوں کے ساتھ کمیشن کی بنیاد پر کیا جانے والا کاروبار اس کے علاوہ ہے۔ جب پیسہ بنانے کی ہوس اس معتبر پیشے میں آجائے تو پھر مہنگی اور ہائی اینٹی بائیوٹک لکھ کر اپنے اکاؤنٹ کو تو بڑھایا جاسکتا ہے، اپنے پیشے سے وفاداری نہیں کی جاسکتی۔ اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے اگر چھوٹے بچوں کو بھی اس قسم کی دوائیں استعمال کروا دی جاتی ہیں تو پھر انہیں کم مقدار یا کم ملی گرام کی دوائیں کس طرح اثر کریں گی! مریض پہلے سے استعمال کی ہوئی دوا سے زیادہ ملی گرام کھائے گا تو ٹھیک ہوگا، ورنہ اُس کی حالت مزید خرابی کی طرف جانے لگے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ڈاکٹر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی خاطر بچوں،بڑوں کے جسم میں ادویہ کے نام پر زہر اتارتے جارہے ہیں۔وزارتِ صحت ہو یا صحت سے منسلک ادارے…اب تک کسی کی جانب سے بھی اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سب سے خطرناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس گھناؤنے کام کو بڑھاوا دینے میں اُن اتائی ڈاکٹروں کا ہاتھ ہے جو کسی بھی کچی غریب آبادی میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ علاج کے نام پر یہ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ جو بنا کسی ڈگری کے، ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیں بغیر سوچے سمجھے غریبوں کو استعمال کرواتے جارہے ہیں۔ یہ اتائی کیا جانیں کہ اگر دوا کا ردعمل ہو تو کسی کی جان بھی جاسکتی ہے، بلکہ آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی بھی رہتی ہیں۔ ان اتائیوں کے نزدیک صرف ایک دکان لے کر کسی پرچون کی دکان کی طرح یہ کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے، باقی کا کام مختلف میڈیسن کمپنیوں کے نمائندوں کے سپرد ہے۔ ہر طرح کی دوا کے متعلق بتاکر یہ نمائندگان یہ جا وہ جا۔۔۔ ان ہی کے بتائے طریقے پر 500 اور 1000 ملی گرام کی ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیاں لوگوں کو دے کر یہ اتائی علاج کرکے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ میں ایسے کئی ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جو یہاں اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال پر اچھی رائے نہیں رکھتے، وہ آج بھی مریض کو کم سے کم مقدار میں دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ ایسے کئی بڑے اور قابل ڈاکٹر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو مریضوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کرتے ہیں۔ انہیں نہ غیر ملکی دوروں کا لالچ ہے اور نہ ہی چمچماتی گاڑیوں کا۔۔۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ لوگ اُن کے لیے مثال ہیں جو پیسے کے لالچ میں ساری حدیں پار کرچکے ہیں، جنہوں نے اپنی روزی روٹی کا انحصار غیر متعارف کمپنیوں پر کررکھا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو کسی بھی مقدار کی دوائیں تجویز کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی کمپنیوں کی دوائیں لکھی جائیں جن کا مقام دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے، جو نہ تو لالچ دیتی ہیں اور نہ غیر ملکی دوروں پر بھیجتی ہیں۔ ان کی شناخت ان کی بنائی ہوئی ادویہ سے ہوتی ہے۔
آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے ملک بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ادارئۂ صحت کو ملک کے نامور ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن کے تحت ایسے تمام ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی ہوسکے جو ڈیل جیسے بدنام زمانہ کاروبار سے منسلک ہیں۔ حکومت کے تحت چلنے والے ہسپتالوں پر خاص نظر رکھی جائے تاکہ وہاں آنے والے غریب مریضوں کو ڈیل کے نتیجے میں لکھی جانے والی دواؤں سے بچایا جاسکے۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام بنانا ہوگا جس سے مصنوعی دھندا کرنے والوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

حصہ